مشکل فیصلوں کے اثرات صرف عوام ہی پر کیوں؟

مشکل فیصلوں کے اثرات صرف عوام ہی پر کیوں؟

ہمارے یہاں روایت ہے کہ قومی سطح پر کیے جانے والے فیصلے خواہ وہ سیاسی ہوں یا معاشی اس میں عوام ہی سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ عظیم تر قومی مفاد میں ان فیصلوں کے منفی اثرات کو قبول کریں، مگرامراء، بڑے سرکاری افسران، صنعت کار، تاجروں، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور جاگیرداروںکی مراعات کم نہیں کی جاتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری معاشی پالیسیاں زمینی حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ قرض دینے والے اداروں اور خاص کر آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بنائی جاتی ہیں۔حکومت نے پیٹرولیم منصوعات کی قیمتوں اضافہ کرکے مشکل فیصلے کرنے کی ابتداء کردی ہے۔ امکان ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ممکن ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ  8 سے 9 روپے اضافے کی بھی خبر ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات میں دی گئی تقریبا سو ارب روپے ماہانہ سبسڈی جسے اب بتدریج ختم کیا جارہا ہے، کے حوالے سے دو بیانات ہیں اور دونوں میں بے پناہ تضاد ۔ ایک بیان موجودہ حکومت کا ہے کہ عمران خان کو علم تھا کہ ان کی حکومت ختم ہونے والی ہے اس لیے انہوں نے آنے والی حکومت کے لیے خاص کر معاشی مسائل کا انبار چھوڑ کر گئے۔ دوسرا بیان عمران خان کا ہے جو اپنے وورِ حکومت میں پیٹرولیم منصوعات پر سبسڈی کے حوالے سے کہتے تھے کہ ہم نے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے، جس کی وجہ سے ہم یہ سبسڈی دے رہے ہیں۔حقائق پہلے بیان کی تائید کرتے ہیں۔مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ حکومت چلانے کے حوالے سے پی ڈی ایم کی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔  
پی ڈی ایم اتحاد کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ کاروباری طبقات کی حمایت اسے حاصل ہے۔مسلم لیگ نواز 
بنیادی طور پر جس معاشی نظریے کی حامی ہے اس میں معاشی عمل کو آزاد منڈی کی قوتوں کو طے کرنے کا اختیار ہوتا ہے ، سرمایہ دار، صنعتکار اور تاجر اپنے کاروباری مفادات کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں اور حکومت ان قوتوں کی کارکردگی میں مداخلت نہیں کرتی۔ مگر موجودہ حالات میں غریب عوام جن معاشی مشکلات کا شکار ہیں وہ تقاضہ کرتے ہیں کہ مشکل ترین معاشی حالات میں عوام ہی نہیں بلکہ ملک کا کاروباری طبقہ اور بیوروکریسی بھی اپنا کردار ادا کرے۔  فقط چند برسوں کے لیے کارورباری طبقات کاروباری مفادات کی بجائے ملک اور قوم کے مفادات کے مطابق پالیسیاں بنائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہوسکیں۔  
اس وقت ایک اہم مسئلہ پیڑولیم منصوعات کی درآمد اور اس کے لیے زرمبادلہ کی ادائیگی کا ہے۔ پیڑول کی قیمت میں اضافہ اور امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں بڑھتی قدر بھی ملک میں مہنگائی کا بنیادی سبب ہے۔ مگر اس کی آڑ میں ہوس زر میں مبتلا کارروباری طبقات قیمتوں میں کئی گنا زیادہ اضافہ کردیتے ہیں ، جس سے مہنگائی کی شرح بہت بڑھ جاتی ہے۔ 
ملک کے گھمبیر معاشی صورت حال میں مندرجہ ذیل تجاویز اربابِ اقتدار و اختیار کے سامنے پیش کی جاتی ہیں: ۔ ٭… حکومت پرائس کنٹرول اتھارٹی اور مسابقتی کمیشن کو بھرپور طریقے سے متحرک کرے تاکہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا سدباب ہوسکے۔  اس میں روز مرہ کی اشیاء خورونوش بھی ہیں اور صنعتی مصنوعات بھی۔ 
٭… وہ سرکاری افسران جنھیں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پیٹرول حاصل ہے ۔ ان کی پیٹرول کی مراعات کم کی جانی چاہیے ۔ 
 تمام سرکاری افسران سے مفت بجلی کہ سہولت واپس لی جانی چاہیے  ۔ سات ہندسوں میں تنخواہ وصول کرنے وا لے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے۔ 
٭… انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی  تنخواہوں، ائر ٹکٹ، مفت علاج سمیت دیگر سہولیات فوری طور  پر معطل کی جائیں۔ 
٭… صدر اور وزیر اعظم سمیت وفاقی اور صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات کو بھی معطل کیا جائے۔
٭…گھروں میں رکھے گئے اربوں ڈالر نکالنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جائے۔  
٭… ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اسی  لیے کسان کو کھاد،بیج زرعی ادویات اور  مشینری آسان اقساط پر فراہم کی جائے۔ بجلی ڈیزل اور پانی کم سے کم ریٹ پر فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ فصل کی نقد اور مناسب ترین سرکاری ریٹ پر خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم ہو ۔ 
٭…سوشل سیکورٹی ، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفئیربورڈ کو فعال کرنا چاہیے تاکہ محنت کش طبقے کو مناسب ریلیف مل سکے۔ 
٭… مزدروں کی کم از کم اجرت کی بجائے Living Wage کے اطلاق کو ممکن بنایا جائے۔ 
یہ چند تجاویز زمینی حقائق کو سامنے رکھ کی دی گئی ہیں جو ہر دلِ درد مند کی آواز ہے۔ اگر ان پر حکومت سنجیدگی سے سوچے اور سیاسی اور طبقاتی مفادات سے بالا تر ہوکر غور کرے تو امید ہے کہ بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔لیکن اگر معاشی مسائل کا سارا بوجھ اس غریب عوام ہی نے برداشت کرنا ہے تو پھر وہ صورتحال وہ  ہی ہوگی جو ہمیشہ سے رہی ہے کہ: 
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

مصنف کے بارے میں