لانگ مارچ منزل کی جانب رواں دواں

لانگ مارچ منزل کی جانب رواں دواں

 ہماری رائے میں یہ لانگ مارچ نہیں ہے بلکہ عمران خان گذشتہ چھ ماہ سے جو جلسہ جلسہ کھیل رہے ہیں یہ اسی کا تسلسل ہے ورنہ آپ خود سوچیں کہ لبرٹی سے شروع ہو کر لاہور کے اندر ہی ایم اے او کالج تک اور پھر دوسرے دن شاہدرہ سے شروع ہو کر کچھ آگے اور اگلے دن مرید کے سے شروع کرنا اور اس دوران کوئی تسلسل نہیں اور پندرہ پندرہ بیس بیس کلو میٹر کے فاصلہ کو چھوڑ دینا۔ در حقیقت یہی ہو رہا ہے کہ عمران خان ایک جگہ خطاب کرتے ہیں تو آدھے پونے گھنٹہ کا خطاب اور اس کے بعد محض چند کلو میٹر کا فاصلہ طے ہوتا ہے اور بات اگلے دن پر چلی جاتی ہے جس جگہ خان صاحب خطاب کرتے ہیں تو وہاں پرمحض چند ہزار کا مجمع ہوتا ہے لیکن لانگ مارچ میں وہ ساتھ نہیں ہوتا اور یہ تحریک انصاف کی اپنی حکمت عملی ہے کہ جو مجمع جہاں کا ہے وہ وہیں پر رہے گا اور دوبارہ اس لانگ مارچ کو اسلام آباد میں آ کر جوائن کرے گا۔ خان صاحب اب تک حسب معمول اپنے مخالفین پر جن میں وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانے پر رکھے ہوئے ہیں خوب گرج برس رہے ہیں اور خان صاحب کی دھواں دھار تقاریر پر سوشل میڈیا میں کسی نے کیا خوب کہا کہ عمران خان گذشتہ چھ ماہ سے اپنی ہر تقریر میں یہ تو بتا رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو کیسے گرایا گیا لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ 2018میں ان کی حکومت کو بنایا کیسے گیا۔خان صاحب ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کا ہر بندہ انقلاب لانے پر تلا بیٹھا ہے کہ ہم اب حکومت میں آ کر یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے لیکن یہ بھی نہیں بتا رہے کہ گذشتہ پونے چار سال کی حکومت میں انھوں نے کیا تیر مارا ہے۔2018میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تھی تو اس کے بعد اکثر نواز لیگ کے رہنما کہتے تھے کہ ہمارے دور کے فلاں منصوبہ پر سست روی سے کام ہو رہا ہے لیکن ایسی کوئی بات تحریک انصاف کی جانب سے اب تک اس لئے سنائی نہیں دی کہ کوئی منصوبے شروع کیا ہو گا تو اس کے متعلق کہیں گے جب کچھ ہے ہی نہیں تو کیسے کہیں گے۔
جمعہ کو جب لاہور سے لانگ مارچ شروع ہوا تو محترم وزیر اعظم کی جانب سے انتہائی عجلت میں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انتہائی حماقت میں ایک کثیر رکنی کمیٹی بنا دی گئی اور کہا گیا کہ یہ کمیٹی لانگ مارچ کے حوالے سے مذاکرات کے لئے بنائی گئی ہے۔ اس کمیٹی کے بنانے سے عوام پر یہ تاثر گیا کہ عمران خان لانگ مارچ کر کے حکومت پر جو دباؤ ڈالنا چاہتے تھے حکومت نے وہ دباؤ لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی لے لیا ہے اور عمران خان کے لئے اپنے مطالبات کو منوانا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ اس دوران الیکٹرانک میڈیا کی ایک بڑی اکثریت نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں اور امید ہے کہ 
بات بن جائے گی اور خان صاحب اگر فروری میں الیکشن کہتے ہیں اور حکومت اکتوبر میں تو کچھ خان صاحب آگے جائیں گے اور کچھ حکومت پیچھے آئے گی لہٰذا قوی امید ہے کہ معاملات مئی میں الیکشن پر طے ہو جائیں گے لیکن پھر حکومت کو عقل آئی کہ وہ کیا کر بیٹھی ہے اور پھر سب سے پہلے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان سے کسی بھی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور الیکشن اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کو بھی ہوش آیا اور انھوں نے بھی کہا کہ آرمی چیف کا تقرر حکومت کرے گی اور الیکشن بھی اپنے وقت پر ہوں گے اور انھوں نے تحریک انصاف سے مذاکرات میثاق معیشت پر کرنے کی بات کی تھی۔ اس دوران رانا ثناء اللہ نے بھی مذاکرات کے امکانات کو رد کرتے ہوئے دو چار بھڑکیں لگا دیں۔ اس کے ساتھ ہی دو دن بعد لندن سے میاں نواز شریف کا ایک انتہائی سخت بیان آ گیا کہ یہ ایک ناکام لانگ مارچ ہے اور عمران خان کو فیس سیونگ بھی نہیں دینی۔اس بیان سے حکومت جو پہلے بھی پر اعتماد تھی اسے مزید تقویت ملی۔لانگ مارچ نے پہلے جمعہ والے دن اسلام آباد پہنچنا تھا لیکن اب اس کے لئے نو دن کا وقت کر دیا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ وقت مزید بڑھ جائے اور اس کی وجہ یہی سمجھ آتی ہے اور جس کا اعتراف بھی لانگ مارچ میں خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے کیا ہے کہ ان کے مقتدر قوتوں سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور اسلام آباد جانے میں تاخیر اسی وجہ سے ہو رہی ہے کہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہے۔ 
جس طرح صدر عارف علوی نے اپنے انٹر ویو میں کہا تھا کہ عمران خان نے مایوسی کے عالم میں قومی اسمبلی تحلیل کی تھی تو اب بھی خان صاحب جس طرح کی تقاریر کر رہے ہیں اس سے ان کی فرسٹریشن تو واضح ہوتی ہے اور وہ ہر حال میں مسند اقتدار پر فائز ہونا چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے انھیں جو بھی قربانی دینا پڑے اور جس حد کو بھی پار کرنا پڑے انھیں اس کی پروا نہیں ہو گی۔ انھیں قطعی اندازہ نہیں ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے لیکن ان کی سوچ یہی ہے کہ 
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو 
اور وہ اپنے مفاد کی خاطر کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے رانا ثناء اللہ نے علی امین گنڈا پورکی ایک آڈیو سنوائی جس میں آٹھ سو اسلحہ بردار اسلام آباد میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اور جب اس حوالے سے علی امین گنڈا پور سے پوچھا گیا تو انھوں نے انکار بھی نہیں کیا بلکہ کہا کہ اگر ہم پر تشدد ہو تو ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد سے اس شخص کو گرفتار کر لیا ہے لیکن اب خیبر پختونخوا کے ایک وزیر کا بیان آ گیا ہے کہ وہ اسلحہ لے کر اسلام آباد جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا فیصل واوڈا کے انٹر ویو میں اس مارچ کو اگر خونی مارچ کہا گیا تو انھوں نے اپنی معلومات کی بنا پر ہی ایسا کہا لیکن تحریک انصاف میں جو لوگ ایسے بیان دے رہے ہیں ظاہر ہے کہ وہ عمران خان کی اجازت کے بغیر تو ایسا نہیں کر سکتے بلکہ اب تو خونی انقلاب کی باتیں خود عمران خان بھی کر رہے ہیں اور یہی بات مذاکرات کی ناکامی اورعمران خان کی حد سے زیادہ فرسٹریشن کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ مارچ شروع ہونے سے پہلے وہ خود اس کے پر امن ہونے کا یقین دلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اس میں فیملیز بھی آئیں گی اور انجوائے کا ماحول بھی ہو گا لیکن اب اگر مارچ اور مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے وہ مارچ کو خونی بنانا چاہ رہے ہیں تو اس سے ایک تو جنھوں نے مارچ میں آنا تھا وہ بھی فساد کے ڈر سے نہیں آئیں گے اور دوسرا پاکستان میں دور دور تک گولی سے انقلاب کا وقت ہے اور نہ ہی ماحول لہٰذا اگر تحریک انصاف نے ایسی غلطی کی تو اس سے کسی اور کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔

مصنف کے بارے میں