فل سٹاپ لگ چکا

فل سٹاپ لگ چکا

ایک ہی ادارے میں رہتے ہوئے کوئی جنرل (ر)امجد شعیب بھی ہوسکتا ہے اور کوئی جنرل(ر) اسد درانی بھی، عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر جب دو تین کے سوا (جن کے مفادات ہی نہیں بقا بھی پی ٹی آئی حکومت کے تسلسل سے جڑی ہوئی تھی) باقی سب کردار توبہ تائب ہوچکے تھے۔ یہ سب بھی اسی مقتدرہ کا حصہ تھے جنہوں نے نیا پاکستان بنانے کے لیے تمام قاعدے قانون روند ڈالے۔ عدالتوں سمیت مختلف ریاستی اداروں کا بے رحمانہ استعمال کیا۔ ان میں سے اکثر کی آنکھیں بہت پہلے ہی کھل گئی تھیں کم و بیش (2020 میں) مگر کسی معجزے کی امید لگا کر سسٹم کو دھکا لگاتے رہے۔ حالات کے جبر نے نیوٹرل ہونے پر مجبور کیا تو تحریک عدم اعتماد کے آئینی راستے سے حکومت کی تبدیلی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر جو شور اٹھا وہ ہرگز غیر متوقع نہیں تھا۔ کیونکہ اس پودے کی آبیاری کی اصل حکمران اشرافیہ کے اندر سے بلکہ گھروں کے اندر سے بھی کی گئی تھی۔ جب ردعمل گھروں کے اندر سے آیا تو ایک اہم فوجی افسر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوگئی کہ ہم نے اپنے تمام وسائل اور قوت سیاستدانوں کو کرپٹ ثابت کر نے پر لگا دی۔ ایسے میں جب امجد شعیب جیسا کوئی ریٹائر جنرل سیاستدانوں کا ذکر آنے پر منہ سے جھاگ نکالتا نظر آتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ دس سالہ تبدیلی پراجیکٹ کے نیست و نابود ہونے پر شدید مایوسی کا شکار ہے۔لیکن جب ایسے ریٹائر افسروں کو عمران خان کی جعلی کارکردگی، مصنوعی بیانیوں کی پرجوش حمایت کرتے دیکھتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ گمراہ کن پراپیگنڈہ کا شکار ہوگئے۔ دوسری طرف ریٹائر افسروں میں ہی جنرل (ر)اسد درانی جیسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی تیار کردہ نئی سیاسی بلا کو نہ صرف بروقت بھانپا بلکہ خبردار بھی کردیا تھا۔جنرل درانی نے پچھلے دنوں اپنے تجزیہ میں کہا کہ ”عمران خان کی فوج سے اصل مخاصمت یہ ہے کہ انہیں طاقت کے ایوانوں میں پہنچانے کے بعد برا وقت آنے پر جب انہوں نے سیٹی ماری تو فوج دوڑتی ہوئی ان کی مدد کو کیوں نہ آئی۔ جنرل (ر)اسد درانی نے انکشاف کیا کہ 8 201 کی گرمیوں میں میرا کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر جی ایچ کیو کافی آنا جانا رہا۔ میں نے”سیاسی انجینئر ان چیف“ کے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے ان سے درخواست کی کہ ہائبرڈ نظام کا تجربہ نہ کریں۔ ان کے جواب نے مجھے ششدر کر دیا: ”سر ہم ملک کی صفائی کرنے جا رہے ہیں“۔ آپ بھی جلد مجھے مل کر اس کی کامیابی پر مبارکباد پیش کریں گے۔ جنرل درانی کے بقول ذاتی مشاہدات اور ٹھوس شواہد کی ایک لمبی فہرست ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ عمران خان طاقت کی ہوس میں مبتلا تھا اور اس سے بھی اہم یہ کہ یہ تخت تک پہنچنے کے لئے ایک فوجی پیراشوٹ کا متلاشی تھا۔ بہت سے فوجی افسر اس کے جال میں آنے سے انکار کر 
چکے تھے لیکن چار سال قبل بالآخر یہ مکار شخص کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد جو بھی ہوا وہ ماضی قریب کا حصہ ہے لیکن ایک حیران کن امر نے اس کے مخالفین کو بھی حیران کر دیا وہ یہ کہ عمران خان کی فالونگ خاصی وسیع ہو چکی ہے؛ یہ تعلیم یافتہ لوگ ہیں لیکن سمجھ بوجھ سے عاری۔ ان میں سے اکثر اس کے اقتدار کے دوران اس کے خلاف بولتے تھے لیکن اقتدار سے نکالے جانے کے بعد پرانے برے دنوں کی یادوں میں غلطاں ہیں۔ عمران خان”لیڈرشپ“کا یہ سنہرا اصول سامنے لائے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی کہی بات پر یو ٹرن لیتا ہے اور اس بے اصولی کے اصول پر وہ سختی سے کاربند رہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ عوامی فلاح کے ہر کام میں وہ ناکام ہوئے۔ کرپشن سے جنگ ان کا نصب العین تھا۔ کرپشن میں بھی پاکستان ان کے دورِ حکومت میں دنیا کے مزید ملکوں سے پیچھے چلا گیا۔ جھوٹ کا یہ عالم تھا کہ جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ کو اڈے دینے پر راضی ہوں گے تو انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ بالکل نہیں جبکہ کسی نے ان سے اڈے مانگے جو نہیں تھے۔ لیکن اس سب سے ان کے فالؤرز پر کوئی فرق نہیں پڑتا جنہیں ان کی صورت میں ایک مسیحا مل گیا ہے اور وہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ تاریکی کی گہری ترین گھاٹی میں ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی اتر کر رہیں گے۔ دیکھیے کیسے کورس میں نئے انتخابات کا گیت گا رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل اسی آپشن کو وہ مضحکہ خیز قرار دیتے تھے۔ عمران خان بھی اب اپنے بنانے والے کو کھانے پر تلا ہے۔ لیکن اس بار مسئلہ کچھ زیادہ گمبھیر ہے۔ عمران خان بوتل سے نکلا ہوا جن بن گیا ہے۔ کیا کوئی جانتا ہے اسے واپس کیسے بند کیا جائے“ جنرل(ر) اسد درانی کی اس تجزیئے میں بہت وزن ہے۔ پچھلے ہفتے ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کرکے جو نئی تاریخ رقم کی وہ ادارے کے 2018 میں کیے گئے سیاسی بلنڈر کے خمیازے کی صرف ایک قسط ہے۔ عمران خان نے اینکر ارشد شریف کا کینیا میں قتل پاکستانی اداروں پر ڈالنے کی بھرپور کوشش کی اپنے بین الاقوامی حلیفوں کو بھی استعمال کیا۔ ایسے میں ضروری ہوگیا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی خود سامنے آکر بتائیں کہ اصل مجرم معاملے کو غلط رنگ دینے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ یہ پریس کانفرنس اس لیے لازم تھی کہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ عمران خان مایوسی کے عالم میں لانگ مارچ کے دوران کسی بھی لمحے پاک فوج کے ٹاپ پانچ سے زائدسینئر افسروں کے نام لے کر انہیں متنازع بنانے کی کوشش کریں گے۔جنرل ندیم انجم نے قوم کو بتا دیا کہ عمران خان ان کی موجودگی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے عوض جنرل قمر جاوید باجوہ کو تاحیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش لے کر آئے تھے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ عمران خان اقتدار پانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ لیکن اس پریس کانفرنس کے بعد اب وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے لیے جرنیلوں پر جتنے بھی الزامات لگائیں، بے کار ہیں۔ اسی پریس کانفرنس سے یہ تاثر بھی پختہ ہوا کہ پاک فوج کی قیادت سیاسی معاملات سے دوری اختیار کرنے اور آئینی حدود میں رہ کر فرائض سرانجام دینے کے لیے یکسو ہو چکی ہے۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے واضح اور ٹھوس موقف نے عمران خان کو مزید مشتعل کردیا۔ اب انہوں نے خونی انقلاب کی دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ کبھی مارشل لا کو دعوت دے رہے ہیں۔ اب ان کے مخاطب حکومت نہیں ادارے ہیں۔ اگرچہ ان کے لانگ مارچ میں زیادہ لوگ شریک نہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ اسلام آباد میں زیادہ بندے اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ انہوں نے پرامن احتجاج کا راستہ چھوڑ کر تشدد کی راستہ اپنایا تو خونی کھیل کا خونی انجام ہوگا۔ کہیں نہ کہیں یہ طے کیا جاچکا کہ عمران خان کو اقتدار میں واپس لانے کا مطلب پاکستان کو سیاسی، معاشی اور سفارتی حوالوں سے دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ نت نئے تجربات سے ملک کو پہلے ہی بے تحاشا نقصان پہنچ چکا اب یہ ممکن نہیں کہ تمام سٹیک ہولڈر اپنی آنکھوں کے سامنے مزید تباہی کا نظارہ کریں۔ عمران خان کی اقتدار میں واپسی کے حوالے فل سٹاپ لگ چکا ہے، لیکن اس امر کے واضح شواہد مل رہے ہیں کہ ملک میں مطلوبہ سیاسی توازن قائم رکھنے کے لیے پی ٹی آئی کو بطور پراجیکٹ جاری رکھا جائے گا۔

مصنف کے بارے میں