انتخابات پر سیاسی نہیں صرف فوجی قیادت سے مذاکرات کروں گا، جنرل باجوہ نے امریکا کو میرے خلاف کیا: عمران خان 

انتخابات پر سیاسی نہیں صرف فوجی قیادت سے مذاکرات کروں گا، جنرل باجوہ نے امریکا کو میرے خلاف کیا: عمران خان 
سورس: File

لاہور : پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ  انتخابات پرحکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے اور اگر بات چیت ہوئی تو وہ ان کی پارٹی کے دیگر اراکین کریں گے ۔ فوج کی موجودہ قیادت سے کوئی رابطہ نہیں تاہم انتخابات کے حوالے سے ان سے بات ہوسکتی ہے۔

زمان پارک لاہور میں "اردو نیوز" کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ وہ حکمرانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو ان کی ٹیم اس میں حصہ لے گی وہ نہیں۔  مذاکرات ہوں گے تو وہ صرف الیکشن کے نقطے پر ہوں گے خود چوروں اور کرپٹ  لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ 

انہوں نے کہا کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ (کے متعلق) بڑی بڑی باتیں چھوڑیں، پہلے تو آئیں الیکشن کے اوپر۔ جو قانون اور آئین کہتا ہے، الیکشن، اگر آپ الیکشن ہی نہیں کروا سکتے، کون سے مذاکرات کرنے ہیں کسی نے کس سے۔اس وقت ہے ہی الیکشن کا معاملہ، اس وقت ملک کا سب سے بڑا معاملہ ہے الیکشن نوے روز میں، وہ نوے روز گزرتے جا رہے ہیں، یہ آئین کی توہین ہو رہی ہے، اس کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ اگر آپ آئین کے اوپر نہیں چل رہے تو اس کے بعد مذاکرات کس چیزکے کرنے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ان کا موجودہ فوجی قیادت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تاہم اگر انتخابات کے حوالے سے بات ہو تو وہ کسی سے بھی کرنے کو تیار ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججز کی حالیہ تقسیم کے پیچھے نواز شریف کا ہاتھ ہے اور یہ ان کی پرانی روش ہے۔ 

انہوں نے پی ڈی ایم کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ نہ ماننے کے اعلان پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ان کی جماعت عدالت عظمٰی کا بھرپور ساتھ دے گی۔ وہ ہیں کون فیصلہ نہ ماننے کے لیے، آپ کی حیثیت کیا ہے؟ ملک کا آئین تو، سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے فیصلہ آئین کی تشریح کرنے کا۔ آپ کون ہوتے ہیں جب سپریم کورٹ کہہ رہا ہے، سارے پاکستان کی قانونی برادری کو پتہ ہے کہ نوے دن میں الیکشن ہونے چاہییں 

عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی تو فوری چیز ہے کہ نوے دن میں انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے، آئین جو کہتا ہے، تو اگر یہ نہیں ہوں گے، اگر ادھر سے نکل جاتے ہیں تو پھر اکتوبر میں کیوں ہوں؟ پھر آپ کہیں گے اگلے سال بھی کیوں ہوں؟ پھر تو جو طاقتور فیصلہ کرے گا تب  ہی الیکشن ہو گا۔

عمران خان نے سکیورٹی اداروں پر الزام لگایا کہ وہ ان کے کارکن اغوا کر کے ان پر تشدد کر رہے ہیں۔اظہر مشوانی کو سات دن کے لیے اغوا کر کے لے گئے۔ اور ہمیں پتہ ہے کون لے کے گیا، نہ ایف آئی اے لے کر گئی نہ پولیس لے کر گئی، ہمیں پتہ ہے کون سی ایجنسی لے کر گئی۔ اور وہ بھی جو کراچی سے اٹھایا ہمارا جو نوجوان ہے۔ اس کو بھی اٹھا کر لے گئے۔‘

  

عمران خان نے کہا کہ ان کی جماعت پر جنرل باجوہ کے دور سے زیادہ سختی کی جا رہی ہے۔ جنرل باجوہ نے ہمارے پر بڑا ظلم کیا۔ کیونکہ یہ ان کی ایجینسیز ہی ہمارے پیچھے تھیں۔ 25 مئی جو پولیس سے بات کرتے تھے وہ کہتے تھے ہمیں پیچھے سے حکم ہے ۔ پولیس نے جو تشدد کیا وہ کہتے تھے پیچھے سے یہ کر رہے ہیں، یعنی جنرل باجوہ کروا رہے ہیں۔ اور ہر قسم کے مقدمے، ہر جگہ میڈیا پر پابندی، ٹی وی چینلز سے پوچھتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ پیچھے سے یہ کروا رہے ہیں تو پیچھے تو جنرل باجوہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید یہ کر رہے تھے کہ جب جنرل باجوہ جائے گا، تو تبدیلی ہو گی تو کوئی تبدیلی آئے گی، کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہی پالیسیز چل رہی ہیں بلکہ اس سے بھی کئی شدت پکڑ رہی ہیں۔ میں نہیں جانتا، مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ کیوں ہے، لیکن مجھے اتنا پتہ ہے کہ ہمارے اوپر اس سے زیادہ تشدد شروع ہو گیا ہے جب باجوہ گیا تھا۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت کی نشستیں جان بوجھ کر کم کروائی تھیں تا کہ ان پر کنٹرول کیا جا سکے۔  تحریک انصاف کے سربراہ نے ایک مرتبہ پھر سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر شدید تنقید کی اور الزام لگایا کہ انہوں نے ان کے خلاف امریکا میں مہم چلائی۔

انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے بڑا گندا کردار ادا کیا ہے اس نے حسین حقانی کو ہائر کیا ہوا تھا ہماری حکومت کے پیسے سے۔ اور وہ بڑی میرے خلاف مہم چلا رہا تھا کہ باجوہ امریکہ کے حق میں ہے اور عمران امریکا کے مخالف ہے۔