نواز شریف اور جہانگیر ترین کی انتخابات کیلئے نااہلی برقرار رہے گی یا نہیں؟ سماعت جمعرات تک ملتوی

نواز شریف اور جہانگیر ترین کی انتخابات کیلئے نااہلی برقرار رہے گی یا نہیں؟ سماعت جمعرات تک ملتوی
سورس: file

اسلام آباد : سابق وزیر اعظم نواز شریف اور آئی پی پی کے قائد جہانگیر ترین انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں?، سپریم کورٹ نے سمات جمعرات تک ملتوی کر دی۔ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات یا پانچ سال ہے کا فیصلہ کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دی گیا۔

 چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سات رکنی بنچ کے سربراہ ہیں۔  بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی  شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے ویڈیو لنک پر شامل ہونے والے وکلا ء کو آئندہ سماعت پر سپریم کورٹ کی رجسٹری اسلام آباد آکر پیش ہونے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ 11جنوری تک کیس کا فیصلہ کردیا جائیگا۔

درخواست گزار امام بخش قیصرانی کے وکیل ثاقب جیلانی  عدالت میں پش ہوئے۔ 

دوران سماعت  اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی سزا پانچ سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ نواز شریف تاحیات نااہلی فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں میں سے کون کون تاحیات نااہلی کی حمایت کرتا ہے؟   درخواست گزار ثناء اللہ بلوچ، ایڈووکیٹ خرم رضا اور عثمان کریم نے تاحیات نااہلی کی حمایت کر دی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت کی حمایت کرتا ہوں اور عدالت سمیع اللہ بلوچ کے مقدمے پر نظر ثانی کرے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آپکا کیا موقف ہے کہ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا عدالتی فیصلے جس پر   اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہالیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا ہوا قانون ہے، عدالت سے درخواست ہے کہ  سپریم کورٹ سے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کے دوبارہ جائزہ لے۔

اٹارنی جنرل نے آئین کاارٹیکل 62،63پڑھا، اٹارنی جنرل نے رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھ کر سنائیں، کاغذات نامزدگی کے وقت سے 62اور 63دونوں شرائط دیکھی جاتی ہیں، انٹری پوائنٹ پر دونوں ارٹیکل لاگو ہوتے ہیں، کچھ شقیں تو حقائق سے متعلق ہیں وہ آسان ہیں، کچھ شقیں مشکل ہیں جیسے اچھے کردار والی شق۔ 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 62 کی وہ ذیلی شقیں مشکل پیدا کرتی ہیں جو کردار کی اہلیت سے متعلق ہیں، کسی کے کردار کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں، اٹارنی جنرل اچھے کردار کے ہیں؟ جس پر پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔ 

چیف جسٹص نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل اچھے کردار کے مالک ہیں؟ اس سوال کا جواب نہ دیجیے گا، صرف مثال کے لیے پوچھ رہا ہوں، سپورٹرز کہیں گے کہ آپ اعلیٰ کردار کے مالک ہیں جبکہ مخالفین بد ترین کردار کہیں گے، اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلیٰ کردار کا مالک ٹھہرایا نہیں جا سکتا، ہم تو گناہ گار ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہے، سپریم کورٹ کسی کے کردار کی ڈیکلئریشن کیسے دے سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔

جیف جسٹس نے کہا کہ ایک مسلمان صادق و امین آخری نبی ﷺ کے علاوہ کسی کو نہیں کہہ سکتا، اگر میں کاغذات جمع کراؤں اور کوئی کہے کہ میں اچھے کردار کا مالک نہیں تو میں مان جاؤں گا۔ انہوں نے مزید کہا یہ شقیں پہلے نہیں تھیں ان کو اب شامل کیا گیا ہے اگر یہ تمام شقیں پہلے ہوتیں تو قائد اعظم بھی نااہل ہوتے۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہو چکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ آئین یہ بھی نہیں کہتا تھا اپ کو رکن اسمبلی بننے کے لیے گریجویٹ ہونا لازم ہے۔ بعد میں ایک ایسا قانون شاید مشرف کے زمانے میں آیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں رد و بدل ممکن ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانون سازی سے بدلا جا سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ قتل اور غداری جیسے سنگین جرم میں کچھ عرصے بعد الیکشن لڑ سکتے ہیں، معمولی وجوہات کی بنیاد پر تاحیات نااہلی غیر مناسب نہیں لگتی؟  کیا الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت آئین سے زیادہ اہم تصور ہو گی؟  جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہو جاتی؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ سزا کاٹ لینے کے بعد بھی کبھی انتخابات نہ لڑ سکے؟ آئین میں ہر سزا کی مدت ہے تو نااہلی تاحیات کیسے ہو گئی؟

بعد ازاں، جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آئے تو  چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو عدالتی معاون مقرر کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن آپ پہلے ہی فریق ہیں، یہ بتائیں کہ آرٹیکل 62 میں یہ شقیں کب شامل کی گئیں؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 آئینِ پاکستان 1973ء میں سادہ تھا، آرٹیکل 62 میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985ء سے شامل ہوئیں۔


چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یعنی ضیاء الحق نے یہ کردار سے متعلق شقیں شامل کرائیں؟ کیا ضیاء الحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ ستم ظریفی ہے کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھا کر آنے والے خود آئین توڑیں پھر یہ ترامیم کریں۔

واضح رہے کہ نا اہلی 62 ون ایف کی بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہوجائیں گے۔ 

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف اور جہانگیر ترین کو الیکشن کیلئے تاحیات نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد گزشتہ حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی تھی اور نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کردی تھی۔ 

مصنف کے بارے میں