مایوسی میں گھرے عوام!!

مایوسی میں گھرے عوام!!

اللہ پاک پاکستان پر رحم فرمائے۔ جس طرف بھی دیکھیں نت نئے مسائل دکھائی دیتے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے سیاسی، معاشی، سماجی، ہر محاذ پر کوئی نہ کوئی جنگ چھڑی ہے۔معیشت کی حالت گزشتہ تین چار سال سے سنبھلنے میں نہیں آ رہی ہے۔ شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تو امید بندھی تھی کہ معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ مگر تمام تر کاوشوں کے باجود عالمی مالیاتی ادارہ یعنی آئی۔ ایم۔ ایف سے جڑی حکومتی امیدیں پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ آئی۔ ایم۔ ایف بھی بخوبی آگاہ ہے کہ حکومت پاکستان کس مشکل سے دوچار ہے۔ لہٰذا اس کی طرف سے نئی نئی شرائط سامنے آتی ہیں۔ حکومت یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہے۔ ان شرائط کا بوجھ عام شہریوں کو اٹھانا پڑتا ہے تو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔اس سے ایک طرف حکومتی جماعتوں کی مقبولیت متاثر ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ملکی حالات سے بہتری کی عوامی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ نوجوان دھڑا دھڑ اس ملک سے باہر جا رہے ہیں۔چند ہفتے پہلے اس کالم میں ایک سروے کا ذکر میں نے کیا تھا۔اس جائزے کے مطابق نوجوانوں کی اکثریت اس ملک میں اپنے اچھے مستقبل کی امید کھو چکی ہے۔ سیاست دانوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے۔ مگر سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات میں الجھی ہوئی ہیں۔ کرسی کا حصول ان کا منتہائے مقصود دکھائی دیتا ہے، اس کے علاوہ باقی تمام مسائل بھاڑ میں جائیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مطالبہ ہے کہ نوے دن کے اندر انتخابات کروائے جائیں۔ الیکشن کی امید پر ہی انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی اچھی بھلی قائم حکومتوں کی قربانی دی۔ اطلاعات تھیں کہ چوہدری پرویز الہٰی اور کچھ دیگر پارٹی رہنماؤں نے عمران خان کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ مگر خان صاحب نے کسی کی ایک نہ مانی۔ اب عمران خان انتخابات کروانے کے لئے جگہ جگہ دہائی دے رہے ہیں۔ مگر صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکومتی وزارتوں اور اداروں کا موقف ہے کہ ملکی حالات نوے دن میں انتخابات کروانے کے متحمل نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے الگ الگ انتخاب کروانے سے اربوں روپے کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ حکومتی اتحاد کا مؤقف ہے کہ ملک میں انتخابات ایک ہی دن منعقد ہونے چاہئیں، لہٰذا تحریک انصاف چند ماہ مزید انتظار کرئے۔اگرچہ بروقت انتخابات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یقینا یہ ایک جمہوری اور آئینی تقاضا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ ادارے اگر فوری انتخابات کے انعقاد سے معذوری ظاہر کررہے ہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ اگلے دن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے الیکشن ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ الیکشن کمیشن بطور ایک آزاد اور خود مختار ادارہ، الیکشن مؤخر کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ انہوں نے مختلف مثالوں سے واضح کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 58 کے تحت ماضی میں بھی انتخاب مؤخر ہوتے رہے۔ لیکن کسی نے عدالت کا رخ نہیں کیا۔
اس وقت الیکشن میں تاخیر کا معاملہ عدالت میں جا پہنچا ہے۔ اس سیاسی اور انتظامی معاملے میں عدالتی مداخلت کی وجہ سے بیشتر سیاست جماعتیں معترض ہیں۔ سیاست دانوں کا اعتراض اور بے چینی کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے۔ سیاست دانوں نے تو سیاست ہی کرنا ہوتی ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بعض اقدامات نے ان کے ساتھ ججوں میں بھی بے چینی کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ قاضی فائز عیسی، جسٹس مندوخیل اور دوسرے معزز جج صاحبان کی رائے چیف جسٹس کی رائے کے برعکس ہے۔ کچھ جج صاحبان نے چیف جسٹس کے سوموٹو کے اختیار کے استعمال پر بھی اختلاف رائے کیا ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ الیکشن سے متعلق کیس فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے یہ معاملہ تین رکنی بنچ کے حوالے کر دیا ہے جو بہت سے فریقین کو قبول نہیں ہے۔ دو دن پہلے حکومتی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی۔ ڈی۔ ایم نے اس حوالے سے ایک میٹنگ کی۔ اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں حکومتی اتحاد نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ انتخابات کیس میں فل کورٹ نہ بنانے پر 3 رکنی بنچ کا بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں ایک ہی دن میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ اپنے ساتھی جج صاحبان کی اختلافی آوازیں سنیں۔
عدالتوں کا کام انصاف کی فراہمی ہے۔ جب بھی مخالف فریقین میں کوئی قضیہ سر اٹھاتا ہے تو عدالت کا رخ کیا جاتا ہے تاکہ فیصلہ کروایا جا سکے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا خصوصی طور پر بہت زیادہ تقدس اور احترام ہوتا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج پر ساتھی جج اور مختلف حلقے عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ اہم مقدمات سننے کے لئے جو بنچ تشکیل پاتے ہیں ان میں ہم خیال جج شامل ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب پر یہ تنقید بھی ہو رہی ہے کہ وہ مختلف بنچوں میں اپنے ساتھی ججوں کی طرف سے اٹھنے والی اختلافی آوازں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ”ون مین شو“کا تاثر ختم کرنے کی باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ اس ملک میں ادارے پہلے کون سا بہت مضبوط ہیں۔ اگر اداروں کا رہا سہا احترام، ان کا اعتبار اور دھاک بھی ختم ہو جائے تو پیچھے کیا باقی رہ جائے گا؟ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے بارے میں جس طرح کے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں کیا سیاسی کھیل کھیلا جاتا رہا۔ ان انکشافات نے بھی اداروں کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔
سمجھ نہیں آتا کہ اس صورتحال میں ہم آگے کیسے بڑھیں گے؟ ملک کو مسائل کے انبوہ کثیر سے کون نکالے گا؟ دو دن پہلے بلوچستان، ایران سرحد سے دہشت گردوں کی فائرنگ سے پاک فوج کے چار جوان شہید ہوئے ہیں۔غربت کا اندازہ کیجئے کہ مفت آٹے کے حصول میں کوشاں پنجاب، سندھ، اور خیبر پختونخواہ کے غریب شہری بھگڈر مچنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مہنگائی بے روزگاری، لاقانونیت کا طوفان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ حالات قومی یکجہتی کے متقاضی ہیں۔ لیکن اس وقت امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں اور تحریک انصاف ایک دوسرے کی بات سننے اور مل بیٹھ کر کوئی حل نکالنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ افسوس کہ یہ صورتحال عدالت عظمی میں معزز جج صاحبان کے مابین بھی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں عوام سیاست دانوں سے، اداروں سے اور اپنے مستقبل سے ناامید ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ اس بات کی کسی کو فکر نہیں ہے۔