3دسمبر کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داری

Waseem Shaukat Malik, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

اقوام متحدہ نے 1992ءمیں ایک قرارداد کے ذریعے 3 دسمبر کو معذور افراد کا عالمی دن قرار دیا جس کا مقصد معذور افراد کے وقار ، حقوق اور ان کی ضروریات کو سمجھنا معاشرے میں باعزت مقام دلانا،سیاسی ،سماجی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی کے ہر پہلو میں معذور افراد کی رسائی اور انضمام کو ممکن بنانا ۔معاشرے میں معذور افراد کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے ۔
ہمارے ملک میں 15 فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح کی معذور ی کا شکار ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وطن عزیز میں ہر طرح کے معذور افراد کی تعداد تقریباً 3 کروڑ کے قریب ہے جن کا مستقبل انتہائی تاریک اور کربناک ہے معذور افراد جنہیں 1980 ءکی دہائی میں سپیشل پرسنز کا ٹائٹل دیا گیا تھا حقیقت میں وہ سپیشل پرسنز نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں تفنن طبع کا سامان بنتے ہیں انہیں مضحکہ خیز ناموں سے پکارا جاتا ہے ان پر اینٹیں اور پتھر پھینکے جاتے ہیں ،کربناک آوازیں کسی جاتی ہیں ، تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، انتہائی تعصب اور بیگانگی کا عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے ہمارے ہاں سپیشل پرسنز (معذور افراد ) اپنے حق کے لئے احتجاج کریں ، آواز اٹھائیں تو ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے، ڈنڈوں سے پیٹا جاتا ہے ، دھکے دئیے جاتے ہیں، ویل چیئر سے نیچے گرا دیا جاتا ہے، ان سے انتہائی نازیبا الفاظ ،غلط زبان میں بات کی جاتی ہے ۔
ہمارے ملک میں روزمرہ ہونے والے تشدد کی کارروائیوں، دہشت گردی، بم دھماکوں، بڑھتے ہوئے ریلوے ٹریفک کے حادثات اور قدرتی آفات کی وجہ سے جسمانی معذوروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں کارخانوں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے بھی جسمانی معذور لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے حاملہ خواتین کی انتہائی ناقص غذا دوران حمل بے احتیاطی اور زچگی کے دوران غیر تربیت یافتہ عملہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی معذور بچوں کی پیدائش کی ایک وجہ ہے ہمارے معاشرے میں بیشتر والدین معذور بچوں کی پیدائش کو پنے لئے ایک انتہائی مصیبت اور ظلم سمجھتے ہیں۔لڑکی ہو تو سرے سے مصیبت سمجھا جاتا ہے اور اگر لڑکا ہو تو شروع میں تو اسکے علاج پر توجہ دی جاتی ہے مگر جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہ ہمیشہ کے لئے معذور ہے تو اس کو بوجھ سمجھا جاتا ہے بیشتر لوگوں کا رویہ معذور بچوں کے ساتھ انتہائی تعصب سے بھرا ہوتا ہے انہیں وہ عزت پیار اور اہمیت نہیں دی جاتی جوکہ نارمل بچوں کو دی جاتی ہے ان سے جان چھڑانے کے لیے انہیں فلاحی اداروں میں چھوڑ دیا
جاتا ہے کچھ تو دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو ان سے بھیک مانگنے کا کام لیتے ہیں۔
ایک تندرست و توانا، چلتا پھرتا انسان کسی بھی وجہ سے اچانک کسی معذوری کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے دوستوں، رشتہ داروں، یہاں تک کہ کچھ والدین کا رویہ بھی یک لخت بدل جاتا ہے والدین، دوستوں، رشتہ داروں کا یہ رویہ انتہائی کربناک ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حادثاتی اور قدرتی طور پر جسمانی معذور ہو تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ آدمی بالکل ناکارہ ہو گیا ہے اس کا دل و دماغ سب اپنی جگہ درست کام کرتے ہیں عام انسان کی طرح اس کو بھی جینے کا حق ہے اسے بھی محبت، پیار، خلوص اور اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہمارے معاشرے کا رویہ اس سے بر عکس ہے ہر سال لاکھوں معذور علاج معالجہ کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں سرکاری سطح پر ویل چیئر تو دور کی بات انہیں بیساکھیاں، چھڑیاں اور مصنوعی اعضا بھی فراہم نہیں کیے جاتے ہیں بے حس معاشرے کی بے درد فضاءمیں وہ زندہ رہ کر بھی مردوں سے بدتر زندگی گزارنے ہیں انہیں سپیشل پرسن تو کیا تھرڈ کلاس شہر ی کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے
عمومن سرکاری ،نجی اور سماجی تقریبات میں معذور افراد کو دعوت نہیں دی جاتی اور اگر کسی تقریب میں کوئی آبھی جائے تو انہیں مضحکہ خیز نظر وں سے دیکھا جاتا ہے اگر کوئی معذور معاشرے پر بوجھ بننا پسند نہ کرے ،تعلیم حاصل کرنا چاہے یا محنت اور مشقت سے رزق حلال کمانا چاہیے تو اس کے راستے میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں ان پر تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں جس سے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پورے ملک میں جدید آلات سے لیس موثر ایک بھی ادارہ بحالی معذوراں نہیں ہے جہاں معذور افراد کو معذوری کے ساتھ بہتر اور باعزت زندگی گزار نے کی تربیت دی جا سکے۔ جو چند ہیں وہ بھی ضروری آلات سے محروم ہیں۔ ہسپتالوں میں عملہ ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے معذوری کہیں زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات تو غلط علاج کی وجہ سے موت واقع ہو جاتی ہے ۔ ہمارے ملک میں معذور افراد کی کوئی سوشل لائف نہیں ہے انہیں ذہنی خوشی، راحت، آرام و سکون پہنچانے کے بجائے معذوری کا احساس دلا کرمفلوج بنا دیا جاتا ہے وہ احساس کمتری اور محرومی کا شکار ہو کر تنہائی کی اس خلیج کو پہنچ جاتے ہیں جہاں انسان خوبصورت زندگی کی کتاب سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتا ہے جو معذور رات دن محنت کرتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کو ملازمت نہیں دی جاتی اور ان کا مقررہ ملازمتوں کا کوٹہ سیاست دانوں، بیوروکریسی، رشوت خوروں اور سفارشوں کے ذریعے نارمل افراد کو دے دیا جاتا ہے۔ سکول، کالج، یونیورسٹیاں، تعلیمی اور تربیتی ادارے سرکاری ہوں یا غیرسرکاری معذور افراد کے لئے قابل رسائی نہیں ہیں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں اکثر تعلیمی ادارے معذور افراد کو داخلہ دینے سے کتراتے ہیں کبھی بھی سرکاری یا نجی عمارت بناتے وقت معذور افراد کے لئے قابل رسائی اور اس میں بنیادی ضروریات ہونے کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔
ہوٹلوں پارکوں،ریسٹورینٹ ،سینما گھروں، آرٹ کونسلوں، بازاروں، دکانوں ،شاپنگ سینٹروں اور نمائش گھروں کو معذور افراد کی پہنچ کے لئے قابل رسائی نہیں بنایا جاتا ۔۔ٹرینوں ،بسوں ،ویگنوں اور یہاں تک کہ میٹروبس میں بھی معذور افراد کو آسانی سے سفر کی سہولت میسر نہیں ہے۔ قومی اور مقامی فضائی کمپنیاں بھی معذور افراد کو وہ سہولیات مہیا نہیں کرتیں جن کی ضرورت ہوتی ہے۔ معذور فرد کو تنہا سفر کی اجازت نہیں بے شک وہ تنہا سفر کی اہلیت بھی رکھتا ہو جبکہ دنیا بھر کی تمام فضائی کمپنیاں تنہا سفر کی اجازت دیتی ہیں ۔ہمارے ملک کی فضائی کمپنیاں معذور افراد کو مصیبت سمجھتی اور نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہیں ان کے ساتھ بدتمیزی سے گھٹیا برتاو¿ کیا جاتا ہے۔اگر معذور فرد منت سماجت سے بورڈنگ کارڈ حاصل کر بھی لے تو اسے جہاذ سے نیچے اتار دیا جاتا ہے
آخر کب تک پاکستان بسنے والے معذور پستی بھری ، آنسوو¿ں، تکالیف ، نفرت ، اور تعصب سے بھری زندگی میں سسک سسک کر دم توڑتے رہیں گے۔ ملک میں بسنے والے کروڑوں عوام سیاست دانوں ، وکیلوں ، دانشوروں ،تاجروں ، سرمایہ کاروں اور بیوروکریسی، پاکستان کے صدر ، وزیراعظم اور وزیروں ، مشیروں نے کبھی معذور افراد کا مقدر بدلنے کی کوشش نہیں کی ۔ کروڑوں انسانوں کے اس سسکیوں بھرے مقدر کو بدلنے کے لئے نیک نیتی ، خوف خدا اور معذور افراد کی ضرورت مد نظر رکھتے ہوئے سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے۔اس سے پہلے معذور افراد کے لئے جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں ان پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
حالات اور واقعات کا تقاضا ہے کہ ہر پاکستانی ،،سرکاری ادارے ، نجی ادارے ،فلاح و بہبود کی تنظیمیں میدان میں آئیں اجتماعی اور انفرادی طور پر معذور افراد کی فلاح کے لئے اپنی خدمات پیش کریں ۔سرکاری ذرائع ابلاغ ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جو کہ اکثر معذور افراد کو درگزر کرتے ہیں اپنی قومی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے سپیشل پرسنز کے مسائل کو اجاگر کریں ۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ معذور بچوں کو بھی اپنے نارمل بچوں جیسا سمجھیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں ان کو گھروں میں قید کرنے کے بجائے معاشرے کا باعزت شہری بنانے کے لئے بھرپور کردار ادا کریں ۔بچوں کو آپ گھر سے عزت دیں گے ان کی حوصلہ افزائی کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ معاشرے کے کارآمد اور باعزت شہری نہ بن سکیں ۔