"پاکستان ……پچتہر برس!"

14اگست 2022ء کو پاکستان کے قیام کے پچتہر برس مکمل ہونے کی مناسبت سے سال 2022ء کو پاکستان کے گولڈن جوبلی کے سال کا نام دیا گیا۔ اس گولڈن جوبلی سال کے دس ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اس کے دوران قیام ِ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے (نظریہ پاکستان)،  قیام پاکستان کی بے مثال جدوجہد اور اس کے قیام سے اب تک کے پچتہر برسوں کے اہم حالات و واقعات کو اجاگر کرنے کے لیے کیا اقدامات کئے گئے؟  عوامی، قومی، ملکی اور سرکاری سطح پر کیا تقاریب منعقد ہوئیں؟  اور نئی نسل کو جو قیامِ پاکستان کے بعد پلی بڑھی اور پروان چڑھی نے ان حالات و واقعات سے کس حد تک آگاہی حاصل کی ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب ڈھونڈنے کی بحث میں نہیں پڑتے کہ ہم ایسی قوم ہیں جو حالات و واقعات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان سے سبق حاصل کرنے کے بجائے انہیں فراموش کرنے کو ہی ترجیح دیتی ہے تاہم معروف مصنف، صحافی، کالم نگار، مورخ اور محقق جناب جبار مرزا تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے14اگست 2022ء کو اپنی قابلِ قدر تصنیف "پاکستان    پچتہر برس" منصہ شہود پر لا کر پاکستان سے اپنی لازوال وابستگی اور محبت کا ثبوت باہم پہنچانے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے۔ "پاکستان    پچتہر برس" کے مصنف جناب جبار مرزا کا نام علمی، ادبی، صحافتی، معاشرتی اور سماجی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں  ہے۔ جیسے اُوپر کہا گیا ہے کہ وہ بیک وقت سینئر صحافی، معروف کالم نگار، اعلیٰ پائے کے مصنف اور مستند مؤرخ اور محقق کی پہچان ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ اُردو نثر نگاری اور شاعری دونوں میں سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ اس وقت تک اُن کی کم و بیش 20کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں اُن کی شاعری اور کالموں کے مجموعوں کے علاوہ دوسرے موضوعات پر کتب بھی شامل ہیں۔ اُن کی دو کتابوں چند سال قبل شائع ہونے والی کتاب "پہل اُس نے کی تھی" اور پچھلے سال شائع ہونے والی کتاب "جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں "کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ یہ دونوں کتابیں ایک طرح کی اُن کی آپ بیتی کے زمرے میں آتی ہیں۔ "جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں "میں انھوں نے اپنی مرحومہ رفیقہ حیات محترمہ شائستہ جبار رانی کی رفاقت میں اپنی بیتی ہوئی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات اور خوبصورت یادوں کا تذکرہ کیا ہے۔ قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ محترمہ جبار مرزا کی اس کتاب یا تصنیف کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی ہے۔ مختصر عرصے میں اس 
کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ 
جناب جبار مرزا کی مثبت سوچ کی حامل خوبصورت اور خوب سیرت شخصیت کا تذکرہ جاری رکھا جا سکتا ہے لیکن ہمارا موضوع ان کی قابلِ قدر تصنیف "پاکستان    پچتہر برس"کا جائز ہ لینا ہے۔ اس کی طرف آتے ہیں۔ "پاکستان    پچتہر برس" جناب جبار مرزا کی بیسویں یا اکیسویں تصنیف ہے۔ 220صفحات پر مشتمل مضبوط جلد، جاذب نظر سرورق، پر کشش گرد پوش اور دبیز سفید آف سیٹ پیپر پر چھپی اس کتاب کو شہریار پپبلیکیشز اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں کچھ نادر تصاویر ہیں جن میں سے چند ایک کا تعلق مشاہیر  پاکستان سے ہے تو کچھ مصنف اور ان کی مرحومہ اہلیہ شائستہ رانی سے متعلق ہیں۔ کتاب کے اندرونی سرورق پر لکھا گیا ہے۔ "اس میں 14اگست 1947ء سے 14اگست 2022 ء تک 75برس پر طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے"۔اس کے ساتھ ہی اندرونی سرورق پر قومی پرچم کے جلو میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ، مصورِ پاکستان ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ اور دیگر قومی راہنماؤں کی شبیہ یا تصاویر چھپی ہوئی ہیں اور ساتھ ہی "قائد اعظم۔۔۔پاکستان کا پہلا بڑا آدمی"کا کیپشن لگا کر بانی پاکستان کو خراجِ عقید ت پیش کیا گیا ہے۔کتاب کے بیک ٹائٹل پر مسلح افواج کے ترجمان جریدے ماہنامہ"ہلال" اُردو کے خوش فکر اور خوش شکل مدیر، معروف ادیب  اور کالم نگار ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کا لکھا ہو ا فلیگ یا تبصرہ چھپا ہے۔ کتاب کا دیباچہ مشہور مصنف اور ادیب جناب محمد احمد ترازی کا لکھا ہوا ہے۔ کتاب کے اندرونی سرورق کی دوسری طرف مصنف جناب جبار مرزا کی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے ساتھ تصویر چھپی ہوئی ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں "پاکستان کا آخری بڑا آدمی"لکھ کر ان کی عظمت کو سلام پیش کیا گیا ہے۔کتاب کا انتساب اول درود شریف کے ورلڈ بینک کے نام کیا گیا ہے جس کے قیام کی سعادت سید حسنات احمد کمال پرنسپل گورنمنٹ ہائی سکول بگا ضلع جہلم کو حاصل ہوئی ہے۔ کتاب کا انتسابِ ثانی پروفیسر نسیم مہتاب کے نام کیا گیا ہے جن کے بارے میں مصنف جبار مرزا نے یہ لکھنا ضروری سمجھا ہے کہ "ان سے میری کوئی ملاقات نہیں، رانی پر لکھی میری کتاب (جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں) مجھ سے خرید کر اسلام آباد کے تعلیمی اور اہل قلم حلقوں میں مفت تقسیم کر رکھی ہے"۔
ڈاکٹر یوسف عالمگیرین نے اپنے بیک ٹائٹل فلیپ(تبصرے) میں کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف اور توصیف ان الفاظ میں کی ہے۔ "بلا شبہ جناب جبار مرزا نے پاکستان کے 75برس مکمل ہونے پر اس کتاب کی اشاعت کو یقینی بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ لوگ پاکستان کے لیے جذبہ رکھتے ہیں اور پاکستان جو صحیح سمت کی جانب گامزن نہیں رہ سکا تو اس کا درد محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کتاب کی اشاعت یقینا قوم کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ اس کاوش پر جبار مرزا قابل صد ستائش ہیں کہ انہوں نے بطور ایک ادیب اور صحافی کے اپنا قومی فریضہ نبھایا  اور پاکستان کے تاریخی پہلوؤں کو ایک دستاویز کی صورت میں یکجا کر دیا ہے۔ "جنا ب محمد احمد ترازی نے بھی کتاب کے دیباچے میں کتاب اور صاحب کتاب کا ذکر بڑے خوبصورت اور توصیفی الفاظ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں " یقینا پاکستانی تاریخ کے حوالے سے سیکڑوں کتابیں پڑھنے کے بعد ہی ایسی تحریر ممکن ہو سکتی ہے۔ اسی لئے یہ قاری کو بہت مشقت سے بچا کر اس کے سامنے پاکستان کے گزرے ہوئے 75برس یوں رکھ دیتی ہے کہ اس آئینے میں پاکستان، حکمران اور عوام نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ "
مصنف جناب جبار مرزا نے کتاب کے مضامین  یا کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کر رکھا ہے۔ باب دوم جو صفحہ 29سے 106تک پھیلا ہوا ہے کتاب کا اہم ترین حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس میں مصنف نے پاکستان کے 75برس، " 14اگست 1947ء سے 14اگست 2022ء کے چیدہ چیدہ کہانی " کے تحت تاریخ پاکستان کے جو اہم واقعات بیان کئے گئے ہیں، بلا شبہ ان کی بڑی اہمیت ہے۔ ان میں بہت سارے تاریخی حقائق کو ہی سامنے  نہیں لایا گیا ہے بلکہ بعض مخصوص حلقوں کی طرف سے تاریخ پاکستان کے بعض اہم واقعات کے بارے میں مخصوص مقاصد کو سامنے رکھ کر جو منفی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے یا حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کی جاتی اس کو بھی بالواسطہ رد کیا گیا ہے۔ 
کتاب کے باب سوم میں مصنف جبار مرزا کے مسلح افواج کے جریدے ماہنامہ "ہلال"میں مختلف اوقات میں چھپنے والے مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ مضامین تاریخی ترتیب سے شامل نہیں کئے گئے ہیں بلکہ انہیں اپنے موضوعات اور اہمیت کے لحاظ سے جگہ دی گئی ہے۔ جناب جبار مرزا کی اس تصنیف کے بارے میں مزید بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن شائد کالم میں اتنی گنجائش نہیں تاہم کتاب میں شامل کئے گئے واقعات اور حقائق کو سامنے رکھ کر بلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصنف جبار مرزا نے ایک بلند پایہ صحافی، مستند مؤرخ اور محقق کے طور پر پوری چھان  پھٹک کرنے کے بعد تاریخ پاکستان کے اہم واقعات کو اپنی کتاب میں شامل کرکے اپنا قومی فریضہ ادا کیا ہے۔ 

مصنف کے بارے میں