نواز حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کے عروج و زوال

نواز حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کے عروج و زوال
کیپشن: image by facebook

اسلام آباد:پاکستان میں ایک مرتبہ پھر منتخب حکومت اپنا جمہوری دور مکمل کر رہی ہے ،  یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب گذشتہ ایک دہائی کے دوران تسلسل سے ملک میں جمہوری دور رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے اپنی دور میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی مسلم لیگ نواز کی حکومت میں سول ملٹری تعلقات تناؤ کا شکار رہے۔

ذیل میں ہم نے مسلم لیگ نواز کی حکومت کے اُن اُمور پر نظر ڈالی جنھیں اس کی کامیابیاں اور ناکامیاں تصور کیا جا سکتا ہے۔

سیاسی اتفاق 'میاں صاحب ہم آپ کے ساتھ ہیں:

اقتدار سے طویل عرصے سے دوری کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے جب اقتدار سنھبالا تو میاں نواز شریف خاصے پراعتماد اور پرعزم تھے۔

ایوان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرادری نے تو انھیں تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ 'میاں صاحب ابھی ہم سیاست نہیں کریں گے اور سیاست ہم الیکشن کے قریب آخری سال کریں گے۔' مگر پاکستان تحریکِ انصاف نے انتخابات میں دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی جانبداری پر سوالات اُٹھا دیے۔

تحریک انصاف نے ایک سال بعد ہی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات نہ کرنے پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دے دیا۔ اس دھرنے میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہر القادری بھی شامل ہو گئے۔ دھرنے کے شرکا انتہائی حساس علاقے میں پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے اور پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

ان حالات میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دوسری سیاسی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دیا اور پارلیمنٹ میں رہ کر مسئلے حل کرنے پر زور دیا۔ حساس مقامات پر فوج تعینات کر دی گئی اور دھرنے کا زور ٹوٹ گیا۔تحریک انصاف کا یہ دھرنا 126 دن تک جاری رہا اور دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔

دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نیشنل ایکشن پلان:

دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلوائی گئی۔اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے کی منظوری دی جس کے بعد قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ گو کہ اس نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا لیکن ملک میں امن و امان کی حالت بہتر کرنے کی جانب یہ اہم قدم ضرور تھا۔کراچی میں بھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے شرپسند عناصر کے خلاف رینجرز کی سربراہی میں آپریشن ہوا جس کے بعد شہر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گئی۔

یہ بھی ٌپڑھیئے:الیکشن کی تاریخ بدل جانے کا خدشہ ہے:شیخ رشید
 
 
توانائی اور ترقیاتی منصوبے:

انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اقتصادی ترقی اور اصلاحات کے لیے اہم منصوبوں کا اعلان کیا۔ اپریل 2015 میں چین کے صدر شی جنگ پینگ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ انھوں نے نہ صرف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا بلکہ 46 ارب ڈالر کی لاگت سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کا بھی اعلان کیا۔

گذشتہ پانچ برسوں میں ملک میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہوا۔ کراچی حیدر آباد موٹر وے، راولپنڈی اسلام آباد، لاہور میٹرو بس، لاہور اورنج لائن منصوبے، ایل این جی درآمد کے منصوبے سمیت متعدد منصوبے مکمل ہوئے۔

فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام:

مسلم لیگ نواز کے دورِ اقتدار میں قبائلی علاقوں میں برطانوی دور سے رائج ایف سی آر کا خاتمہ ہوا اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے حکومت نے فاٹا میں اصلاحات متعارف کروانے اور اسے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے لیے آئینی ترمیم کی منظوری دی ، فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد صوبائی اسمبلی میں فاٹا کے لیے نشستیں مختص کی گئیں۔

قبائلی علاقوں میں ترقی کے لیے فاٹا کو خصوصی رقم دی گئی اور قبائلی علاقوں میں اب پاکستان کے آئین کے تحت تمام قوانین کا اطلاق ہو گا۔

خارجہ تعلقات کا تاریک دور:
ان پانچ برسوں میں جہاں پاکستان اور چین کے مابین تعلقات میں وسعت آئی وہیں دیگر ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہت خراب رہے۔ تین ہمسایہ ممالک ایران، افغانستان اور انڈیا سے پاکستان کے تعلقات مزید بہتر ہونے کے بجائے خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے مصالحت اور طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا کردار بھی کم ہو گیا ہے۔ ایران کے صدر نے پاکستان کا دورہ تو کیا لیکن اُن کی پاکستان میں موجودگی کے دوران ہی بلوچستان سے انڈین جاسوس گرفتار ہوا۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کابل سے اچانک لاہور پہنچے لیکن یہ اتفاقی ملاقات بھی اعتماد سازی بحال نہیں کر سکی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا ہے لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سالِ نو کا آغاز ہی پاکستان کے خلاف ٹویٹ سے کیا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی امداد بھی روک دی ہے۔

سول ملٹری تعلقات اور ڈان لیکس:
پاناما لیکس کے ہنگامے میں تحریک انصاف جہاں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی وہیں اکتوبر 2016 میں ڈان اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ ایک اجلاس کے دوران سویلین حکام نے عسکری قیادت سے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں یا پھر بین الاقوامی سطح پر تنہا ہونے کے لیے تیار رہیں۔

اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد سول ملٹری تعلقات میں جو کشیدگی 2014 کے دھرنے کے وقت شروع ہوئی تھی وہ مزید بڑھی اور تنازعات کھل کر سامنے آنے لگے۔

ڈان لیکس کی اس خبر کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹویٹ میں اسے مکمل طور پر مسترد کیا گیا اور بظاہر حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کی وجہ سے مشیر اطلاعات پرویز رشید اور طارق فاطمی کو مستعفیٰ ہونا پڑا۔

الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور ختمِ نبوت کا حلف نامہ:
حکومت نے اپوزیشن کی مشاورت سے الیکشن اصلاحات متعارف کروانے کے لیے آئینی ترمیم کی منظوری دی لیکن اس آئینی ترمیم میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے حلف نامے کی عبارت تبدیل ہو گئی۔گو کہ حکومت کا کہنا تھا کہ دفتری غلطی تھی لیکن مذہبی جماعتوں نے اس معاملے پر خوب ہنگامہ کیا۔

تحریک لیبیک یا رسول اللہ نے مخِتلف مذہبی جماعتوں کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے نومبر 2017 میں رولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی شاہراہ پر دھرنا دیا اور وزیر قانون سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔اس دھرنے سے دارالحکومت میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی اور حکومت کی جانب سے دی گئی متعدد ڈیڈ لائنز کے بعد دھرنے کے شرکا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا لیکن اس میں آپریشن میں پولیس اور ایف سی کو پسپائی ہوئی۔آخر میں فوج کی مداخلت سے تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پایا اور پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ کے ترمیمی بل کی منظوری دی۔

یہ بھی پڑھیئے:عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو نتائج خطرناک ہوں گے: خورشید شاہ
 
 

پاناما لیکس اور نااہلی:
ویسے تو پاناما سے قبل بھی کئی مراحل ایسے آئے جب مسلم لیگ کی حکومت کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوا لیکن پاناما لیکس میں نواز شریف اور اُن کے بچوں کی آف شور کمپنیاں تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئیں۔

پاناما لیکس کے بعد کیا ہوا؟نواز شریف اور عدالتیں

 اپریل 2016 میں پاناما لیکس کی افشا ہونے والی دستاویزات میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آنے کے بعد اپوزیشن کے دباؤ پر وزیراعظم نے عدالتی کمیشن بنا کر تحقیقات کروانے کا اعلان کیا۔حکومت اور اپوزیشن کے مابین کمیشن کے ٹرم آف ریفرنسز پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ اگست 2016 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی۔

اکتوبر میں تحریک انصاف نے نواز شریف سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں ایک اور دھرنا دینے اعلان کیا۔ جس کے بعد نومبر میں عدالتی حکم پر عمران خان نے اپنا دھرنا ختم کیا اور سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف درخواست کو منظور کرتے سماعت شروع کی۔فرروی 2017 میں پاناما مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اور اپریل میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ جولائی 2017 میں عدالت میں جمع کروائی اور 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا جس کے بعد انھوں نے اپنے جلسوں میں بارہا یہ سوال اٹھایا کہ ’مجھے کیوں نکالا۔نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو مسلم لیگ ن کی حکومت کا نیا وزیراعظم بنایا گیا اور ان کی سربراہی میں ہی اس حکومت نے اپنا دورِ اقتدار مکمل کیا ہے۔