خالی کرسی سے معافی

خالی کرسی سے معافی

کیا وقت آ گیا ہے ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان اب خالی کرسی سے معافی مانگ رہا ہے۔ کالے چشمے لگا کر کپتان زیبا چوہدری کی عدالت میں پہنچ گئے اور وہاں جا کر عملے سے کہا کہ محترمہ زیبا چوہدری کو بتائیے گا کہ عمران خان آیا ہے وہ معذرت کرنا چاہتا ہے اگر ان کے الفاظ سے دل آزاری ہوئی ہے تو معذرت۔ کل جو سین ہوا ہے کیا آپ کے خیال میں یہ ایسے ہی ہو گیا ہے۔ کیا عمران خان نے جانے سے پہلے یہ پتہ نہیں کروایا ہو گا کہ جج صاحبہ عدالت میں موجود ہیں یا نہیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ وہ عدالت میں نہیں ہیں تو انہوں نے اپنی انٹری ڈال دی۔ کپتان کے لیے زیبا چوہدری کا سامنا کرنا خاصا مشکل تھا اس لیے انہوں نے اس وقت کا انتخاب کیا کہ ویڈیو بن جائے۔ جیسے پہلے زمانے میں راہداری رسید لکھی جاتی تھی تاکہ وقت ضرورت کام آئے اور راستے میں کوئی پریشان نہ کرے۔ یہ انٹری بھی راہداری رسید کی طرح تھی۔ چاچو کے کندھوں پر سوار ہو کر عمران خان نے اقتدار کو خوب انجوائے کیا۔ چاچو اور عمران نے مل کر مخالفین کے خلاف کون سا حربہ استعمال نہیں کیا۔ سب کے ہاتھ پاؤں باندھ کر عمران خان کو رنگ میں اتارا گیا تھا تاکہ مخالفین کو چاروں شانے چت کرے مگر اس کے باوجود اور سیاسی انجینئرنگ کی بنیاد پر بھی انہیں واضح اکثریت نہیں ملی تھی یا لانے والے اسے بیساکھیوں کے سہارے ہی چلانا چاہتے تھے۔ اس سارے عرصہ میں بقول پرویز الہی نیپی ہی بدلی جاتی رہی اور جب نیپی مہنگی ہو گئی تو اس سے جان چھڑا لی گئی۔
وہ وقت قریب ہے جب کپتان ہر ایک سے معافی مانگے گا۔ مخالفین کے خلاف جو مقدمات بنائے گئے تھے وہ جھوٹے ثابت ہونذ شروع ہو گئے ہیں۔ مریم نواز اور صفدر نے اپنی سزا کے خلاف اپیل کی تھی جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ نے قبول کر لیا اور ان کو دی جانے والی احتساب عدالت کی سزا کو ختم کر دیا لیکن جرم بے گناہی میں کاٹی گئی سزا کا ذمہ دار کون ہے۔ نوازشریف کو بھی اسی مقدمہ میں دس برس کی سزا دی گئی تھی وہ اپنے خلاف مقدمہ کی اپیل کریں گے تو انہیں بھی ریلیف ملنے کے امکانات کافی روشن ہو چکے ہیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ عدالتیں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتی رہیں، سیاست کا تماشا بنا دیا گیا اور سیاست دانوں کو گالیاں دینے کا چلن عام ہوا۔ عمران خان نے دشنام طرازی، جھوٹ اور یاوہ گوئی کی لازوال داستان رقم کی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان نے اپنا بیان حلفی جمع کرا دیا اور ایک بار پھر معافی مانگ لی۔ اپنے بیان حلفی میں انہوں نے لکھا ہے کہ "جج کو یہ تاثر ملا کہ ریڈ لائن کراس ہوئی تو معافی مانگنے کو تیار ہوں۔" اپنے بیان حلفی میں عمران خان نے لکھا ہے کہ توہین عدالت کے مقدمہ کی سماعت کے دوران انہیں احساس ہوا کہ 20 اگست کی تقریر میں شاید ریڈ 
لائین کراس ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے معافی مانگ لی تھی اور عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ آئندہ اس قسم کی بات نہیں کریں گے اور یہ بھی کہا کہ وہ عدالت کے اطمینان کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آج داخل کروائے گئے بیان حلفی میں انہوں نے ایک بار کہا کہ "مکمل عمل کروں گا، عدالت اطمینان کے لیے مزید کچھ کہے تو اس پر مزید عمل کرنے کے لیے تیار ہوں۔"
اپنے بیان حلفی میں انہوں نے اپنے عمل کی ایک بار پھر وضاحت کی ہے کہ ایکشن لینے سے مراد لیگل ایکشن لینے کی بات تھی اور زیبا چوہدری سے ذاتی حیثیت میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔ اسے کہتے ہیں کہ ناک رگڑنا۔ پہلے ہی دن یہ کام کر لیتے تو شائد اس حد تک نہ جانا پڑتا لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے دن معافی مانگنے سے انہیں اپنے مال دکھانے کا موقع نہ ملتا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ سارا کچھ ان کے مال دکھانے کی وجہ سے ہوا ہو۔ فواد چوہدری کی دھمکی آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہیں توہین عدالت میں سزا دے کر دکھائیں کہ وہ پھر کیسے اسلام آباد سے نکلیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تحریک انصاف نے لوگوں کے غیض و غضب کو روک رکھا ہے۔ موصوف آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور دھڑلے سے برس رہے ہیں۔ آخر ان کے پیچھے کوئی تو طاقت ہے جو انہیں یہ سب کہنے کی جرات عطا کر رہی ہے۔ مریم نواز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان اور ان کے کوچ کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اب دونوں گئے۔ فواد چوہدری کی کوچنگ بھی شائد اسی اکیڈمی سے ہو رہی ہے۔ خان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انہوں نے خواجہ آصف کے خلاف 10 ارب کے ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا اور آج عدالت سے اس مقدمہ میں دوسری بار التوا مانگنے پر ایڈیشنل سیشن جج عدنان خان نے ان پر دوسری بار پانچ ہزار روپے کا جرمانہ کر دیا۔ اب خواجہ آصف پر مقدمہ کیا ہے تو عدالت میں حاضر ہوں تاکہ کیس آگے بڑھے مگر وہ اس سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ ان کا طرز عمل یہ ہے کہ ہر معاملہ عدالتوں میں لے کر جا رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تو انہوں نے مقدمات کا بھرمار کر دی ہے۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے پہلے شیخ رشید کو عدالت سرزنش کر چکی ہے لگتا ہے کہ اب ان کی باری ہے۔ چھینک آ گئی چلو اسلام آباد ہائیکورٹ۔ عجیب تماشا لگا رکھا ہے۔ عدالت کو سیاسی مقدمات کی بجائے عام سائلین کے مقدمات کو فوقیت دینا چاہیے جو اپنے فیصلوں اور مقدمات کی سماعت کے لیے انتظار میں لگے ہوئے ہیں۔کیا ان کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔
آڈیو لیکس کے معاملے کا بھی سن لیں۔ تحریک انصاف نے اس کی انکوائری کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آڈیو لیکس کے حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف اور دیگر وفاقی وزرا کے خلاف انکوائری کمیشن بنایا جائے۔درخواست میں رانا ثنااللہ، اعظم نذیر تارڑ اور ایاز صادق کے خلاف فوجداری کارروائی کی درخواست کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ انکوائری کمیشن وزیراعظم شہبازشریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ سے انکوائری کرے جب کہ اعظم نذیر تارڑ، خواجہ آصف، احسن اقبال، ایاز صادق اور  اسپیکر قومی اسمبلی سے بھی انکوائری کی جائے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کو امید ہے کہ جس طرح کا ماحول بن رہا ہے اس میں انہیں سپریم کورٹ سے ریلیف مل سکتا ہے اور سپریم کورٹ اگر انکوائری کمیشن بنا دیتی ہے تو حالات کسی بھی وقت پلٹا کھا سکتے ہیں۔ عمران خان کو ایک اور ثاقب نثار کی تلاش ہے اور وہ اس کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان کا کوچ داؤ پیچ تو سکھا رہا ہے مگر دھوبی پٹکا ابھی تک نہیں لگا۔ 
تاریخ میں ان تمام کرداروں کا نام ملک کے غداروں میں لکھا جائے گا جنہوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر جمہوریت کو ڈی ریل کیا۔ ایک ایسے شخص کو ملک پر مسلط کر دیا جو ملک تو کیا ایک یونین کونسل چلانے کا اہل نہیں تھا اور ان کی غلطیوں کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔