’’نیا‘‘ پاکستان

’’نیا‘‘ پاکستان

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا عظیم اور مشہور و معروف مکتبہ فکر دیوبندیت جس کا سرچشمہ یو پی (بھارت) میں قائم عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبندی سے پھوٹتا ہے اور جس نے اپنی ڈیڑھ پونے دو سال کی تاریخ میں تحریک آزادی میں حصہ لینے والے جید علمائے کرام پیدا کیے جن میں کانگرس کے سرکردہ رہنما مولانا سید حسین احمد مدنی اور مسلم لیگ کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دینے والے علماء علامہ شبیر احمد عثمانی بھی شامل تھے… ان کے معتقدین  پورے پاک و ہند میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے دینی مدارس چلا رہے ہیں… ان سب حضرات کو مژدہ ہو کہ ان کی طویل اور جاں گسل جدوجہد اس منزل اور مقام پر جا پہنچی ہے کہ افغانستان کی پوری کی پوری ریاست ان کے تسلط میں آ گئی ہے جہاں وہ اپنی تشریحات کے مطابق اسلامی نظام حکومت و معاشرت کو فروغ دے سکتے ہیں اور جسے نمونے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش بھی کر سکتے ہیں کہ یہ ہے وہ اصل اسلام جس کے نفاذ کی خاطر ان کی بلند مرتبہ ہستیوں نے اپنا علم و فکر نچوڑ کر رکھ دیا تھا اور پون صدی کے دوران پیروکاروں کو صوفیانہ شعائر کے ذریعے روحانی بالیدگی سے سرشار کیا… نئی حکومت افغانستان کے اندر مولانا حسین احمد وغیرہ کو فقہی و روحانی امام کا درجہ حاصل ہے لیکن اسے وجود میں لانے میں چونکہ پاکستان نے مدد دی ہے لہٰذا اس کی طنابیں درحقیقت یہاں پاکستان کے ہاتھ میں ہیں… اسی طرح اہل دیوبند کے مقابلے میں اپنی دینی تشریحات کا پُرجوش مقابلہ کرنے والے برصغیر کے ہی ایک مکتبہ فکر جو بریلوی کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے اور جس کی شاخیں بھی اہلِ دیوبند کی مانند برصغیر کے اطراف و عالم میں پھیلی ہوئی ہیں… مولانا احمد رضا بریلوی جیسے چوٹی کے عالم دین اور وجد آفرین نعتیں اپنے پیچھے چھوڑ جانے والی شخصیت کو اپنا امام گردانتے ہیں کے لیے بہت بڑی خوشخبری کا واقعہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک نے انہیں اتنی بڑی سیاسی کامیابی ملی ہے کہ لمحہ موجود کے اندر ان کی سب سے بڑی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کو دہشت گردوں کے گروہ کی بجائے باقاعدہ ایک سیاسی و مذہبی تنظیم کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے اور ان کا مقام اب فورتھ شیڈول کے پولیس کو مطلوبہ افراد کا نہیں رہا بلکہ پاکستان کے معزز ووٹر ہیں ان کی جماعت کی جڑیں ملک کے اندر ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں… پچھلے دو انتخابات میں انہوں نے اپنا مضبوط ووٹ بنک ثابت کر دیا ہے اب 2023ء میں پورے لائو لشکر کے ساتھ سیاسی اور انتخابی کارِزار میں اترنے کا ارادہ رکھتی ہیں… نام نہاد سیکولر یا دنیادار جماعتوں مثلاً مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جیسی جماعتوں کے چھکے چھڑا کر رکھ دینے کا عزم باندھے ہوئے ہیں یہ تینوں جنہیں پاکستان کی بڑی قومی جماعتیں کہا جاتا ہے ان کے آگے پانی بھرتی نظر آتی ہیں… اس سے بڑھ کر بھی یہ کہ تحریک لبیک کے بارے میں عام تاثر یہ ہے اسے ملک کی اعلیٰ ترین مقتدر قوتوں کی خفیہ حمایت اور ظاہری سرپرستی بھی حاصل ہے لہٰذا کوئی مائی کا لعل ان کے مقابلے میں اترنے کا یارا نہیں رکھتا… یوں پاکستان کے اندر اور گردوپیش میں ایسی تبدیلی رونما ہوئی ہے جو کہ یوں مذہبی جماعتوں کا کھل کر مقابلہ کر سکے…
پسپا ہونے والی جماعتوں میں تحریک انصاف کے مقابلے میں بلاشبہ ہر صوبے کے اندر چند علیحدگی پسند گروہ بھی پائے جاتے ہیں لیکن پسپائی اختیار کرنے والی جماعتوں میں وہ قومی جماعتیں بھی شامل ہیں جو آئین اور دستور کے دائرہ عمل سے باہر نکل کر سیاست کرنے پر بالکل آمادہ نہیں ہوتیں… اگرچہ ان میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں لیکن ان میں سے ایک نے بھی اصولی طور پر بنیادی آئینی اصولوں پر کھلے عام سمجھوتہ نہیں کیا اسی بنا پر آئین پاکستان اصل حالت میں موجود ہے اسی امر کو مقتدر حلقوں میں ان کی سب سے بڑی خرابی گردانا جاتا ہے لہٰذا ان کا وجود انہیں ہر آن کھٹکتا ہے… وقتی سمجھوتہ ہو بھی جائے تو اندر ہی اندر لڑائی چھڑ جاتی ہے… مقتدر قوتوں اور سول حکمرانوں کے درمیان کشمکش پروان چڑھتی ہے… اس کے شاخسانے کے طور پر پیپلز پارٹی اور نوازشریف کو اپنی مدت پورا کرنے کی مہلت نہ دی گئی… دونوں سیاسی رقیب تھے ان پر انواع و اقسام کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی جو ابھی تک ان کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں ان کے متبادل کے طور پر تمام قسم کی دھاندلی کو رو بہ عمل لا کر عمران خان جیسے صاف ستھرے کھلاڑی کو میدان میں اتارا گیا… کامیاب کرا کے پورے تزک و احتشام کے ساتھ اس کی تخت نشینی کرائی گئی… عمران خان بھی اپنے آپ کو برسراقتدار لانے والوں کی شہ پر بولا ’کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے‘… ’تم سب پرلے درجے کے کرپٹ ہو اسی لیے اصل اقتدار والوں کے ساتھ تمہاری بن نہ آئی اب میں نیا پاکستان بنا کر اور سنوار کر دکھائوں گا‘…
اڑھائی پونے تین سال کے اندر نئے پاکستان کی جو درگت بنی سو بنی یعنی جو کچھ 1947 سے لے کر اب تک باقی بچا تھا سب کچھ لٹا دیا گیا… تھوڑی بہت سیاسی اقدار باقی رہ گئی تھیں پامال کر کے رکھ دی گئیں لیکن ایک بات کا صبح و شام ورد کیا گیا کہ ہم اور ’وہ‘ ایک صفحہ پر ہیں لہٰذا کسی کو ہمت نہیں کہ ہمارے اتحاد اور اعتماد میں سرِمو فرق آنے دے… پھر اچانک گزشتہ 6 اکتوبر کو یوں ہوا کہ مریم نواز نے سب کو للکار دیا… باآواز بلند گویا ہوئیں کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ میرے باپ کو برطرف کرانے اور مجھے مقدمات میں ملوث کرانے کے لئے موجودہ ڈی جی ’آئی ایس آئی‘ کے رسوخ کا خوب خوب استعمال کیا گیا… اعلیٰ ترین عدالتوں کے ججوں کے بنچ بدلوائے گئے … دوسرے ریاستی ذرائع استعمال کیے گئے یوں ہماری برطرفی کا سامان ہوا ہم جو آئین دوست ہیں… ایسا آئین جو اسلامی بھی ہے جمہوری بھی… قائداعظمؒ کے سیاسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور مقتدر قوتوں کے تابع مہمل بن کر رہنا نہیں چاہتے تھے… ہمیں بدنام کرنے اور کرپشن کے غیرثابت شدہ الزامات میں ملوث کرنے میں کوئی کوشش باقی نہ رہنے دی گئی… یہ بم شیل تھا… آج تین ہفتے گزر چکے ہیں پاکستان میں اقتدار حقیقی کے نام نہاد لیکن بدقسمتیِ حالات کی وجہ سے اصل مالکوں میں سے کسی ایک کو مریم کے الزامات کی تردید جاری کرنے کی توفیق نہ ہوئی چنانچہ اسی روز سہ پہر کو راولپنڈی میں کور کمانڈر کا اجلاس منعقد ہوا… تبدیلیاں پہلے سے ہی زیرغور تھیں اب ناگزیر بن چکی تھیں کیونکہ جنرل فیض حمید متنازع ترین شخصیت سمجھے گئے… انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کے منصب سے تبدیل کر کے کور کمانڈر پشاور کے طور پر فرائض سنبھالنے کا حکم دیا گیا اور کراچی سے ندیم اعجاز کو ان کی جگہ سنبھالنے کا حکم نامہ جاری ہوا یہ امر عمران خان کو بالکل نہ بھایا… اسے ایسا جنرل ہرگز پسند نہ تھا جو موصوف کی جگہ بھی لے لیتا اور خیالات بھی قطعی مختلف رکھتا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں عمران خان نے حکم یا نوٹیفکیشن قبول کرنے میں لیت لعل سے کام لیا… معاملے کو 20 روز تک لٹکاتا رہا… یوں طرح طرح کی قیاس آرائیوں نے جنم لیا… ’ہماری بلی ہمیں ہی میائوں‘… آخر گھٹنے ٹیکنے پڑے… عمران بہادر نے بڑوں کی بات مان لی مگر دودھ میں مینگنیں ڈال کر یہ بات ان کو ہضم نہ ہوئی تب نام نہاد مالکانِ حقیقی نے اسے بھی مزہ چکھانے کی ٹھان لی… ایک جانب ملک بھر میں تحریک عدم اعتماد کا طوفان برپا کر دیا گیا دوسری طرف تحریک لبیک والوں کو متحرک کر دیا گیا… عمران حکومت کو جان کے لالے پڑ گئے اس نے تحریک لبیک والوں کی ہر خفیہ اور ظاہری بات مان لی… معاہدہ خفیہ ہوا ہے یا ظاہری اس کے پیچھے جنرل قمر جاوید باجوہ مؤثر ترین شخصیت کے طور پر کھڑے ہر ایک کو نظر آ رہے ہیں… عدم اعتماد والے سیاسی کارکن بھی شیر بن کر سامنے آ گئے… اب صاحبانِ اقتدار جو چاہیں جب چاہیں جس طرح چاہیں کرا لیں کون ان کو روک سکتا ہے… گویا حکم عدولی پر عمران انتظامیہ کا کچومر نکال کر رکھ دیا گیا اب ایک جانب مقتدر قوتیں ہیں جو آئین پاکستان کو سخت ناپسند کرتی ہیں دوسری طرف تحریک لبیک جیسے مذہبی شیر ہیں جنہوں نے شاید کبھی آئین اور قائداعظمؒ کے سیاسی نظریات کا نام بھی نہیں سنا اور افغانستان جس کے ساتھ سب سے لمبی سرحد لگتی ہے وہاں اہل دیوبند کا راج قائم کر دیا گیا ہے جن کے لئے آئین کی فرماں روائی کی جگہ ابوالکلام آزاد، سید حسین احمد مدنی اور ان جیسے دوسرے اہل علم دماغوں کو فکری رائج حاصل ہے اس سارے کھیل تماشے میں پاکستان کے آئین اور جمہوریت کو جس کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی تھی روندھے گئے ہیں…