ہمارے سیاستدان یا بیوپاری…؟

ہمارے سیاستدان یا بیوپاری…؟

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادکے اہم موقع پر حکومتی گھونسلوں سے اڑان بھر کر اپوزیشن سے جا ملنے والے سیاسی پرندوں نے اس اڑان بھرنے کی کوئی فیس یا کوئی پیسے لیے یا نہیں اس کا ہمیں تو نہیں پتہ لیکن بھاری فیس اور چارجز کے ذریعے ایک زمانے میں انہی سیاسی پرندوں کے ناتواں پروں یا کندھوں پر حکومت قائم کرنے والے کپتان اور اس کے کھلاڑی بڑے زور و شور سے ان سیاسی پرندوں یا منحرف ارکان کو ضمیر فروشی کے طعنے دے کر ان پر ضمیر بیچنے کے بدلے اپوزیشن سے بھاری رقوم لینے کا الزام لگا رہے ہیں۔ کس نے پیسے لیے اور کس نے دیئے۔؟ یہ حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ویسے اس ملک کی سیاست میں ضمیروں کا لین دین اور کاروبار یہ کوئی نئی بات نہیں۔ کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں کو ہم سے زیادہ اس کا علم ہے کیونکہ وہ ماضی قریب میں سیاسی پرندوں یا ضمیر فروشوں کی اسی منڈی سے ایک ایک دن میں کئی بار نہ صرف ہوکر گزرے ہیں بلکہ ان کے بارے میں تو یہ بھی بہت مشہورہے کہ منڈی سے گزرنے کے وقت ان کے بیوپاریوں نے منڈی میں کوئی ایک سیاسی پرندہ یاضمیرفروش کسی اورگاہک کے لئے پیچھے  چھوڑابھی نہیں۔وزرات عظمیٰ کے خواب دیکھنے والے کپتان اوران کے کھلاڑیوں کے ہاتھ اس وقت جوبھی پرندہ لگاانہوں نے چھان بین اوردیکھنے پرکھنے کے بغیرہی منہ مانگے دام دے کراسے یوں غنیمت جاناکہ جیسے ان جیساہیرااورموتی اس دنیامیں اورکوئی ہوہی نہیں۔بڑھتی عمرکے باعث کپتان کاحافظہ اور یادداشت کمزورہے شائدکہ انہیں یادنہ ہولیکن اس ملک کے بچے بچے کومعلوم ہے کہ آج منحرف اراکین اسمبلی کوضمیرفروشی کے طعنے دینے والے اسی کپتان کے کھلاڑیوں نے اپنے کپتان کے ایک خواب کوپوراکرنے کے لئے ایسے کتنے بے ضمیروں کے ضمیرخریدے۔؟منحرف ارکان کوآج قبر وحشر کے قصے وکہانیاں سناکرڈرانے والے کپتان کواس وقت قبروحشرکی یادنہ آئی جب وہ اپنی حکومت بنانے کے لئے ان اچھے بھلے ضمیروں کوبے ضمیرکررہے تھے۔؟کیااس وقت بے ضمیری کے اس کچرے،اس گنداوراس گناہ کوثواب سمجھ کراکٹھانہیں کیا گیا۔؟ کیااس وقت انہی بے ضمیروں سے جہازوں پر جہاز نہیں بھرے گئے۔؟یہ تودنیاکاقانون ہے کہ جیسا 
کرو گے ویساپھربھروگے ۔کپتان اورکپتان کے کھلاڑی آج وہی فصل کاٹ رہے ہیں جوانہوں نے 2018کے الیکشن اورانتخابات کے فوری بعدبوئی تھی۔کپتان وزیراعظم بننے کے خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے کے لئے اگرضمیروں اوربے ضمیروں میں تفریق ختم نہ کرتے توآج اس ملک میں انہیں یہ بے ضمیردکھائی نہ دیتے۔ دوسروں کو نصیحت اورخودمیاں فصیحت بننے والے کپتان اگر اس وقت اقتدار پانے کی بجائے موسمی سیاسی پرندوں اوربے ضمیروں پرایک صرف ایک بارلعنت بھی بھیج دیتے توآج کپتان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ہم نے پہلے بہت پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ منڈی میں بکنے والے یہ سیاسی پرندے کسی کے نہیں۔لیکن افسوس ہماری ان باتوں پرکان دھرنے کی بجائے الٹاہمیں نوازشریف کا چمچا، زرداری اور مولاناکاایجنٹ کہہ کر ماں اوربہن کی گالیاں تک دی گئیں۔ضمیروں کاکاروبارکرکے اس وقت اگرآپ نے ٹھیک کیا تو پھرآج اپوزیشن والے غلط کیسے ہو گئے۔۔؟جوآپ نے کیاوہی تواب اپوزیشن والے بھی کررہے ہیں۔ آپ تون لیگ،پیپلزپارٹی اوردیگرپارٹیوں کی ایک ایک وکٹ اڑانے کی خوشخبری دیاکرتے تھے آج اگرانہوں نے ایک ہی واری میںآپ کودس دس وکٹیں اڑانے کی خوشخبریاں سنا دیں تواس میں براکیا۔؟خان صاحب یہ کرکٹ نہیں سیاست ہے اور یہاں نواز، زرداری اور مولانا جیسے لوگ ایک ایک گیندپردس نہیں بیس بیس وکٹیں بھی اڑا دیتے ہیں۔ صاحب جوآپ نے کیاہم نے نہ اس کی کبھی حمایت کی اورنہ جوکچھ اب اپوزیشن کررہی ہے ہم اس کی کوئی حمایت کررہے ہیں۔ سیاست کوعبادت اور خدمت کے طور پر کرنا چاہئے کاروبار کے طور پر نہیں۔ یہ توہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ جولوگ ایک پارٹی اورایک قائدکے ساتھ وفانہیں کرسکتے وہ ہزاروں اورلاکھوں ووٹروں کے ساتھ کیا وفا کریں گے۔؟ بھگوڑے بھگوڑے اور ضمیر فروش ضمیر فروش ہی ہوتے ہیں چاہے وہ ن لیگ میں جائیں یا پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف میں۔ منحرف ارکان کاآج حکمران جماعت سے اپوزیشن کے گھونسلوں کی طرف چھلانگ لگانا یہ اتناہی جرم اور گناہ ہے جتنا یہ ان ضمیرفروشوں کان لیگ، پیپلزپارٹی اور دیگر پارٹیوں سے تحریک انصاف میں چھلانگ لگانے کے وقت تھا۔عمران خان آج جس طرح چیخ چیخ اورسینہ پھاڑکران منحرف اراکین پرضمیرفروشی کے فتوے ٹھونس رہے ہیں یہی کام اگریہ اس وقت کرتے جب یہی لوگ اپنی پارٹیوں اورقائدین کوچھوڑکراقتدارکی خاطران سے مل رہے تھے تو شائد نہیں یقینا کپتان کوآج یہ دن کبھی دیکھنا نہ پڑتا۔اب توکپتان کواحساس ہوا ہو گا کہ  پیسوں کی بوریوں اورلالچ کی چادروں میں دوسروں کے بچوں کو چھپا کر گود لینے سے ان کوملنے والی اذیت،درداورتکلیف کیا ہوتی ہے۔؟ اپنوں کے غیرہونے پرآج جتنی تکلیف، دکھ اوردردکپتان کو ہورہاہے اتنی بلکہ اس سے بھی زیادہ دکھ، درد اور تکلیف ان نافرمان اراکین کے سابق سیاسی قائدین کوبھی تو ہوئی ہوگی۔جوہوناتھاسووہ تو ہو چکا لیکن اب آئندہ کے لئے کپتان کوایک بات یادرکھنی چاہئے کہ دوسروں کے سیاسی گھراجاڑنے والوں کے اپنے سیاسی آشیانے بھی پھر سلامت نہیں رہتے۔اب بھی اگرکپتان یاکپتان کے کسی کھلاڑی کویقین نہیں تووہ تحریک انصاف کے انجام کودیکھ لیں۔پی ٹی آئی آج اسی انجام سے گزررہی ہے جس انجام ،امتحان یامکافات عمل سے کبھی مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی یا دیگر پارٹیاں اور جماعتیں گزریں۔ پاکستان کی سیاست میں ضمیرفروشی یاسیاسی قبلوں کی تبدیلی یہ کوئی نئی ایجاد نہیں۔ اس ملک میں آج تک یہی ہوتا رہاہے اوراب بھی یہی ہورہاہے۔ہمارے ایک دونہیں بلکہ اکثرلیڈر،قائدین اورسیاستدان شروع سے لیکرآج تک ضمیروں کی اس خریداری کو بہت بڑی کامیابی اورکارنامہ سمجھتے ہیں حالانکہ سب کوپتہ ہے کہ ضمیروں کایہ سودااورکاروبارنہ ملک کے مفادمیں ہے نہ قوم کے اور نہ ہی جمہوریت کے حق میں لیکن اس کے باوجود دوسری پارٹیوں اور جماعتوں کے ایم این ایز،ایم پی ایز،ناظمین اور عہدیداروں کوتوڑنا،بھگوڑابنانااورانہیں ضمیربیچنے پر مجبورکرناہرلیڈر،ہرقائداورہرسیاستدان اپناایک جمہوری حق ،تاریخی کارنامہ اورثواب کاکام سمجھتا ہے۔ اس ملک میں جب تک ضمیروں کے یہ سودے ہوتے رہیں گے اوراراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کویہاں جب تک کاروبارکادرجہ حاصل ہوگاتب تک اس ملک میں نہ صرف عمران خان جیساوقت کا وزیراعظم وحکمران چیختا اور چلاتا رہے گا بلکہ نواز شریف، زرداری، شہباز، مولانا اور بلاول جیسے لیڈروں کوبھی ایک نہ ایک دن اس بیماری کے ہاتھوں رونادھوناپڑے گا۔

مصنف کے بارے میں