ڈر اس کی دیر گیری سے……

Amira Ehsan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک، دلیل کم نظری قصہ قدیم وجدید! 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب افغانستان میں اسلامی تاریخ دوہرائی گئی۔ اس آخری دور کی جنگوں میں جس کا اختتام ملحمۃ الکبریٰ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور پر ہونا باب الفتن کی احادیث میں مذکور ہے۔ ہماری نگاہیں ان فتنوں کا ظہور مسلسل دیکھ رہی ہیں۔ اسی میں ذکر بدر الثانی کا بھی ملتا ہے۔ افغانستان میں لڑی گئی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں سبھی غزوات کی مشابہت رہی۔ اسباب ووسائل کی قلت اتنی کہ دنیا کا نہتا اور قلیل ترین گروہ تاریخ کے کثیر ترین، جدید ترین اور طاقتور ترین گروہ کے مقابل کھڑا تھا۔ اس اعتبار سے بدری مشابہت عین وہی ہے۔ حتیٰ کہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے خونریز ٹکراؤ سے لرز کر امریکا کا ساتھ دینے ہی میں عافیت سمجھی۔ ان کا مقابلہ کرنا ایسا ہی تھا: گویا آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔ 59 ممالک نے بنی اسرائیل کے انداز میں طالبان سے کہہ دیا: تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو، ہم یہیں بیٹھے ہیں۔‘ (المائدہ۔5) بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کیاکہ کفر کی صفوں میں کھڑے ہوکر دامے، درہمے، سخنے ہمہ نوع اپنا حصہ ڈالا۔ دنیا میں اسلام کو مٹا ڈالنے کے جس عزم سے 2001ء میں پوری جدید دنیا افغانستان پر ٹوٹ پڑی تھی یقینا ملاعمرؒ کے بے قرار سجدوں میں، آہ وزاری میں یہ مسنون دعا شامل رہی ہوگی۔ ’اے اللہ اگر یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی اپنی مدد بھیج!‘ اللہ، اللطیف، المجیب کی جانب سے وعدے کل اور آج پورے ہوئے۔ طالبان نے فضائے بدر پیدا کی، اللہ نے نصرت اتاری۔ ’(یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول کرلی (اور کہا) کہ بے شک میں ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔‘ (انفال۔9) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے نزول کی تصدیق: ’یہ جبریل ہیں جو اپنے گھوڑے کو سر سے پکڑے ہوئے ہیں اور ہتھیار بند ہیں۔‘ (صحیح بخاری) نگاہ نبوت فرشتوں کی مدد دیکھ رہی تھی۔ اللہ کے سبھی وعدے سچے ہیں اور وہ ایک مرتبہ پھر امت کے، پیکر عزیمت طالبان کے لشکر کے حق میں پورے ہوئے۔ الحاد، بے دینی، انکارِ مذہب، سیکولر ازم لبرل ازم کی گھن گرج کے اس دور میں اس گلوب پر حجت ایک مرتبہ پھر تمام کردی۔ بہ زبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم: ”اللہ اکبر! تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔“ افغانستان میں کفر کی شکست کامل کا یہ دن اکیسویں صدی میں ایک مرتبہ پھر یوم الفرقان بن کر نازل ہوا۔ ایک وہ دن تھا جب: وہ لوگ…… جو اپنے گھروں سے اتراتے اور گھروں سے اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں۔‘ (الانفال۔ 47) ابوجہل اپنے حق پر ہونے میں بش اور بلیئر سے کچھ کم غرے میں نہ تھا۔ اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑکر اللہ سے فیصلہ مانگا تھا: ’اے اللہ ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے، (دہشت گرد، انتہاپسند، فساد پھیلانے والا) اسے تو آج توڑ دے۔ اے اللہ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرما۔‘ عین یہی زبان ’بدی کا محور‘ (Axis of Evil) کے عنوان سے بش اور حواریوں نے میں نہ صرف افغانستان بلکہ سبھی باعمل مسلمانوں کے لیے استعمال کرتے ہوئے اس جنگ کا ڈول ڈالا تھا۔ اللہ کی طرف سے ایک جواب قرآن میں موجود ہے۔ دوسرا جواب بر سرِ  زمین امریکی انخلاء کی آخری رات بہ زبان حال امریکی کمانڈر سینٹ کام جنرل میکنزی کے آخری اعلان میں موجود ہے جو رندی ہوئی آواز میں محتاط الفاظ میں اعتراف پسپائی ہے۔ ایک طرف گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونے کے لائق عالمی تاریخ کی ریکارڈ شکن شکست ہے، دوسری طرف قرآن، فرقان حمید کارواں تبصرہ ہے: ’اگر تم فیصلہ چاہتے تو تمہارے پاس فیصلہ آگیا، اور اگر تم باز آجاؤ تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کروگے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی۔ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔‘ (الانفال۔ 19) ایک جنگ، چار امریکی صدر، بیس سال، کھربوں کا نقصان۔ ’جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے صرف کررہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے، مگر آخرکار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے…… یہی لوگ اصل دیوالیے ہیں۔‘ (الانفال: 36-37) ابھی جنگ کی باقیات پر بے حساب اخراجات باقی ہیں! اللہ نے اہل ایمان پر یہ صبح طلوع کی جس میں اللہ کے وعدے کے مطابق قوم مومنین کے سینوں کو شفا اور ٹھنڈک عطا ہوئی، قلوب کی جلن مٹا دی گئی اور کفر کو ذلت وخواری دی۔ (التوبۃ: 14-15) اس صبح سے پہلے رات بارہ بجے کابل ایئرپورٹ باضابطہ طالبان کے حوالے کرکے امریکی فوج اپنا جھنڈا لپیٹ کر بہ چشم نم، دل 
گرفتہ طویل شب غم گزار کر لوٹ رہا تھا۔ طالبان ایئرپورٹ کی خاک پر سربسجود تھے رب تعالیٰ کی کبریائی کے حضور! وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے! وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی، اسی کو آج ترستے ہیں منبر ومحراب! امت کو یہ عالی شان دن مبارک ہو جسے پوری امت ترستی رہی۔ یہ سجدہ ہمیں ہر جا نصیب ہو۔ کشمیر وفلسطین میں بھی۔ سبھی مغلوب ومعتوب مسلمانوں کے حصے میں سرخروئی، سربلندی، آزادی وحقیقی حریت اللہ لکھ دے، غلامی کی نکبت وذلت سے ہر مسلم سرزمین کو نجات دے۔ (آمین) فتح کی تکمیل پر کابل کی فضا اللہ کی عطا کردہ قوت وشوکت پر ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھی۔ یہ گولیاں دشمن سے بزور بازو چھینے اسلحے کے انباروں کا حصہ ہیں سو ایسی خوش بجا ہے! ہمارے ہاں کفر کا سینہ محفوظ ومامون، الیکشن 
کی دشمنی یا کھیل تماشوں میں پیسے کو آگ لگانے والی ہوائی فائرنگ! ٹریسر گولیوں،گولوں سے آسمان سرخ ہوگیا۔ خون شہداء کی لالی سے سجنے والا افق تہجد کے وقت فتح سے تمتما اٹھا۔ تین عالمی قوتوں کی شکست فاش پر مہر ثبت ہوئی۔ بلکہ اب تو شریک کار 65 ممالک، اقوام متحدہ، کفر والحاد، سیکولر ازم، لبرلزم سبھی کو سونڈ پر داغ لگا۔ اس سوال کا جواب بھی آگیا۔
 کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر اے روز مکافات
سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے کی گرفت اس جنگ سے بہت کچھ ڈھیلی پڑ چکی۔ اثرات جلد ظاہر ہونے لگیں گے۔ ایک طرف اگر یہاں انخلا نے پوری دنیا کو عجب مناظر دکھائے تو امریکا میں ایک اور انخلا بھی مسلسل موسمی تھپیڑوں کے ہاتھوں جاری ہے۔ لوزی اینا میں طوفان (ہری کین) کے تھپیڑے اور کیلی فورنیا میں بھڑکتی آگ کے شعلے۔ طویل لامنتہا قطاروں میں لگی گاڑیاں نکل بھاگنے کا افراتفری کا منظر دکھا رہی ہیں۔
نہ جا اس کے تحمل پہ کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی
 ڈر اس کی دیر گیری سے کہ سخت ہے انتقام اس کا! 
ہم اللہ سے لرزتے ہوئے پاکستان کے حق میں عفو وعافیت، درست پالیسیوں کے لیے رب تعالیٰ کی رہنمائی ومدد کے طلب گار ہیں۔ اللہ ہمیں ڈوبتے سفینے کی سواری سے بچائے اور طالبان کو سجدہئ شکر نصیب ہوا ہے تو اللہ ہمیں سجدہئ سہو کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
تفاصیل تو بے شمار ہیں۔ امریکا جس مشن پر آیا تھا اس میں افغانستان کو مٹکے بھربھر روشن خیالی بیس سال پلائی تھی۔ موسیقی اس کی فضاؤں میں بھر دینا، اسی ذوق کی آبیاری، بالخصوص خواتین کے لیے اس کا ہدف تھا۔ انخلا میں اپنے سبھی پارٹنر، شراکت کار، ترجمان لے جانا چاہتا تھا۔ مگر افغانستان کی موعودہ ترقی کے تابوت کا آخری کیل یہ تھا کہ 260 افغان موسیقار اور ان کے خاندان جس میں ایک لڑکیوں پر مشتمل پورا آرکسٹرا اور 140 بچے بھی شامل تھے جو جانے کو تیار تھے۔ وہ اپنا موسیقی کا ورثہ ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ مگر ان سب نے بسوں میں ٹھنسے ہوئے اپنے خاندانوں کے ساتھ 17 گھنٹے ایئرپورٹ کے لیے دھکے کھائے شدید گرمی میں۔
آخری لمحات میں امریکی سپاہیوں نے انہیں ایئرپورٹ داخلے سے روک دیا۔ ایئرپورٹ، جہاز سب نگاہوں کے سامنے چند گز کے فاصلے پر تھا مگر لاحاصل۔ میوزک اسکول کے کچھ آلات موسیقی۔ اس حدیث کی تکمیل میں سرکاری اہل کاروں نے زخمی بھی کر ڈالے۔ ’میں آلات موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں‘۔ سجدوں، اذانوں، تلاوتوں کی سرزمین افغانستان لوٹ آئی!