ریاستی اداروں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے

Ch Farrukh Shahzad, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

دنیا بھر میں معاشی ترقی کے لیے امن و امان اور جرم سے پاک معاشرہ کلیدی شرط ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال بنایا جاتا ہے۔ آج کے دور کا کرائم ماضی کے روایتی کرائم کی نسبت بہت پیچیدہ ہائی ٹیک اور منظم ہو چکا ہے لہٰذا اس کی سرکوبی کے لیے لاء انفورسمنٹ اداروں کا جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونا ناگزیر ہے۔ اس قومی فریضہ کی بجا آوری کے لیے 2016ء میں اس وقت کی حکومت نے لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کاآغاز کیا تا کہ جرائم، دہشت گردی اور ٹریفک نظام کی روانی جیسے اہم چیلنجوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس پروگرام کے تحت 13ارب روپے کی لاگت سے شہر کے اہم اور حساس مقامات پر 7000 کیمرے نصب کیے گئے جو 24 گھنٹے کی بنیاد پر ڈیٹا ریکارڈ کرتے تھے۔ اس پراجیکٹ کو ساؤتھ ایشیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے بعد ازاں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد اس پراجیکٹ کو چلانا اس کو اپ گریڈ کرنا اور اس کا دائرہ دیگر شہروں تک پھیلانا تھا جس میں بہاولپور، ملتان، راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور سرگودھا شامل تھے۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ لانچنگ کے ایک سال بعد 2017ء میں مال روڈ چیئرنگ کراس پر دہشت گردی کا ایک افسوسناک خود کش واقعہ ہوا جس میں پولیس کے ایک ڈی آئی جی احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل شہید ہوئے جن کے ساتھ 14 دیگر افراد بھی تھے۔ اس واقعہ کے سہولت کار کو سیف سٹی کیمروں کے ڈیٹا کی مدد سے ٹریس کیا گیا اور گرفتار کر کے سزا دی گئی یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو تھا۔ 
پاکستان کا سیاسی کلچر اس طرح کا ہے کہ محلے کی یونین کونسل کا ایک عوامی نمائندہ اگر میونسپل فنڈ سے اپنی گلی میں نکاسیئ آب کے لیے نالی پکی کراتا ہے تو اس پر بھی اس کے نام کی تختی لگائی جاتی ہے کہ اس منصوبے کا بانی کون تھا جس پر اس نمائندے کا نام لکھا جاتا ہے۔ لیکن سیف سٹی جیسے میگا منصوبے کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ اس کو شہباز شریف کا برین چائلڈ قرار دے کر آنے والی حکومت نے اس کو یکسر نظر انداز کر دیا اس نظام کو چلانے اور اس کی اپ گریڈیشن کے لیے Allocate کیے گئے فنڈز کا استعمال روک دیا گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق 45 فیصد کیمرے خراب ہو چکے ہیں اور ان کی مرمت میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ ذرائع کے مطابق 49 کروڑ سے زائد کے فنڈز بغیر استعمال کے واپس ہوئے کیونکہ بعد میں نیب کی 
جانب سے رسوا کن انکوائریوں اور ریفرنسز کا سامنا کرنا پڑتا ہے موجودہ حکومت سیف سٹی کوسوتیلا منصوبہ سمجھتی ہے کیونکہ یہ ان کے سیاسی مخالفین نے شروع کیا تھا اور وہ نہیں چاہتے کہ اس کا کریڈٹ پچھلے حکمرانوں کے کھانے میں چلا جائے یہ ایک غلط سوچ ہے مگر یہ ایک اٹل حقیقت بھی ہے۔ 
اس سارے پس منظر کے باوجود یہ ایک خوش آئند حقیقت ہے کہ گزشتہ ہفتے جوہر ٹاؤن دھماکے کا سراغ بھی سیف سٹی کیمروں کی مدد سے لگایا جا سکا جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جو اس پراجیکٹ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ خوش قسمتی سے موقع واردات کے گردو نواح کے کیمرے شاید کام کر رہے تھے۔ 
اس پراجیکٹ کو ن لیگ کے کھاتے میں ڈال کر اس سے صرف نظر کرنا ایک بہت بڑی قومی خیانت ہے جو کہ ناقابل معافی ہے۔ یہ انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس پراجیکٹ کو سرد خانے میں ڈالنے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس پر ہرا اول دستے کا کام کرنے والے Human Resources کو حکومت بدلنے کے بعد نئی حکومت نے کھڈے لائن لگا دیا۔ اگر وہ ٹیم تتر بتر نہ ہوتی تو شاید یہ پراجیکٹ اس وقت 6 مزید شہروں میں لانچ ہو چکا ہوتا۔ 
گورننس کے تقاضوں کے مطابق جب آپ نئے ادارے نہیں بنائیں گے اور پرانے اداروں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے تو حکمرانی میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گا۔ اگر پچھلی حکومت کا کوئی ادارہ آپ محض اس لیے فیل کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس کا الزام ماضی کے حکمرانوں پر لگایا جا سکے تو یہ بدنیتی اور بے ایمانی کے مترادف ہو گا۔ 
لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کے آغا ز پر یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اگر اس کو صحیح خطوط پر چلایا گیا تو یہ 4 سال کے اندر اپنی لاگت پوری کرے گا۔ اس وقت ایک سروے ہوا تھا کہ ٹریفک میں پھنسنے کی وجہ سے عوام کا جتنا وقت ضائع ہوتا ہے اس کی مالیت 100 ملین روپے سالانہ ہے۔ اس کے علاوہ ٹریفک جام میں جو زائد پٹرول ضائع ہوتا ہے وہ الگ ہے اسی طرح ٹریفک کی خلاف ورزیوں سے ہونے والے حادثات کی مد میں جانی اور مالی نقصانات میں کمی کی نوید بھی سنائی گئی تھی۔ 
لاہور سیف سٹی کی ایک اور مثال شاہدرہ چوک میں اس سے پہلے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے حادثات کے اعداد و شمار ہیں جب سے وہاں کیمرے لگے ہیں حادثات میں کمی آ چکی ہے، جس کا کریڈٹ اس پراجیکٹ کا فریم ورک بنانے والوں کو جاتا ہے۔ 
یہاں پر لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کے بانی اور پہلے چیف آپریٹنگ آفیسر موجودہ ڈی آئی جی پولیس اکبر ناصر خان کی کتاب "Surveillance and Security" کا حوالہ دینا مناسب ہو گا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ شخصی پرائیویسی ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر سکیورٹی اور جان و مال کا تحفظ ایسی اطمینان بخش یقین دہانی ہے کہ اس کے حصول کی خاطر عوام الناس اپنی پرائیویسی گروی رکھنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ ریاست کی طرف سے انہیں ضمانت دی جائے کہ حکومت ان کی جان و مال کا تحفظ کرے گی۔ 
اگر لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کے آغاز کے وقت اس سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں مطلوبہ اہداف کے حصول اور آرزوؤں کی تکمیل ہو جاتی تو عوام اپنی سکیورٹی کے لیے اپنی جیب سے پیسہ دینے پر تیار ہو جاتے اور آگے چل کر کارپوریٹ طبقہ جو سکیورٹی پر لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے وہ ریاستی سکیورٹی نظام میں معمولی رقم کے عوض اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اس پراجیکٹ کو وسیع تر قومی مفاد کی خاطر تمام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر از سر نو منظم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔