سیاست میں کیا ہونے جا رہا ہے؟

سیاست میں کیا ہونے جا رہا ہے؟

حکمران اتحاد قانون سازی ایسے کر رہا ہے کہ جیسے ملک حالت جنگ میں ہے معاملات بگڑ رہے ہیں انہیں سدھارنے کے لئے جو ہنگامی اقدامات اٹھائے ہیں ان کے لئے قانون سازی ضروری ہے اس لئے بل ایسے پیش ہو رہے ہیں کہ حکومتی اراکین بھی پکار اٹھے ہیں کہ ”ایسا نہیں چلے گا“ یہی وجہ ہے کہ ”تشدد و انتہا پسندی کے تدارک کے بل“ پر حکومتی اراکین نے بھی جی بھر کر احتجاج کیا اپوزیشن نے تو احتجاج کرنا ہی تھا یہ شور شرابا اس قدر تھا کہ چیئرمین سینیٹ بھی حواس باختہ نظر آئے اور انہوں نے بل ڈراپ کر دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ انہیں ایسا کرنے کا ہر گز اختیار نہیں تھا جب بل پیش ہو جاتا ہے تو قواعد کے مطابق اسے یا تو منظور کیا جاتا ہے یا مسترد ہوتا ہے ڈراپ کرنے کی نئی رسم چل پڑی ہے۔ سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ بل تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف ہے جبکہ ہمایوں مہمند نے کہا کہ بل پی ٹی آئی کے خلاف سازش ہے۔ یہ بل وزیر مملکت شہادت اعوان نے ایوان میں پیش کیا تھا تو اپوزیشن نے قواعد کے مطابق بل کو قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا جو مبنی بر حقائق مطالبہ تھا حکومی اتحادی جمعیت علما اسلام فضل الرحمان کے رہنما سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کھل کر بل کی مخالفت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں پتہ کہ ہمارے ساتھ کل کیا ہونے والا ہے سینیٹ کا اجلاس بلانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ بل ہمارے لئے طعنہ بنے گا مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ بل قومی اسمبلی میں تو پیش ہی نہیں ہوا اور یہاں یعنی سینیٹ میں اگر منظور ہو گیا تو ہمارے لئے بہت بڑا شکنجہ ثابت ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے بل کے محاسن پر تقریر کی لیکن ایوان کا عمومی مزاج اور ماحول دیکھتے ہوئے صادق سنجرانی نے عافیت اسی میں جانی کہ بل کو ڈراپ کر دیا۔ اور امڈتے ہوئے مخالفت کے طوفان کے آگے بند باندھ دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے درجنوں بل منظور کئے جا رہے ہیں ایسا کرنے میں صرف حکمران اتحادی ہی مصروف عمل نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی بھی اس کار خیر میں شامل ہے۔ پی ٹی آئی نے ایک ایسے بل کی بھی حمایت کر ڈالی ہے جس کے مندرجات کے خلاف وہ پہلے بھی عدالت میں جا چکی ہے۔ بات یہ ہے کہ حکمران اتحاد کو ایسی کون سی جلدی ہے کہ وہ ایسا کررہے ہیں جو قطعاً مطلوب اور محمود نہیں ہے۔ حکمرانی کے آخری ایام میں قانون سازی اور وہ بھی سرعت اور بے قاعدگی کے ساتھ۔ بات دراصل یہ ہے کہ حکمران اتحاد نے 15 ماہی دور میں حکمرانی کی بدترین مثالیں قائم کر دکھائی ہیں۔ سیاست میں
بالعموم اور معیشت میں بالخصوص ایسی شرمناک مثالیں قائم کر دی ہیں کہ ان کے اثرات کے بارے میں خود بھی انہیں مکمل طور پر بھروسہ اور یقین ہے کہ عوام انہیں عام انتخابات میں رد کر دیں گے۔ حکمران اتحاد قومی معیشت کو ڈیفالٹ سے بچانے کی باتیں کرتا ہے آئی ایم ایف کے ترلے کرنے، 1.1 ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لئے 9 ماہ تک ترلوں منتوں کے بعد 3 ارب ڈالر حاصل کرنے کی ”شاندار کا میابی“ کا ذکر بھی کرتا ہے لیکن اس کامیابی کی عوام کسی قدر بھاری قیمت چکا رہے ہیں وہ اگر شاید انہیں معلوم ہے کہ مہنگائی نے عوام کا دیوالیہ نکال دیا ہے عوام مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ قدر زر میں ہولناک پستی، ٹیکسوں کی بھرمار، معاشی سست روی، صنعت کی بندش اور وسیع پیمانے پر بے روز گاری، اشیاء صرف کی گرانی اور کیا کیا بیان کیا جائے جس نے عوام کے کس بل مکمل طور پر نکال دیئے ہیں۔
دوسری طرف حکمرانوں اور اشرافیہ کی عیاشیاں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔ پارلیمنٹرین اور ججز کی مراعات ہوں یا انتظامیہ کے لئے اربوں روپے کی نئی گاڑیوں کی خریداری، ایسے تمام اقدامات جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں، نوجوان بلاول بھٹو کی بطور وزیر خارجہ کارکر دگی کا بہت چرچا کیا جاتا ہے انہوں نے شاید ہی کبھی پیر جہاز سے باہر رکھا ہو وہ پاکستان کے سفارتی تعلقات کو نئی جہت دینے کے لئے غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے ہیں اندرون ملک ان کی پارٹی ان کی ذہانت و فطانت کا بہت ذکر کرتی رہی ہے کارکردگی کا حال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں دنیا کے پاسپورٹوں کی رینکنگ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے چار پست ترین حیثیت رکھنے والے ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔ ماشا اللہ یہ ہے ہماری کارکردگی۔ لیکن ہم نے سرکاری دوروں پر جی بھر کر خرچ کر ڈالا ہے نتیجہ تو ہمارے ہاتھ میں نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔
حکمران اتحاد منجھے ہوئے سیاستدانوں پر مشتمل ہے وہ عوامی تنقید و تحسین کی پروا کئے بغیر ایسے عمل پیرا ہے کہ جیسے انہیں دوبارہ اقتدار میں نہ آنے کا یقین کامل ہے۔ حکومت نے جب بجٹ پیش کیا اس وقت ان کی مدت حکمرانی شاید 45 دن باقی رہ گئی تھی 60 دن عبوری حکومت کے ملا لیں تو زیادہ سے زیادہ 4 ماہ تک کا بجٹ پیش کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے آئی ایم ایف کی ہدایات بلکہ احکامات کے مطابق بجٹ ترتیب دیا اور ایسے ترتیب دیا کہ بس الامان الحفیظ۔ عوام کو سہولت دینے کے بجائے اپنے ایم این ایز اور ایم پی اینر کے کلے مضبوط کرنے کے لئے دل کھول کر فنڈز مختص کئے گئے۔ ترقیاتی سکیموں کے نام پر خزانے کا منہ کھول دیا گیا۔ پنجاب میں 26 ارب 35 کروڑ، سندھ میں 9 ارب 23 کروڑ، بلوچستان میں 2 ارب 58 کروڑ اور کے پی کے میں 8 ارب 96 کروڑ روپے ترقیاتی سکیموں کی مد میں پارلیمنٹرینز کو جاری کئے جانے کی اطلاعات ہیں جبکہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو درست کرنے کے لئے سندھ کو گزشتہ مہینے 15 ارب روپے جاری کئے جا چکے ہیں۔ حکمران اتحاد دستیاب مالی وسائل کی بندر بانٹ اس طرح کر رہا ہے کہ جیسے یہ ان کی اقتدار میں آخری ٹرم ہے انہیں اس کے بعد اقتدار دیکھنا نصیب نہیں ہونے والا ہے ویسے انہوں نے گزرے کچھ مہینوں میں معیشت و سیاست کے ساتھ جو برا بھلا کر دیا ہے وہ اس قدر شدید ہے کہ عوام عمران خان کے 44 ماہی دور حکمران کی تباہی و بربادی بھول چکے ہیں موجودہ حکمرانوں نے عوام کے ساتھ وہ کچھ کر دیا ہے کہ الامان الحفیظ۔ عمران خان ایک بار پھر ابھر کر سامنے آ رہا ہے عمران خان کی مبینہ اور متوقع مقبولیت حکمرانوں کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکی ہے اس لئے حالات کچھ اس طرح ترتیب پا رہے ہیں کہ الیکشن آگے چلے جائیں۔ نگران حکومت کی مدت اقتدار بڑھا دی جائے اور ایک عرصے تک وہ معاملات چلاتے رہیں۔ پنجاب اور کے پی کے میں ایسا تجربہ جاری ہے اور کامیابی سے جاری ہے۔