بونگیاں اور بلنڈرز!

بونگیاں اور بلنڈرز!

ہم صرف سیاستدانوں کی ”بونگیوں“پر ہی بات کرسکتے ہیں۔دیگر اہم شعبوں سے وابستہ اہم شخصیات کی ”بونگیوں“پر بات نہیں کرسکتے۔ ویسے وہ ”بونگیاں“مارتے بھی نہیں۔بونگی مارنے کے عمل کو وہ اپنی ”توہین“سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے شایان شان بڑے بڑے ”بلنڈرز“کرتے ہیں۔جن کے نتیجے میں پاکستان آدھا رہ جاتا ہے۔اور جو آدھا رہ جاتات ہے وہ بھی اتنا کمزور کر دیا جاتا ہے۔اس کے مقابلے میں جو آدھا چلے جاتا ہے وہ بے شمار شعبوں میں آگے نکل جاتا ہے……چند ماہ قبل سیاستدانوں نے جو ”بونگی“بلنڈرز کرنے والوں کی ”اشکل“یعنی آشیر باد سے ماری اس کا خمیازہ پورے ملک کو اب ایک بڑے ”فتنے“کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔یہ ”فتنہ“پھیلتا جارہا ہے بڑھتا جارہا ہے،یہ ایسی ”چھپکلی“ہے جو کسی سے اب نگلی جارہی ہے نہ تھوکی جارہی ہے۔یہ حلق میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس ”چھپکلی“نے بڑے بڑے ”اژدہوں“کو گھما کے رکھ دیا ہے……اس فتنے کو اگر اقتدار کی مدت پوری کرنے دی جاتی،جس جس قسم کی نااہلیاں وہ دکھا رہا تھا۔خدا کی قسم اس کا نام ونشان اب تک مٹ چکا ہوتا۔مگر کسی ”انجانے خوف“نے بے شمار قوتوں کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا۔جتنے نکمے پن کا مظاہرہ یہ فتنہ اپنے اقتدار میں کررہا تھا یہ مراد سعید کو وردی پہنا کر آرمی چیف بنا دیتا وہ بھی 2023 ء کا الیکشن اسے شاید نہ جتوا سکتا۔یہ درست ہے اصلی قوتیں اپنے تازہ لاڈلے کو الیکشن جتوانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس لئے ہر سیاسی حکمران اپنا ”چیف“لانا چاہتا ہے۔یہ الگ بات ہے اپنا ”چیف“بعد میں اپنا ”چیف“نہیں رہتا۔سو یہ تقرری اگر حقیقی میرٹ پر کی جائے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں۔المیہ یہ ہے پاکستان میں میرٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی۔پاکستان کے آدھے بلکہ پورے مسائل ہر شعبے میں میرٹ اور دیانت قائم کرکے حل کئے جا سکتے ہیں۔ کاش پاکستان میں دیانت کا ایسا ماحول قائم ہو جائے کوئی حکمران کسی بھی اہم عہدے پر میرٹ سے ہٹ کر تقرری کرنے لگے تو جس کی تقرری ہو نے لگے وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔وہ عرض کرے”اس منصب کے لئے مجھ سے سینئر لوگ موجود ہیں،میں اس کا اہل نہیں“……ایسی ”جرات انکار“کی روایت اگر قائم ہو جائے۔پاکستان ترقی کی عظیم منازل بڑی تیزی اور بڑی آسانی سے طے کر سکتاہے۔پر افسوس یہاں ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے اور انجام گلستاں سب کے سامنے ہے۔……جہاں تک ”فتنہ خان“کا تعلق ہے اس کا مسئلہ ہرگز فوری الیکشن نہیں۔یہ مسئلہ تو وہ کے پی کے اور پنجاب کی اپنی اسمبلیاں توڑ کر بڑی آسانی سے حل کرسکتا ہے۔اس کا اصل مسئلہ ماہ رواں میں ہونے والی آرمی چیف کی تقرری کا ہے۔پچھلا الیکشن چونکہ اس نے اسی منصب کی سہولت کاری سے جیتا تھا۔اگلا الیکشن دو تہائی اکثریت سے جیتنے کے لئے بھی وہ اسی منصب کی معاونت و سہولت کاری چاہتا ہے۔اس لئے وہ یہ چاہتا ہے یہ تقرری پاکستان کے آئین وقانون کے بجائے تحریک انصاف کے آئین اور قانون کے مطابق ہو۔اور اس میرٹ کے مطابق ہو جس میرٹ پر اس نے بزدار جیسے نکمے ترین شخض کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا تھا۔……وہ تو شکر ہے خان صاحب کا ”لانگ گواچا مارچ“مختلف ناکامیوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ لانگ مارچ ان کی توقعات کے عین مطابق عظیم الشان ہوتا وہ ایک نیا مطالبہ شروع کردیتے کہ اگر کچھ جرنیل سیاست میں آسکتے ہیں تو کچھ سیاستدان جرنیل یا آرمی چیف کیوں نہیں بن سکتے؟لہٰذا عثمان بزدار کو آرمی چیف بنایا جائے،اور اگر کسی وجہ سے اسے آرمی چیف نہیں بنایاجا سکتا تو ہم پی ٹی آئی کے تین لوگوں کے نام دیتے ہیں اور وہ تینوں عثمان بزدار ہیں ……ویسے ہم خان صاحب سے یہ گلہ کرتے ہیں کہ پنجاب میں بزدار کو وزیر اعلیٰ بنا کر صوبے کو انہوں نے تباہ کر دیا۔ہم یہ کس سے پوچھیں 2018ء کے الیکشن کے نتیجے میں مرکز میں بزدار جیسے ایک شخص کو لا کر مرکز کو کس نے تباہ کیا؟؟؟۔اس ”مرکز خان“نے عزت آبرو،وقار اور اخلاقیات کے ہر مرکز کو تباہ کرکے رکھ دیا۔سوائے اپنے سیاسی و ذاتی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے کچھ نہیں وہ کر سکا۔اور اپنی اس کوشش میں بھی وہ ناکام ہو گیا۔اب کہتاہے میرے پاس اختیارات نہیں تھے۔اس کے پاس بس ایک ”چھنکنا“تھا جسے بجا کے وہ فارغ ہو گیا۔اسی کی غلط حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا آج اس کے سارے سیاسی مخالفین اقتدار میں ہیں،اور خود وہ اقتدار سے اس طرح باہر ہے دوبارہ اندر آنے کے امکانات بھی کم ہیں۔البتہ اندر جانے کے امکانات بہت روشن ہیں۔……عجیب بونگاشخص ہے یہ ……دوسرے بے شمار سیاستدانوں کی طرح عام سی اس حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکاجو اقتدار میں لے کے آتے ہیں وہ اقتدار سے نکال بھی سکتے ہیں۔……اپنی حمایت سے دستبردار بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ یہ غلط کہتا ہے ”بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وہ اقتدار میں آیا“وہ بائیس برس مزید جدوجہد کرتا رہتا اقتدار سے کوسوں دور ہی رہتا اگر اس کے وہ ”سہولت کار“اپناکام نہ دیکھاتے جو آج اس کی گالیوں کی زد میں ہیں۔ اس کے پاس دو راستے تھے۔ایک راستہ یہ تھا کچھ معاملات میں نرمی اختیار کرکے اپنے محسنوں کے ساتھ وہ جڑا رہتا اور اقتدار کی مدت پوری کر لیتا۔یہ راستہ اس نے شاید اس لئے نہیں چنا کہ اقتدار کی مدت پوری ہونے پر کارکردگی کے اعتبار سے اس نے بری طرح اور پوری طرح ایکسپوز ہو جانا تھا۔……اس نے دوسرا راستہ اپنایا۔اپنے سہولت کاروں یا محسنوں سے اس حد تک بگاڑ لی ان کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ ہی نہ بچا سابقہ ”چوروں اور ڈاکوؤں“سے اپنے روابط وہ بحال کر لیتے۔سو خان صاحب کے ذاتی چور و ڈاکو آج دوبارہ اقتدار میں ہیں تو اس میں خیر سے بنیادی کردار خان صاحب کا اپنا ہے۔ان ”چوروں اور ڈاکوؤں“کے اصل محسن خود خان صاحب ہیں۔اب اقتدار میں آنے کے بعد ان کے کرپشن کیسز ہو رہے ہیں،نیب آرڈی نینس میں ترمیمیں ہو رہی ہیں،ان کی سزائیں معاف ہو رہی ہیں تو اس کے اصل ذمہ دار بھی خان صاحب ہیں اور اگلے الیکشن میں اپنی تمام تر مقبولیت کھو جانے کے باوجود وہ آرٹی اے سسٹم ڈاؤن ہونے کی صورت میں پھر اقتدار میں آگئے۔اس کے ذمہ دار بھی خیر سے خان صاحب ہی ہوں گے۔……خان صاحب کے پاس صرف ایک ”مقبولیت“ہی رہ جانی ہے جو کافی حد تک ”رہ“بھی گئی ہے۔خان صاحب کو چاہئے اپنا نام ”مقبول“رکھ لیں تاکہ وہ جب مقبول نہ رہیں ہم پھر بھی انہیں ”مقبول“ہی کہتے رہیں!!

مصنف کے بارے میں