ہوچی مِنہہ سے پاکستان تک

ہوچی مِنہہ سے پاکستان تک

”ویت نام میں سورج طلوع ہوا تو دنیا والوں نے دیکھا کہ ہوچی مِنہہ کھڑا تھا اور اپنے سامنے پھیلی بے پناہ طاقت کو للکار رہا تھا۔ اُس نے کہنا شروع کیا کہ اگر تم ویت نام کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتے ہوتو تمہیں چاہیے کہ اس ملک کے آخری مرد، عورت اور بچے کو مار دو۔ تم ہر گھنٹے میں دس بندے مار سکتے ہو لیکن پھر بھی جیت ہماری ہوگی۔ غلامی میں رہنے سے بہتر ہے کہ ہم ہرچیز قربان کردیں۔ ہم ہر قیمت پر آزادی کی جنگ جیتیں گے خواہ سامنے کھڑا آسمان سے باتیں کرتا ٹرواونگ سان (Truong Son) کا پہاڑ ہم پر آگ کا گولہ بن کر ہی کیوں نہ گرے۔ ہوچی مِنہہ نے طاقت کے فرعونوں پر دھاڑتے ہوئے کہا سنو! جب جیل کے دروازے پرامن شہریوں کے لیے کھول دیئے جاتے ہیں تو حکمرانوں کی طاقت کے آدم خور جن کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ ویت نامی لوگ آزادی اور امن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن تمہاری جارحیت اور ناانصافی نے انہیں مجبور کردیا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں۔ اب پورا ویت نام ایک ہوچکا ہے۔ وہ پیچھے مڑا اور انسانوں کے سمندر کو مخاطب کرکے بولا کہ مجھے بنیادی حقوق، انصاف، شہریوں کی عزت اور جمہوریت جیسے لفظوں کے مطلب نہیں آتے تھے۔ انہیں باربار پڑھا لیکن سمجھ نہ پایا مگر جب میں نے لوگوں میں چلنا شروع کیا تو بنیادی حقوق، انصاف، شہریوں کی عزت اور جمہوریت جیسے لفظوں کی مٹھاس میری رگ رگ میں اترنا شروع ہوگئی۔ پھر کیا تھا ان لفظوں نے مجھے کتنا جوش، آگہی اور اعتماد عطا کیا کہ میں خوشی سے رو دیا۔ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھے ہوئے ایسے چیخا جیسے ایک بہت بڑے مجمعے سے مخاطب ہوں۔ میرے پیار ے ساتھیو! یہ ہے وہ چیز جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہی ہے وہ راستہ جو ہمیں آزادی تک لے جائے گا۔ آزادی سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز نہیں ہے۔ ہوچی مِنہہ نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ  مجھے وطن کی محبت سے زیادہ کسی چیز نے متاثر نہیں کیا۔ میں صرف ایک پارٹی کا ممبر ہوں اور وہ ہے ویت نامی پارٹی۔ وطن کے سپوتو! یاد رکھو کہ طوفان صنوبر کے درختوں کو اپنی مضبوطی اور طاقت آزمانے کے لیے بہترین موقعے فراہم کرتے ہیں۔ میری خواہش صرف یہ ہے کہ میری پارٹی اور تمام لوگ جو اس جدوجہد میں مصروف ہیں امن، اتحاد، خودانحصاری اور جمہوریت کو پروان چڑھا کر دنیا کے اہم انقلابوں میں اپنا نام لکھوائیں“۔ اور پھر مورئخ نے ہوچی مِنہہ کی قیادت میں ویت نام کے لیے ایک نیا معجزہ تحریر کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانیوں کو بنیادی حقوق، انصاف، شہریوں کی عزت اور جمہوریت کی مٹھاس کے بارے میں بتایا لیکن حکمرانی مجبوریاں اور عوامی محرومیاں ختم نہ ہو سکیں۔ اُن دنوں یہاں گھاس پھونس کی طرح اگنے والے لوگوں کی تعداد چند کروڑ تھی مگر 75برس تک کیڑے مکوڑوں کی طرح بسنے اور رینگتے رہنے والوں کی تعداد 24کروڑ تک جاپہنچی ہے لیکن اب بھی وہ فیوڈل سسٹم، ناانصافی اور ڈکٹیٹروں کی غلام گردشوں میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ یہاں کے حکمرانوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے، انصاف نہ دینے، گرفتار کرنے اور مارنے والے وہ دنیا کے آخری حکمران ہوں گے۔ ایک دفعہ برنارڈشا نے کہا تھا کہ ”آپ حقیقت میں چیزیں دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کیوں؟ مگر میں ان چیزوں کا خواب دیکھتا ہوں جو موجود نہیں ہوتیں اور پوچھتا ہوں کہ ایسا حقیقت میں کیوں نہیں ہوسکتا؟“ پاکستانیوں نے اپنی عزت اور انصاف کا خواب دیکھا تھا لیکن غریب کی بیٹی کی طرح گھر بیٹھے بیٹھے بالوں میں سفیدی آگئی۔ ایک مرتبہ پھر اس ملک کے شمال جنوب مشرق اور مغرب کے سب لوگ ایک آواز ہوکر کہہ رہے ہیں ”آزادی اور انصاف سے قیمتی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر تم ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتے ہوتو پاکستان کے ہرمرد عورت اور بچے کو مار ڈالو۔ ہم انصاف اور جمہوریت کے لیے ہرچیز قربان کردیں گے۔ سنو ہم امن اور محبت سے رہنا چاہتے ہیں لیکن تم نے ہمیں سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کیا ہے۔ ہم سب کا تعلق ایک ہی پارٹی سے ہے اور وہ ہے پاکستانی پارٹی۔ اِسی لیے جیت پاکستانیوں کی ہوگی۔