’’آنا دل کا ٹھہر گیا ہے‘‘

’’آنا دل کا ٹھہر گیا ہے‘‘

منی بجٹ کے دونوں بل سردست منظور نہیں ہو پا رہے اور اتحادیوں کو منوانے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس ماہ جنوری کے وسط تک ملتوی کر دیا گیا ہے جبکہ اس ضمن میں بل کے مسودے سینٹ سے مشاورتی آراء لینے کے لئے ایوانِ بالا میں بھجوا دیئے گئے ہیں… جہاں حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کے لئے اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کو عملاً اس کی تحویل میں دینے کی خاطر ڈٹی ہوئی ہے وہیں اپوزیشن کی جماعتیں سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں کہ ان کے نزدیک معاشی قومی خودمختاری کو بیرونی مالیاتی ادارے کی تحویل میں دے دینا امور مملکت کے اہم حصے پر ناپسندیدہ سمجھوتے کرنے کے مترادف ہو گا… اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک و قوم ابھی بڑے بحران سے نکل نہیں پائے… عمران خان حکومت صوبہ خیبر پختونخوا کے تقریباً چودہ اضلاع کے بلدیاتی انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے بعد اپنے پائوں جما نہیں پا رہی… اسے باہر سے بھی سخت دبائو کا سامنا ہے کیونکہ اس دبائو کے نیچے آنے کے بعد امداد کا جسے اس کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے سخت ضرورت کا سامنا ہے ایک دھیلہ بھی نہیں ملے گا… مگر دوسری جانب اندرون ملک قوم کے بڑے حصے میں اس کے اعتماد کی دیواریںہل کر رہ گئی ہیں… وزیراعظم بہادر جائے رفتن نہ پائے ماندن کی سی کیفیت سے دوچار ہیں… ان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے جس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ موصوف کو ایک صفحے پر ہونے کا بڑا فخر اور ناز تھا اس اعتبار اور اعتماد کی دیوار بریں بھی اس طرح ہل کر رہ گئی ہیں اب قومی حلقوں کے لئے یہ کوئی بڑی خبر نہیں… اس بات کا چرچا بھی ملکی افق پر مسلسل سننے کو آ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ کارپردازان جنہوں نے 2017 میں عدالت عظمیٰ سے ایک بوگس الزام پر تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم کو برطرف اور بعدازاں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے جن کی اپنی ساخت اب مجروح ہو کر رہ گئی ہے نااہل قرار دلوانا تھا… اب لندن میں مقیم نوازشریف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ انہیں باہمی سمجھوتے پر وطن واپس آنے پر آمادہ کیا جا سکے… سپریم کورٹ کوئی دو ہفتے قبل آٹھ ہزار برطرف سرکاری ملازموں کو آئین کی ایک شق کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ہی فیصلے کو واپس لے چکی ہے لہٰذا اس کی نظیر پیدا ہو گئی ہے کہ اس طرح کے فیصلے پر نظرثانی کی جا سکتی ہے نااہلی کی پابندی اٹھائی جا سکتی ہے… یہ خبر بھی عام ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب احسن بھون نے اس سلسلے میں لندن جا کر میاں نوازشریف سے اہم مشاورت کی ہے اور اب وہ عدالتِ عظمیٰ کے پاس نااہلی کے فیصلے کی واپسی کی خاطر ایک اپیل دائر کرنے والے ہیں… اگر یہ اپیل منظور ہو جاتی ہے جس کی اصولی اور اخلاقی تائید ملک بھر کے قانون دان حلقے جن میں جناب اعتزاز احسن جیسے نوازشریف کے سکہ بند مخالف بھی شامل ہیں، کر رہے ہیں تو میاں نوازشریف کے لئے وطن واپس آنا چنداں مشکل نہ رہے گا… انہیں آتے ہی جیل میں بھیج دیا جائے گا یا آزادی سے جاتی امراء میں قیام کریں گے، دونوں صورتوں میں ایک سیاسی طوفان ضرور برپا ہو جائے کیونکہ تمام قومی حلقوں میں ان کا خلاء شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے… اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک بھی ان کے بغیر امور مملکت چلانا مشکل سے مشکل تر ثابت ہو پا رہا رہے … یہ خیال قومی سطح پر راسخ ہوتا جا رہا ہے کہ امور پاکستان کو باحسن وخوبی چلانا ہمارے کرکٹ کے کھلاڑی کے بس کا روگ نہیں رہا… نوازشریف کا سب سے مضبوط اثاثہ یہ ہے کہ ان کے خلاف مالی اور دوسری کرپشن کے جتنے بڑے الزامات ہمارے غیرآئینی مقتدر طبقوں اور ان کا نفس ناطقہ بن کر عمران خان نے پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ لگائے تھے ایک کا ثبوت بھی پیش نہیں کیا جا سکا نہ نیب کچھ کر سکی ہے… اسٹیبلشمنٹ اور حکومت اپنے ذرائع کا پورا زور لگا کر کوئی ٹھوس شہادت سامنے لانے کے قابل نہیں ہوئے… اس امر نے نوازشریف کی قومی اور اخلاقی ساخت کو پہلے سے بھی مضبوط کر دیا ہے جبکہ عمران خان کی بطور حکمران تین چار سالہ کارکردگی کا کھوکھلا پن واضح ہو کر سامنے آ گیا ہے… اس لئے وہ وطن واپس آ کر آزاد شہری کی حیثیت سے رہیں یا جیل بھجوا دیئے جائیں ان کی عوامی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئے گی… مایوس عوامی اور سیاسی حلقوں کے 
لئے مضبوط قومی سہارا بنیں گے… یہی امر ہمارے خان بہادرکو تشویش میں مبتلا کئے جا رہا ہے اور وہ نوازشریف کی ہر طریقے سے آمد کو اپنے لئے بڑا چیلنج سمجھ رہے ہیں لیکن ’’آنا دل کا ٹھہر گیا ہے صبح آیا شام کو آیا‘‘… یوں قومی ڈھانچے کی سیاست ایک نیا اور پائیدار رخ اختیار کر سکتی ہے…
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پرسوں چار جنوری 2022 کو فارن فنڈنگ کیس کے سکروٹنی کیس کا اجلاس بلا لیا ہے… تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو اس ضمن میں نوٹس بھجوا دیئے گئے ہیں… اصل راز سے تو اس وقت پردہ اٹھے گا کہ عمران خان اور ان کی جماعت بیرونی دنیا سے خلاف قانون فنڈز حاصل کرتی رہی ہے یا نہیں؟ لیکن قیاس عام یہ ہے کہ معاملہ ان کی نااہلی پر منتج ہو سکتا ہے شائد کئی دوسری جماعتوں کو بھی الزامات برداشت کرنا پڑیں… ہمارے نزدیک بہترین اور حکیمانہ راہِ عمل یہ ہو گی کہ اس مرحلے پر جبکہ انہیں بلدیاتی اور بالآخر عام انتخابات میں مقابلہ کرنے کا معرکہ درپیش ہے… پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میں ان کی جماعت کی کامیابی کے امکانات خاصے معدوم ہیں… اور اگر نوازشریف واپس آ گئے تو عام انتخابات میں بھی وہ 2023 میں ہوئے یا اس سے قبل ان کے مقابلے کی سیاسی قوتوں کا سامنا آسان نہیں ہو گا… لہٰذا انہیں اپنے ماتھے پر نااہلی کا لیبل لگوا کر شہید بننے کا تاثر عام کئے بغیر آنے والے انتخابات میں قسمت آزمانے کے تمام مواقع فراہم کئے جائیں… تاکہ موصوف کو کھلے میدان میں سیاسی مقابلہ کر کے جیسے ہی کچھ کامیابی یا شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو اس کے مواقع ان پر بند نہ کئے جائیں… آسمان کی آخری حدود کو چھوتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری پہلے ہی ان کی حکومت کو تھپیڑے مار رہی ہے اب جو کل یکم جنوری کو انہوں نے تیل کی قیمتیں اچانک بڑھا دی ہیں اور اس کا لامحالہ اثر اوپر سے نیچے تک تمام اشیائے ضرورت پر پڑے گا… عام آدمی کے لئے اشیائے خورونوش پہلے سے بھی زیادہ ناقابل بیان حد تک پہنچ سے باہر ہو جائیں گی اور جیسا کہ مسلم لیگ ن کے ترجمان زبیر احمد نے کہا ہے کہ افراطِ زر کی شرح اس وقت بھی 13.5 فیصد تک ناقابل بیان حد کو چھو گئی ہے… تو ہمارے خان بہادر کھلاڑی کو ہر صورت میں انتخابی میدان میں اُتر کر پاکستانی عوام سے اپنی کارکردگی کا براہ راست سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہئے… وہ ضرور تمام انتخابات لڑیں اور اس ضمن میں جو بھی نتیجہ سامنے آئے اسے برضا و برغبت قبول کریں تاکہ پاکستان کا سیاسی و انتخابی عمل صحت مند بنیادوں پر آگے بڑھے اور بہت سے قومی تنازعات جو عوام اور ملک کی جان نہیں چھوڑرہے دم توڑ دیں…
لیکن اس سب کے لئے ضروری بلکہ اشد ضروری یہ ہے کہ لندن میں اسٹیبلشمنٹ کے سب بڑے کارپردازوں اور نوازشریف کے درمیان جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان میں ان کی اس تجویز کو من و عن قبول کر کے پاکستان میں آئین و جمہوریت کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے ’’اوپر‘‘ والوں کی جانب سے انتخابی عمل میں کسی بھی پارٹی کے حق یا مخالفت ہر طرح کی مداخلت سے مکمل پرہیز اور کامل اجتناب کا راستہ اختیار کیا جائے اور اس بارے میں کسی بھی قومی یا سیاسی حلقے میں شائبہ تک نہ پایا جائے کہ ’’اوپر‘‘ والوں نے انتخابات کے نتائج کا رُخ موڑنے کے لئے کسی نوعیت کی بھی اثراندازی کی ادنیٰ سی بھی کوشش کی… ہمارے نزدیک قومی جمہوری اور آئینی عمل کو بحال کرنے کے لئے لازم ہو گا کہ حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعتیں بھی ان قومی جمہوری مقاصد کے لئے ڈٹ کر پورے عزم کے ساتھ کھڑی ہو جائیں… پرسوں ایک بڑے اور باوقار علمی ماہنامے کے، جس نے گزشتہ چھ دہائیوں سے قومی اذہان کی مثبت اور اسلامی و جمہوری بنیادوں پر تربیت کی ہے کے موجودہ فاضل مدیر میرے یہاں عیادت کے لئے تشریف لائے… خاصی دیر تک تبادلۂ خیالات ہوتا رہا… ان کی بھی برملا رائے یہ تھی کہ اگر پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام مل کر آئین و جمہوریت کی سربلندی اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے متحد اور یکجان ہو کر یکجا ہو جائیں اور مطلوبہ نتائج کو یقینی بنوائے بغیر دم نہ لیں… ایک قومی تحریک ابھر کر پورے ملکی افق پر چھا جائے توامکان غالب ہے آئندہ شفاف انتخابات کا انعقاد اپنا رنگ دکھائے گا اور ہماری آئینی اور جمہوری زندگی میں نیا نکھار پیدا ہو گا… اس کے لئے یہ امر بھی بنانا ضروری ہو گا کہ 1977 کی تحریک نظام مصطفی کے برعکس جب پاکستان قومی اتحاد کی کچھ جماعتوں نے اندرون خانہ ضیاء الحق جنتا سے خفیہ روابط قائم کر کے مارشل لاء کے قیام کی راہ ہموار کر دی تھی اب موقع ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ڈٹ کر ایک مقصد کے واضح اور قطعی حصول تک آپس میں جڑ کر رہیں، انتخابی نتائج جس کو بھی جو حصہ عطا کریں اسے قبول کر لیں… میں نے بھی 2017 میں میاں صاحب کی برطرفی کے بعد لندن میں ان سے ایک تفصیلی ملاقات کی تھی، ان کے تقاضے پر باقاعدہ لکھ کر آئندہ لائحہ عمل کے لئے کچھ راہیں تجویز کی تھیں… ان میں سے سب سے اہم اور آخری یہ تھی کہ اگر میاں صاحب آئین و جمہوریت کی بالادستی منوانے اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے مطالبے پر ڈٹ کر جمے رہے تو کوئی وجہ نہیں آخرکار حزب اختلاف کی دوسری جماعتیں ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آ کھڑے ہو جانے پر ڈٹ کر مجبور نہ ہو جائیں… وہ اس عزم پر قائم و دائم نظر آتے ہیں… اگرچہ میرے نزدیک ان سے اس لغزش کا اظہار ضرور ہوا کہ نومبر 2019 میں موصوف نے علاج کی خاطر لندن پہنچنے کے فوراً بعد اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کو ہدایت جاری کر دی وہ موجودہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عہدے پر ایک اور توسیع دینے کے بل پرحمایت کرنے کا کہہ دیا… اس سے کچھ اچھی نظیر قائم نہ ہوئی… یہاں تک کہ بعد میں ان کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی برملا کہہ دیا کہ وہ اس گناہ میں خود کو شریک نہیںسمجھتیں… میں نے بھی اسی وقت میاں صاحب کے اس اقدام کی پرزور الفاظ میں گرفت کی تھی… لیکن اس کے بعد انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے بعض چہروں کو بے نقاب کیا ہے اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے کردار کی قلعی کھول دی ہے… اس امر نے امید پیدا کر دی ہے کہ وہ اپنی پائے استقامت میں لغزش نہیں آنے دیں گے اور ان شاء اللہ سپہ سالار آئین و جمہوریت بن کر ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے وطن واپس لوٹیں گے…

مصنف کے بارے میں