فرانس میں مظاہرے بے قابو، 1000 سے زائد افراد گرفتار، 300 پولیس اہلکار زخمی 

فرانس میں مظاہرے بے قابو، 1000 سے زائد افراد گرفتار، 300 پولیس اہلکار زخمی 

پیرس :  افریقی نژاد نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پھوٹنے والے مظاہروں سے نمٹنے کے لیے فرانس نے ہفتے کو 45 ہزار پولیس افسران تعینات کردیے اور متعدد بکتر بند گاڑیاں سڑکوں پر گشت کر رہی ہیں ۔ شمالی افریقی نژاد نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہنگاموں نے فرانس کے شہروں مسلسل 4 روز ہلا کر رکھا ہوا ہے۔

برطانوی نیوز ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق عمارتوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور دکانوں کو لوٹ لیا گیا۔ پُرتشدد مظاہروں نے صدر ایمانوئل میکرون کو 2018 میں شروع ہونے والے ’یلو ویسٹ‘ احتجاج کے بعد سنگین بحران میں ڈال دیا ہے۔

پیرس میں ٹریفک اسٹاپ کے دوران 17 سالہ نوجوان ناہیل ایم کو پولیس کی جانب سے گولی مارنے کے واقعےکے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے اور مشہور شخصیات نے بھی اس قتل پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ ویڈیو میں ان کی موت نے غریب اور نسلی طور پر مخلوط شہری برادریوں کی پولیس تشدد اور نسل پرستی کی دیرینہ شکایات کو دوبارہ جنم دیا ہے۔

وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینن نے ہفتے کی صبح بتایا کہ جمعہ کی رات 270 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جس سے بدامنی شروع ہونے کے بعد گرفتاریوں کی مجموعی تعداد گیارہ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔

جمعہ کی رات کی گرفتاریوں میں جنوبی شہر مارسیل میں 80 افراد شامل تھے جو فرانس کا دوسرا بڑا اور شمالی افریقی نسل کے بہت سے لوگوں کا گھر ہے۔

سوشل میڈیا کی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مارسیلی میں پرانے بندگارہ کے علاقے میں دھماکا ہوا ہے، حکام نے بتایا کہ اس حوالے سے تحقیقات کی جار ہی ہیں لیکن یقین نہیں ہے کہ کوئی جانی نقصان ہوا۔

پولیس نے بتایا کہ وسطی مارسیلی میں فسادیوں نے بندوق کی دکان کو لوٹ لیا اور متعدد شکاری رائفلیں چرا لیں تاہم کوئی گولہ بارود نہیں لوٹا گیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اسٹور سے چوری کی گئی رائفل کے ساتھ ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، اب اسٹور پر پولیس کو تعنیات پر دیا گیا ہے۔

مارسیلی کے میئر بینوئٹ پیان نے قومی حکومت سے مطالبہ کیا فوری طور پر اضافی فوجیوں کو بھیجا جائے، ان کا کہنا تھا کہ لوٹ مار اور تشدد کے واقعات ناقابل قبول ہیں۔

فرانس کے تیسرے سب سے بڑے شہر لیون میں پولیس فورس نے بدامنی پر قابو پانے کے لیے بکتر بند گاڑی اور ایک ہیلی کاپٹر تعینات کیا۔

وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینن نے پورے فرانس میں مقامی حکام سے بس اور ٹرام ٹریفک کو رات 9 بجے سے روکنے کے احکامات دیتے ہوئے کہا کہ 45 ہزار کو تعینات کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے فائر فائٹرز اور پولیس افسران کے لیے لکھا کہ اگلے چند گھنٹے فیصلہ کن ہوں گے، اور میں جانتا ہوں کہ میں آپ کی بے عیب کوششوں پر اعتماد کر سکتا ہوں۔

جیرالڈ ڈارمینن نے بتایا کہ بدامنی پھیلنے کے بعد سے اب تک 200 سے زائد افسران زخمی ہو چکے ہیں اور درجنوں فسادیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے، مزید بتایا کہ ان کی اوسط عمر 17 برس ہے۔

مصنف کے بارے میں