جب دوبارہ آئے گاعمران

جب دوبارہ آئے گاعمران

عمران خان بطورانسان سابق صدرآصف علی زرداری اوروزیراعظم شہبازشریف سے ایک نہیں ہزاردرجے بہترہونگے اور ہمیں اس میں کوئی شک اورشبہ بھی نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بطورحکمران عمران خان نہ زرداری سے بہترہیں اورنہ ہی وزیراعظم شہبازشریف سے۔۔75سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ آج ملک جس دوراہے پرکھڑاہے یہ سب اسی کپتان کی دین ہے۔سترسالہ گندصاف کرنے کے لئے اقتدارمیں آنے والے عمران خان نے محض چار سال میںکراچی سے گلگت اورچترال سے کشمیرتک جوگندکیاہے اس کی وجہ سے اب سمجھ ،بوجھ اور شعور رکھنے والے لوگ سترسال کوبھی تقریباً بھول گئے ہیں۔یہ ملک معاشی وانتظامی طورپرآج یہ جوآخری ہچکیاں لے رہاہے یہ بھی کپتان ہی کے کرشمے اورکارنامے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ کپتان کے ان تازہ تازہ کرشموں اورکارناموں کے باوجود اچھے بھلے اور پڑھے لکھے لوگ آج ایک مرتبہ پھرکپتان کے ہاتھ میں اقتداردیکھنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔کپتان کوپھرسے ملک کاحکمران بنانے سے ہزارنہیں لاکھ درجے بہترہے کہ اس ملک کوگلی محلے میں پھرنے والے کسی بھکاری کے ہاتھ دے دیاجائے کم ازکم اخلاقیات کااس طرح جنازہ نکلے گااورنہ ہی معیشت کابیڑا اس طرح غرق ہوگا۔شہبازحکومت کوتین ماہ کی کارکردگی پرناکامی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے عمران خان کے خیرخواہ،پروانے اوردیوانے خان کی ساڑھے تین چار سالہ حکمرانی کے وقت کہاں تھے۔۔؟ شہباز حکومت نے دوتین ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اب تک جوکچھ کیایاکررہی ہے یہ وہی فصل توہے جوعمران خان نے ساڑھے تین چارسال میں اس ملک کے اندربوئی تھی۔عمران خان آئی ایم ایف کے قدموں میں گر کر ملک کے اندراگرمہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے بیج نہ بوتے توآج شہبازحکومت کویہ فصل کاٹنا نہ پڑتی۔ کوئی مانیں یانہ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ موجودہ حکومت نے ایک دونہیں اکثرمسائل اورگناہ عمرانی حکومت کے اپنے سرلیکرآج بھی کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔عمران خان نے اپنے ساڑھے تین چار سال میںمعاشی تباہی اوراخلاقیات کی بربادی کے سوااس ملک کواور دیاکیا۔۔؟کپتان 
کوپھروزیراعظم بنانے کے خواب دیکھنے والے کیایہ بھول گئے کہ یہ وہی کپتان ہے جن سے دوتین مہینے پہلے بیگانوں کے ساتھ اپنے بھی پناہ اورنجات کی دعائیں مانگ رہے تھے۔یہ وہی کپتان توہے جن کی حکمرانی میں مہنگائی، کرپشن، لاقانونیت اور بے انصافی کو نئی رفتار ملی۔ ایک اچھے اور خوشحال ملک کو محض چار سال میں کپتان نے بربادی کی جس نہج تک پہنچایاوہ بیان کرنے سے بھی باہرہے۔ایک دیوالیہ والی بات رہ گئی تھی باقی تقریباً تمام ترآفتوں اوربلاؤں سے خان نے اس بدقسمت ملک کو دوچار کیا۔اسی لئے مسلم لیگ ن سمیت پی ڈی ایم میں شامل دیگرجماعتوں اورپارٹیوں کے خیرخواہوں نے اپوزیشن والوں کو حکومت عمرانیہ کے گناہ اپنے سرلینے اوراقتدارسے دوررہنے کامشورہ دیاتھا۔۔مگر۔۔کچھ شہرکے لوگ  بھی ظالم سن۔۔اور۔۔کچھ ہمیں بھی مرنے داشوق سی۔شائدشہبازشریف کووزیراعظم والی شیروانی پہننے اورن لیگ کوسیاسی خودکشی کرنے کاکچھ زیادہ شوق تھااس لئے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے،سننے اورسمجھنے کے باوجودانہوں نے نہ جانے کس خوشی میں عمران خان کے تمام گناہ انتہائی عزت،احترام اورادب کے ساتھ اپنے سرلے لئے۔دوسروں کے گناہ اپنے سرلینے والوں کے ساتھ پھرکیاہوتاہے۔۔؟یہ منظربھی وزیراعظم شہبازشریف اورن لیگ کی قیادت نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ساتھ جوکچھ ہوایہ عمران خان کے انہی گناہوں کواپنے سرلینے کانتیجہ ہی تو تھا۔پی ڈی ایم والے عمران خان کوسال ایک اوراقتدارمیں رہنے دیتے تواس ملک سے کپتان کی سیاست کاجنازہ نکلنے کے ساتھ تبدیلی تبدیلی کی رٹ لگانے اورگن گانے والوں کے کیڑے بھی مرجاتے مگرافسوس شہباز، زرداری اور مولانا کو اقتدار کے مزے لینے کی کچھ زیادہ جلدی تھی۔پی ڈی ایم رہنمائوں کی اس جلدبازی کا اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ ن کو بہت نقصان ہوا۔ چارماہ پہلے لوگ کپتان اوران کے کھلاڑیوں کوجن مسائل کاذمہ دارسمجھ رہے تھے آج وہی لوگ کپتان کوبھول کراس گندااوران مسائل کاذمہ دارصرف ن لیگ وشہبازشریف کوسمجھنے لگے ہیں۔ہم مانتے ہیں کہ عمران خان کواقتدارکی گلی سے رخصت کرنے کے بعداتحادی حکومت اوروزیراعظم شہبازشریف کوعوام کوجوریلیف دینا چاہئے تھاوہ انہوں نے نہیں دیا۔عمران خان کی طرح ان کی حکمرانی میں بھی مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کم نہیں ہوئی۔ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ کل کے مقابلے میں آج عوام کے لئے زندہ رہنازیادہ مشکل ہوگیاہے۔ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ اتحادی حکومت ابھی تک آئی ایم ایف اورڈالرکوبھی قابونہیں کرسکی ہے لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ ملک کی معیشت کا بیڑا غرق اوراخلاقیات کاجنازہ نکالنے والے کپتان کوپھرسے حکمران بنا کر اقتدار ان کے ہاتھ دے دیاجائے ۔وزیراعظم شہباز شریف اگرملک چلانے اورنظام سنبھالنے کے اہل نہیں توایک بات یادرکھیں عمران خان بھی حکومت سنبھالنے کے قطعی قابل نہیں۔دوبارہ اقتدار اور حکومتی نظام عمران خان جیسے ناکام حکمران کے ہاتھ میں دینایہ ملک کومعاشی اور اخلاقی طور پرڈبونے کے مترادف ہوگا۔جوکپتان چارماہ پہلے تک چار سال میں بھی ملک وقوم کے لئے کچھ نہ کرسکے وہ اب دوبارہ اقتدارمیں آکرکیاکر لیں گے۔۔؟جلسے ،جلوسوں میں تقریریں جھاڑنے ،سیاسی مخالفین کوگالیاں دینے اورحکومت چلانے میں زمین وآسمان کافرق ہے۔ماناکہ عمران خان ایک کامیاب مداری کی طرح جلسے اورمیلے لوٹنے کاگراچھی طرح جانتے ہیں ،یہ سچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ کاجامہ پہنانے کے ہنرسے بھی مالامال ہیں لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ کپتان کواقتدارسنبھالنے کاکوئی تجربہ ہے اورنہ نظام وحکومت چلانے کاکوئی پتہ۔نظام مملکت چلانے کے لئے جوش سے نہیں ہوش سے کام لیناہوتاہے اوراس بات وحقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ہوش والی نعمت سے محروم بلکہ یکسرمحروم ہیں۔اس لئے اس وقت معیشت کی بے جان لاش ونعش کے سرہانے بیٹھ کرجن لوگوں نے پھرسے،،جب توآئے گاعمران،، والے گانے پرناچناشروع کیاہے ان کی خدمت میںصرف اتناعرض ہے کہ عمران خان کے دوبارہ آنے سے اب کی بار نیاپاکستان بنے یانہ۔۔لیکن یہ پراناپاکستان قبرستان ضروربنے گا ۔اس لئے یہ ناچنے،کودنے اور اچھلنے والے جب دوبارہ آئیگاعمران،بنے گانیاقبرستان والے اس گانے کوبھی سامنے رکھیں۔

مصنف کے بارے میں