مارشل لا کی حسرت

مارشل لا کی حسرت

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس اور پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ کی اہلیہ کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کا معاملہ فرانزک یا تحقیقات کی جانب نہیں بڑھ سکا۔ شاید اس لیے بھی نہیں کہ اس کال کو لیک کرنے مقصد صرف الرٹ کرنا تھا کہ خود اداروں میں موجود شخصیات کی آڈیوز، ویڈیوز بھی سامنے آسکتی ہیں۔ ویسے خواجہ طارق رحیم اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ یہ آڈیو لیک دونوں خواتین کی ہی ہے تاہم ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے متعلقہ وزارتوں کو لیگل نوٹسز بھجوا کر مقدمات کریں گے۔ حیرت انگیز طور پر چیف جسٹس خود اس حوالے سے کچھ کہنے کو تیار نہیں حالانکہ اس آڈیو میں خود ان کا اور ان کے ساتھ سیاسی و تمام اہم مقدمات سننے کے لیے مشہور ہم خیال بینچ کے دیگر دو ساتھی ججوں کا بھی ذکر کیا کیا ہے۔ اس آڈیو لیک سے صرف ان ججوں کے اہل خانہ کی سیاسی سمت ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو ہر صورت گرانے پر تلے ہوئے ہے۔ اس ساری گفتگو میں جہاں سپریم کورٹ کے آئین پسند ججوں پر تنقید کی گئی ہے وہاں سب سے اہم فقرہ چیف جسٹس کی ساس کا ہے جس میں انہیں کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ”وہ کمبخت مارشل لا لگانے پر بھی تو تیار نہیں“۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران اشرافیہ اور ان کے اہل خانہ اس آپشن کو بھی استعمال کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ ویسے بھی اگر ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اگر خدانخواستہ مستقبل میں جمہوریت ڈی ریل ہوگئی تو آئین پسند جج تو فوری طور پر گھروں کو چلے جائیں گے۔ لیکن جیسی بھی ہو سپریم کورٹ نے تو رہنا ہے ایسے میں حلف کون اٹھائیں گے یہ جاننا ہرگز کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ شاید اسی لیے سوچا جارہا ہے کہ بجائے اس کے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صورت میں با اصول، دیانتدار اور بہادر چیف جسٹس سامنے آکر ادارے کے اندر اور باہر ہونے والی لاقانونیت اور بے قاعدگیوں کا حساب لینے کی کوشش کرے سسٹم ہی لپیٹ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ خود اپنی حکومت جانے کے بعد عمران خان کا یہ کہنا کہ اس سے تو اچھا تھا کہ پاکستان میں ایٹم بم گر جاتا۔ یہ بھی واضح اشارہ ہے کہ وہ بھی جمہوری نظام کو گرا کر معاملات کا رخ کسی اور جانب پھیرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حالات یہی رہے تو عدلیہ میں موجود ان کے سرپرست بھی کمزور پڑ جائیں گے اور وہ کڑے احتساب کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ اگر مارشل لا لگ جائے تو پھر ان کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے۔ شاید ان کو بھی بحالی جمہوریت کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ٹرک پر چڑھ کر احتجاج کرنے کا موقع مل جائے۔ یہ تاثر بھی مکمل طور پر درست نہیں کہ عدلیہ کا مخصوص بینچ، اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ کے بعض جج پی ٹی آئی کو ہر طرح کے معاملات میں جو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں وہ صرف عمران خان کی محبت میں کررہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا ایجنڈا ہے۔ یہ بھی ثابت ہوچکا کہ منتخب جمہوری حکومت کے خلاف 2017 سے عدالتی آپریشن شروع کرنے والے بعض کردار آج بھی متحرک ہیں۔ ثاقب نثار اپنے بیٹے سمیت رنگے ہاتھوں پکڑے جاچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے سابق چیف جسٹس کو صدر پاکستان بنانے کا جھانسا دے کر ساتھ ملایا ہوا ہے۔ ثاقب 
نثار ہی ہیں جو سارے عدالتی عمل حکومت کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے پلاننگ اور ہدایات دے رہے ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام کوئٹہ میں ہونے والے بڑے وکلا کنونشن میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے یہ دعوی کیا ہے کہ عدلیہ، عمران گٹھ جوڑ ایک گہری سازش ہے جس کا مقصد آئین پسند ججوں کو چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے۔ امان اللہ کنرانی کے مطابق عمران خان نے عدلیہ سے جلد الیکشن اور دو تہائی اکثریت لینے میں عملی مدد جاری رکھنے کے وعدے پر چیف جسٹس کے عہدے کی مدت معیاد تین سال کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس طرح نہ صرف چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی مدت ملازمت میں اضافہ ہوجائے گا۔ اسی دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔ دوسرے ہم خیال جج جسٹس اعجاز الاحسن اگلے چیف جسٹس ہونگے اس طرح آئین پسند جج جسٹس منصور علی شاہ کو بھی چیف جسٹس بننے کا موقع نہیں مل سکے گا اور وہ بطور جج ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔ اور ہم خیال بینچ کے تیسرے ستون جسٹس منیب اختر کو اگلا چیف جسٹس بننے کا موقع مل جائے اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے مطابق ججوں نے اگلے کئی سال تک کے لیے نہ صرف اپنے جانشینوں بلکہ اپنے بچوں کو بھی عدالتی عہدے دلانے کا بندوبست کررکھا ہے۔ یقینا یہ بہت تشویش کی بات ہے۔ اب اس چیز کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے کہ ججوں کی بھرتی کا موجودہ طریق کار ختم کرکے جوڈیشل سروس آف پاکستان شروع کی جائے۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ججوں کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے بھی طریق کار وضع کیا جائے۔ یہ بات طے ہے ججوں کی سیاست ہر صورت ختم کرنا ہوگی خواہ کچھ بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ اس وقت ملک میں جو بھی بحران ہے وہ ہم خیال ججوں کے یکطرفہ فیصلوں کے سبب ہی پیدا ہوا۔ آج نوبت یہاں تک آگئی ہے شاہد خاقان عباسی جیسا صلح جو سیاستدان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو قومی اسمبلی میں بلا کر جواب طلبی کی جائے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے رجسٹرار سپریم کورٹ 16 مئی کو طلب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ نہ آئے تو وارنٹ جاری کروں گا۔ اس حوالے سے کسی بھی عدالت کا سٹے آرڈر بھی نہیں مانا جائے گا۔ سپریم کورٹ کا 2010 سے2021 تک کا آڈٹ ہو گا۔ آڈیٹر جنرل کو ججوں، صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا کی تنخواہ کا موازنہ پیش کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی۔ ادھر اے این پی کے زیراہتمام ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس جس میں پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ مشترکہ علامیہ جاری کرتے ہوئے دو ٹوک اعلان کردیا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی آل پارٹیز کانفرنس نے ملک بھر میں انتخابات ایک ہی دن کرانے کا مطالبہ کر دیا۔ انتخابات جب بھی ہوں، ملک بھر میں ایک ہی دن ہوں، سیاسی فیصلوں کی جگہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان ہے۔
پارلیمانی بالادستی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے، اعلامیے میں کہا گیا کہ فل کورٹ کا نہ بننا، 63۔اے پر آئین ری رائٹ کرنا اور تین چار کا فیصلہ نہ ماننا بحران کی بنیاد ہے،سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کا عزم تو واضح ہوگیا۔ ملک کی مدبر شخصیات کیا سوچ رہی ہیں اس کی بہترین عکاسی مفتی منیب الرحمن کی جانب سے چیف جسٹس بندیال کے نام لکھے گئے خط سے ہو جاتی ہے جس میں کہا گیا ہے“بادی النظر میں ”سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ“ میں سپریم کورٹ کے اختیارات میں کوئی کمی نہیں کی گئی بلکہ ان اختیارات کو ریگولیٹ کرکے ادارتی شکل دی گئی ہے، اس کے لئے سپریم کورٹ کے اندر سے بھی آواز اٹھی اور پاکستان بار کونسل سمیت وکلا کی ایک بڑی تعداد بھی اس کی حامی ہے، کیونکہ یہ بات مسلم ہے:”اجتماعی دانش انفرادی دانش سے بہتر ہوتی ہے“۔ ماضی میں اس کا انتہائی غیر محتاط استعمال کیا گیا ہے، جسٹس ثاقب نثار نے تو اسے دادا گیری اور اپنی دہشت قائم کرنے کے لئے استعمال کیا، جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں انتہائی ظالمانہ طریقہ سے لوگوں کو بے گھر کیا اور فٹ پاتھ پر لا بٹھایا، وہ این جی او کی ایک خاتون کی فرمائش کی تکمیل کے لئے مساجد اور مزارات کو ڈھانے چلے تھے، جبکہ اس کے برعکس اسلام آباد میں بااثر لوگوں کی غیر قانونی عمارات کو ریگولرائز کر دیا گیا تھا، آج ان دونوں کا حال یہ ہے: ”کس نمی پرسدکہ بھیا کیستی“۔ منصب کی دی ہوئی عزت عارضی ہوتی ہے، حقیقی عزت و تکریم اللہ تعالیٰ کی عطا سے نصیب ہوتی ہے۔ ”اسٹیبلشمنٹ کی پچھلی قیادت کی جانب سیاست میں تمام حدیں پار کرکے مداخلت کرنے کے سبب ہی ملک بدترین بحرانوں میں پھنسا اس لیے اب نئی قیادت پُرعزم ہے کہ ہر کوئی اپنا کام کرے۔ جو عناصر ملک میں گڑبڑ کرکے مارشل لا لگوا کر اپنے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی یہ حسرت دل میں ہی رہ جائے گی۔