دھندلا معاشی منظر نامہ

دھندلا معاشی منظر نامہ

پاکستان کا معاشی بحران شدید ہے اور شدید تر ہوتا نظر آرہا ہے حکومت کے ذرائع آمدن محدود نظر آتے ہیں لیکن اخراجات لا محدود ہیں۔ قرض پر قرض لینے کی پالیسی بحران میں اضافہ کر رہی ہے اب تو صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ قرض پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے جبکہ سود کا حجم ہی اس قدر بڑھ چکا ہے کہ الامان الحفیظ۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے دو حکمت عملیاں ممکن ہو سکتی ہیں۔
اول: اخراجات کو کم از کم اس سطح تک لایا جائے جو موجودہ وسائل کے مطابق ہوں یعنی دستیاب آمدنی کے مطابق اخراجات کئے جائیں۔
دوم: وسائل / آمدن کو بڑھایا جائے اور بڑھائی گئی آمدن کے پیش نظر ہی اخراجات کا تخمینہ رکھا جائے۔
یہ دونوں حکمت عملیاں مروجہ نظام ہائے معیشت کے عین مطابق ہے یہ کوئی انہونی حکمت عملی نہیں ہے اور ہر لحاظ سے قابل عمل اور نتیجہ خیز ہونے والی ہیں شرکا صرف ان پر عمل درآمد کرنے کی ہے جس کے لئے عزم صمیم کی ضرورت ہے۔ لیکن سیاسی عدم استحکام کے باعث معاملات نے کبھی کسی مثبت سمت اختیار نہیں کی ہے 2018 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت 44 ماہ ہی چل سکی۔ اس کی کارکردگی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس حکومت نے نہ صرف سیاسی عدم استحکام کو فروغ دیا بلکہ معاشی طور پر ملک کو دیوالیہ پن کے کنارے پہنچا دیا۔ پھر 16ماہی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے گو قومی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے تو بچا لیا لیکن عام آدمی کی معیشت کا حقیقی معنوں میں دیوالیہ نکال دیا۔ ویسے تو کووڈ 19 کے وقت سے عالمی معیشت مسلسل گھاٹے میں چل رہی ہے کچھ بہتری کے آثار پیدا ہونے لگے تو یوکرائن میں جنگ شروع ہو گئی عالمی منڈی کی سپلائی چین بری طرح متاثر ہوئی اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے جس کے باعث اشیاء صرف و ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں۔ بار برداری کی لاگت بڑھنا شروع ہوئی، مصارف پیداوار بڑھنے لگے مہنگائی بڑھنے لگی اس کے زیر اثر عوام بری طرح متاثر ہونے لگے۔ برطانیہ، فرانس اور یورپی ممالک میں بھی ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ فیکٹری ورکر ہوں یا ٹرینوں کا عملہ، پائلٹس ہوں یا ڈاکٹر سب یکساں طور پر منگائی سے بری طرح متاثر نظر آ رہے ہیں۔ معاملات سنبھلتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
ہمارے ہاں قدر زر کی گراوٹ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس نے عوامی معاملات کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے ڈالر کی بڑھی ہوئی قیمت، عام اشیاء کی قیمتوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہوں یا بجلی اور گیس کے بل، ہر شے کی قیمت بڑھنے لگتی ہے۔ دوسری طرف پیداواری عمل میں سکڑاؤ کے باعث، عام آمدنی کے ذرائع آمدن بھی محدود ہونے لگے ہیں اس سے قوت خرید ہی کم نہیں ہو رہی ہے بلکہ حکومتی ٹیکس آمدنیاں بھی گھٹتی چلی جا رہی ہیں۔
حال ہی میں وزارت خزانہ نے مالی سال 2022-23 کا میزانیہ جاری کیا ہے گزرے مالی سال کے آمدن و اخراجات کا ایک اجمالی جائزہ جاری کیا ہے۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2022-23 کے دوران حکومت کو تمام ذرائع بشمول ٹیکس و نان ٹیکس مدات سے 9630 ارب روپے وصول ہوئے یعنی حکومت کی مجموعی آمدنی 9.63 ٹریلین روپے تھی جبکہ اس کے مجموعی اخراجات 16150 ارب روپے تھے گویا آمدنی سے 6520 ارب روپے کے زائد اخراجات کئے گئے۔ 6.52 ٹریلین روپے کے زائد اخراجات کے لئے قرض لیا گیا۔
ہمارے ہاں جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس وصولیوں کی شرح میں تیزی سے کمی آ رہی ہے یعنی ہمارے دستیاب وسائل دن بدن گھٹتے چلے جا رہے ہیں۔ گزرے مالی سال 2022-23 کے دوران ٹیکس وصولی کی یہ شرح 9.2 فی صد تھی اور تمام محصولات، ٹیکس اور نان ٹیکس کی شرح 11.4 فی صد تھی دوسری طرف وفاق اور صوبوں کا کل خرچ جی ڈی پی کا 19.1 فی صد تھا۔ یہ ہے اصل وجہ ہماری مالی مشکلات کی۔ ہم خرچ بہت زیادہ کرتے ہیں جبکہ ہماری آمدنی اس کے مقابلے میں کم ہوتی ہے ہم زائد وسائل کے لئے قرض لیتے ہیں جو ایک عرصے سے بڑھتے بڑھتے اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ اب اسے اتارنے یا کم کرنے کے لئے بھی ہمیں مزید قرض لینا پڑ رہا ہے ہر آنے والا دن اس حوالے سے ہماری مشکلات میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے جبکہ حیران کن بلکہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہماری کوئی بھی حکومت، چاہے وہ پی ٹی آئی کی ہو یا پی ڈی ایم اتحادی حکومت، حتیٰ کہ نگران حکومت بھی اس حوالے سے بالکل لاپروائی بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہے ہمارے خوبصورت نگران وزیر اعظم نیویارک میں سیلفیاں بناتے دکھائی دیتے ہیں ویسے سیلفیاں بنانا تو کوئی بری بات کہنا ہے لیکن حکومتی اخراجات پر ٹھنڈے ممالک کے سیر سپاٹے اور واپسی پر سعودی عرب یاترا مقروض ملک کے ڈنگ ٹپاؤ وزیراعظم کو قطعاً زیبا نہیں ہے ایسی ہی صورتحال صوبائی سطح پر نگران حکمرانوں کی ہے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بھی غیر ملکی دوروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط بھی کرتے نظر آتے ہیں، معاہدے بھی کر رہے ہیں حالانکہ ایسا کچھ بھی ان کے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہے لیکن وہ دھڑلے سے کروڑوں روپے نئی گاڑیاں خریدنے پر بھی خرچ کر رہے ہیں پلوں اور انڈر پاسز کا افتتاح بھی کر رہے ہیں نئے تعمیراتی منصوبوں کا افتتاح بھی کر رہے ہیں سنگ بنیاد بھی رکھ رہے ہے۔ خزانہ خالی ہے، ٹیکس جمع نہیں ہو رہا ہے، قرض کی ادائیگی بھی کرنا ہے اصل زر کی واپسی کی بات چھوڑیئے سہ ماہی کی ادائیگی کا بندوبست کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے ایسے میں غیر ملکی سیر سپاٹے اور تعمیراتی ترقیاتی کاموں پر بے دریغ خرچ کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی ایسی ہی دانش مندیوں نے ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ جہاں عوام دو وقت کی نہیں بلکہ ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔ صورتحال سنبھلتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ معاشی بحران مزید گہرا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سیاسی افق بھی دھندلا دھندلا ہی ہے۔