مفاداتی جمہوریت

مفاداتی جمہوریت

سابق سپیکر قومی اسمبلی کے لندن سے متعلق ایک بیان نے قومی سیاست میں نئی ہلچل مچا دی ہے، سرکاری ترجمان بڑی بے تابی سے وضاحتیں فرما رہے ہیں، ایک معروف صحافی کی ٹویٹ نے ہل من مزید کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے، سابق وزیر اعظم کی لندن سے واپسی زیر بحث ہے، وزیر داخلہ کو اس بابت پریس کانفرنس کرتے ہوئے قوم کو یہ بھی بتانا پڑا کہ انکے سر سے ’’دست شفقت‘‘ ابھی اٹھا نہیں ،بیان اس لئے کیا ہے تاکہ سند رہے اورکوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔
لندن پلان کے اعتبار سے جو افواہیں زیر گردش ہیں اس سے کسی’’ بڑی ڈیل‘‘ کی بو آرہی ہے، اگرچہ پارٹی قیادت اب بھی ووٹ کو عزت دینے کے بیانیہ کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن سابق وزیر اعظم کی آمد اور مقدمات کا سامنا کرنے پھر رہائی کی باز گشت کسی نئی منصوبہ بندی کا پتہ دیتی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ بڑے میاں جی عصر کے وقت روزہ توڑنے کا رسک لیتے بھی ہیں یا نہیں کیونکہ سرکار کی پارلیمانی مدت ختم ہونے میں صرف ڈیڑھ سال باقی ہے۔
دوسری بڑی پارٹی کے روح رواں نے بھی غیر سیاسی افراد سے رابطوں کا عندیہ دیا اور اپنی سیاسی دانش کا رُعب ڈالتے ہوئے یہ کہاموجودہ حالات سے نجات کے فارمولے اِن سے پوچھے جا رہے ہیں، موصوف نے بھی فارمولے بتانے کی ’’خدمت‘‘ کو سرکار ہٹائے جانے سے مشروط کر دیا ہے، دونوں بڑی جماعتوں کے دعوے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کپتان کو اقتدار کی چھتری فراہم کرنے والے بھی سرکار کی ’’حسن کارکردگی‘‘ سے مطمئن نہیں ہے، ایک طرف مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام تو دوسری طرف  کے پی کے میںبلدیاتی انتخاب میںشکست نے بھی ان قوتوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جو پردھان منتری سے بڑی تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
جس احتسابی ایجنڈا پر تبدیلی کے نام پر سرخ قالین بچھایا گیا تھا، اس کی تکمیل بھی اب اِک ڈرائونا خواب دکھائی دیتی ہے، بھاری بھر قومی سرکاری سرمایہ لگانے کے باوجود اب تلک بلیم گیم لگ رہی ہے، بیرون ملک پڑے اربوں ڈالر کووطن لانے کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔
 اب توسرکار کی غیر شفاف گورننس پر بھی سیاسی حلقوں سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں، کرونا فنڈز پر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ بھی سوشل میڈیا پر زیر مکالمہ رہی ہے۔ایسی صورت حال ہی نے عوام کے دل میں اِن سابق حکمرانوں کے لئے نرم گوشہ پیدا کر دیا ہے، جن کو چور اور ڈاکو کہا جاتا رہا ہے،اس ناگہانی صورت حال پر میڈیا میں جاری الفاظی جنگ نے عوام کو دو راہے پر لاکھڑا کیا ہے کہ وہ کس کے اقوال پر یقین کریں،کس کو اپنا مسیحا جانیں۔
دونوں بڑی جماعتوں کے غیر سیاسی قوت سے روابط کی اطلاعات اگر درست ہیں تو پھر اس سے بڑی ریاست کی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے، ہر پانچ سال کے بعدچوہے بلی کا  ایک نیاکھیلا جاتا ہے،عوامی زبان میں علی بابا ہی تبدیل کیا جاتا ہے، چور ایک جیسے ہی رہتے ہیں۔
ہماری سیاست چند شخصیات کے گرد ہی گھومتی رہی ہے، یہ اسی کا فیض ہے کہ اس خطہ میں ہماری ریاست تعلیم، صحت، معیشت، نظام عدل و انصاف اور بنیادی ضروریات کی فراہمی میں سب سے پیچھے نظر آتی ہے،دونوں بڑی جماعتیں باری باری اقتدار کا جھولا جھولتی رہی ہیں، باوردی سرکار بھی ’’اصلاح احوال ‘‘کے نام پر شب خون مارتی رہی ہیں لیکن اِس وقت بھی کروڑوں بچے سکول سے باہر ہیں، جو تعلیم یافتہ ہیں وہ روزگار سے محروم ہیں، پوری قوم عالمی اداروں کے قرض میں غرق ہے  ہرآنے والی سرکار اپنی ناکامیوں کا ملبہ پرانی حکومتوں پر ڈال کر پارلیمانی مدت پوری کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے، کوئی یہ نہیں بتاتا کہ لیا گیا قرض کہاں خرچ کیا گیا ہے، احتساب کے نام پر ہر سرکار نے ڈرامہ رچایا لیکن خوشحالی اس عوام کو نصیب نہ ہوسکی، منتخب حکومت کو کرپشن کی بنیاد پر نکال باہر کیا جاتا رہا پھر بھی بدعنوانی میں رتی بھر فرق نہیں آیا، ایڈہاک ازم قیام پاکستان ہی سے چل رہا ہے، قبضہ مافیاز کی داستانیں اب عدلیہ میں بھی سنی جارہی ہیں، کوئی شعبہ ہائے زندگی ایسا نہیں جسے مثالی کہا جائے، پھر مقتدر قوتیں اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے لئے کیوں بے تاب ہیں جن کے سبب پوری قوم بیمار ہے۔ 
بنگلہ دیش جس نے ہماری کوکھ سے جنم لیا ہے، اس کی معاشی ترقی میں ہمارے لئے بڑا سبق ہے،غیر سرکاری تنظیموں کی معاونت سیاسی جماعتوں کی باہمی مشاورت سے بنائی گئی قومی پالیسی سے معاشی ترقی برآمد ہوئی ہے، عوام کا معیار زندگی بلند اور برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
عہد ایوب سے لے کر اب تک کی ہماری ہر معاشی پالیسی کا پھل سماج کے مخصوص طبقات کی جھولی میں گرتا رہا ہے، اس وقت بھی محدود طبقہ قومی وسائل سے مستفید ہورہا ہے۔عوام کی بڑی تعداد اس نظام سے مایوس نظرآتی ہے، وہی چہرے ہر پارٹی میں شریک رہ کر بدعنوانی کے خاتمے اور کڑے احتساب کی جب نوید دیتے ہیں، تو ایک نیا دھوکہ سامنے آتا ہے، نسل نو کی مایوسی انھیں وطن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے، کپتان سے اِسی گروہ نے بیش بہا امیدیں وابستہ کی تھیں۔برین ڈرین باہر ہجرت کر رہا ہے ،وزراء اس پر نازاں ہیں بیرون ملک جاب لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اگر یہی ان کا مقدر ہے تو پھر ماں جیسی ریاست کہاں ہے؟
موروثی نظام سیاست سے بھلا بہتری کی امید کیسے ہو سکتی ہے، خاندانوں میں منقسم سیاسی جماعتیں اپنے علاوہ کسی کو پارٹی قیادت دینے پر رضامند ہی نہیں ،انھیں صرف اسی’’ دست شفقت ‘‘کا سایہ درکار جومسند اقتدار تک لے جائے، تاہم دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو انڈیا کی کانگریس پارٹی کا حشر سامنے رکھنا ہو گا جو اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ پروان چڑھنے کی آرزومند تھی۔ 
بڑے میاں جی اُس ریاست سے واپسی کا رخت سفر باندھیں گے جو جمہوریت کی ماں کہلاتی ہے اپنے قیام کے دوران انھیں یہ مشاہدہ تو ہوا ہی ہو گا، امور مملکت کیسے چلائے جاتے ہیں ،قانون کی حکمرانی کس بلا کا نام ہے، عام شہری کس طرح بنیادی سہولیات سے مستفید ہو رہا ہے، لوکل گورنمنٹ کیسے عوام کی خدمت کرتی ہے، اس آئینہ میں وہ اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں جو تین بار اس مملکت کے سربراہ رہے مگر کوئی ایسا میکانزم نہ بناسکے جس پر وہ خود یا شہری نازاں ہوں۔ خوابوں کی تعبیر بتانے والے سندھ کے باسی سیاستدان قوم کو ایک’’ کنوارے وزیر اعظم‘‘ کے آنے کی خبر دے رہے ہیں ،گویا یہ ریاست خالہ جی کا گھر ہے جس میں جو چاہے موروثی پارٹی کے بل بوتے پر اقتدار پر براجمان ہو جائے، اس طرح کی پشین گوئیاں  بڑے گھر سے اشارے کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔
حالات کا تقاضا ہے کہ’’ ڈیل ڈیل‘‘ کھیلنے کے بجائے منتخب حکومت کو پارلیمانی مدت پوری کرنے دی جائے، کسی کو بیساکھی فراہم کرنے کے وعدہ پر عوام کو بغاوت پر مجبور نہ کیا جائے، اس ریاست کا مستقبل آزادانہ، صاف شفاف انتخابات کے انعقاد میں ہے، عوام ہی کو موقع فراہم کیا جائے کہ وہ دیانتداری سے اپنے اہل نمائندے منتخب کرے، بڑی پارٹی کے ذمہ داران کو بھی غیر سیاسی طریقہ اختیار کرنے سے اجتناب کرنا ہو گا، تاریخ میں وہی قیادت زندہ رہی ہے جومفاداتی جمہوریت سے بالا تر ہو کرعوام کے لئے سوچتی ہے۔