عمران خان حقیقتاً خطرناک ہو چکے ؟

عمران خان حقیقتاً خطرناک ہو چکے ؟

پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں بہت اہم بات کہی ”ن لیگ نے عمران خان کے خلاف کیسز سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے“۔ شاہد خاقان عباسی ایک معتبر سیاستدان ہی نہیں بلکہ وہ زبان و بیان کے حوالے سے بھی ایک انتہائی معقول اور معتبر شخصیت کے طور پر جانے، پہچانے اور مانے جاتے ہیں اس لئے ان کی بیان کردہ بات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ن لیگ کی سیاسی قلابازیاں اور بوالعجبیاں بھی تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مقتدر حلقوں نے نوازشریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے جو کچھ کیا وہ بھی شرمناک تھا اور عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے 2018 میں جو کچھ کیا وہ بھی شرمناک تھا لیکن نوازشریف نے منظر سے ہٹتے وقت جو بیانیہ ترتیب دیا وہ درست ثابت ہوا اور نکالے جانے کے بعد انہوں نے اسی بیانیے کو زیادہ زور سے بلندآہنگ میںدہرایا تو انہیں عوامی تائید ملی۔ ان کی مظلومیت نے انہیں عوام میں اور بھی مقبول بنایا۔ پھر جب انہوں نے گوجرانوالہ کے ٹیلیفونک/ مواصلاتی خطاب میں جب تین جرنیلوں کا نام لے کر انہیں اپنے خلاف سازش کرنے اور منظر سے ہٹائے جانے کا ذمہ دار قرار دیا تو ان کی عوامی پذیرائی میں اور بھی اضافہ ہوا۔ اس سے پہلے کوئی سیاستدان اتنی جرا¿ت نہیں دکھا سکا تھا کہ وہ حاضر سروس جرنیلوں کا نام لے کر انہیں سازش کنندہ قرار دے سکے چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو ہی کیوں نہ ہو۔
عمران خان کی حکومت اپنی ناکارکردگی اور نالائقی کے بوجھ تلے دبتی چلی جا رہی تھی۔ عمران خان تقریروں پر تقریریں کرتے اور مخالف سیاستدانوں کو لتاڑتے، پکارتے، للکارتے چلے جا رہے تھے جبکہ ان کی حکمرانی پست سے پست ترین ہونے جا رہی تھی پارٹی صفوں میں انتشار اور کارسرکار میں افتراق نے پی ٹی آئی کی عوامی پذیرائی میں پستی پیدا کر دی تھی۔ ماہرین پی ٹی آئی حکومت (مرکز+ پنجاب) کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے تھے اور تجزیہ نگاروں کے بقول اگلے برس (اکتوبر 2023) ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی عبرتناک شکست یقینی تھی اس پس منظر میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران حکومت کو چلتا کیا گیا۔ 10 اپریل کے بعد اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے عمران خان ایک نئے انداز میں سامنے آئے انہوں نے ایک دن بھی بغیر کچھ کئے، بغیر رکے اور بغیر شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے خاتمے کی کاوشیں کئے نہیں گزارا۔ وہ گزرے 4 مہینوں یا اس 
سے کچھ زیادہ عرصے میں حکومت کے خلاف کام کرتے کرتے تمام حدود پھلانگ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کو غیرملکی سازش کہا اور اندرون ملک میر جعفروں اور میر صادقوں کا ذکر بھی کیا انکار اور نفرت کے بیانیے کو پروان چڑھایا جس سے ان کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوا۔ شہباز شریف نے عمران خان کے ایسے رویوں کے حوالے سے خوب سچ کہا کہ ”وہ ملک دشمن، مکار، فریبی وغیرہ وغیرہ ہے اس نے پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کی کیا یہ ملک دشمنی نہیں ہے؟“
فارن فنڈنگ کیس ہو یا توشہ خانہ ریفرنس، توہین عدالت کیس ہو یا دہشت گردی کا معاملہ، عمران خان کو اس وقت سنگین الزامات کا سامنا ہے بادی النظر میں یہ کیس تگڑے اور سنجیدہ نوعیت کے ہیں جن میں سے بچ نکلنا آسان نہیں لگتا لیکن ہمارے مقتدر حلقے بھی سیدھے سادے نہیں ہیں ان کی بچھائی ہوئی بساط بھی عام فہم اور سیدھی سادی نہیں بلکہ پیچ دار ہے وہ بھی ایک کھیل میں مصروف ہیں حسب سابق معاملات کو اپنے ہی انداز میں چلانے اور بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اپریل 2022 میں جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو ایک آواز یہ بھی اٹھی تھی کہ عمران خان کو 2/3 اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لانے کے لئے ایسا کچھ کیا گیا ہے یہ بیانیہ تھوڑی دیر کے لئے چلا تھا اور پھر یکدم غائب ہو گیا۔ گزرے 4 ماہ کے دوران عمران خان کی سرگرمیوں کا مطالعہ اس حوالے سے بڑا دلچسپ ہے ۔ ایک طرف اتحادی حکومت کے اقدامات ہیں حکومت کی طرف سے بنائے جانے والے کیسز ہیں دوسری طرف ان کیسز کے حوالے سے عمران خان کا ری ایکشن اور عدالتیں ہیں۔ ابھی تک عمران خان بڑے محفوظ اور مامون انداز میں اپنی عوامی پذیرائی بڑھانے میں مصروف ہیں وہ ہر کام کر رہے ہیں جس سے حکومت زچ ہوتی ہے، کمزور دکھائی دیتی ہے، وہ حکومت کو امپورٹڈ بھی کہتے ہیں اور اس سے کسی قسم کا رابطہ رکھنے یا اس کے ساتھ بیٹھنے سے بھی انکاری ہیں وہ ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں جس سے حکومت ناکام ہوتی نظر آئے۔ انہیں معلوم ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے معاملات طے ہونا کس قدر اہم تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستانی معیشت تباہی کے کنارے کھڑی تھی اور اگر آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات طے نہ ہوتے تو ڈیفالٹ بھی ہو سکتا تھا۔ اس کے باوجود ان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے پنجاب اور کے پی کے کے وزراءخزانہ پر دباﺅ ڈال کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات سے علیحدگی کا خط لکھانے کی کاوش کی اور اس حوالے سے جو آڈیو لیک قوم کے سامنے آئی ہے وہ عمران خان کے اس طرز فکروعمل کی غمازی کرتی ہے جس کا ذکر وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں اپنے ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ خطاب میں کیا۔ عمران خان حصول اقتدار کے لئے شہباز شریف حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اس قدر گر سکتے ہیں اس قدر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئیں گے کہ وہ سب اقدار بھول جائیں گے۔ عملاً ایسا ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ خاقان عباسی کا بیان ”تاریخ بتاتی ہے کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے“ ملاحظہ کریں تو حقیقت احوال واضح ہوتی ہے۔ عمران خان جس ایجنڈے پر گامزن ہیں پاکستان کو افتراق و انتشار کے حوالے کرنے، سول وار کی طرف لے جانے اور انارکی پھیلانے کے جس مشن پر مامور ہیں وہ قدم بقدم اس کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں انہیں معاونت بھی مل رہی ہے، سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ بھی ہو رہا ہے ان کے خلاف سنجیدہ نوعیت کے کیسز بھی ہیں لیکن وہ بلاخوف و خطر اپنے مشن پر آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک پوری نسل ایسے ہی افکار و نظریات کے مطابق تیار کر لی ہے اور اب وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ میں ”خطرناک ہو گیا ہوں“ وہ اسلام آباد پر دھاوا بولنے، اپنے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں ”پھر فیصلہ عوام کریں گے“ کی دھمکیاں بھی لگا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان حقیقتاً خطرناک ہو گئے ہیں ایسا خطرہ جس کا تدارک ضروری ہے۔

مصنف کے بارے میں