اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں

عجب تماشا ہے، عقل و شعور محوِ تماشا ہیں۔ ہم ملوکیت کے آسمان سے گرے تو جمہوریت کی کھجور میں جا اٹکے۔ اس شجرِ بے سایہ سے یاری ایسی بے فیض ہے کہ دھوپ لگے تو سایہ نہیں ملتا اور بھوک لگے تو پھل دور ہے۔ عجب تشنہ لبی ہے۔ ہم گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ اہلِ مشرق کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے، اس لیے سائنسی ایجادات کے ساتھ ساتھ معاشرتی ادب اور سیاسی آداب بھی وہیں سے درآمد کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ہم ہر حال میں اہلِ مغرب کی گڈ بکس میں آنا چاہتے ہیں۔ ہم یکسر غافل ہیں کہ جس طرح سائنسی آلات کی ٹیکنالوجی کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے، اسی طرح جمہوریت ایسے ٹولز کا ریموٹ بھی انہیں کے پاس ہے۔ وہ جب چاہے ایک بٹن دبا کر ہماری ’’پھلتی پھولتی‘‘ جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر ہم سے ’’بہترین انتقام‘‘ لے سکتے ہیں۔ مقامِ غور ہے، انہیں اپنے مرضی کا وائسرائے مل جائے تو مارشل لاء تو کجا نسلی بادشاہت بھی ان کے وارے میں ہے۔ ہاں! اگر کوئی اونچ نیچ کرے تو جمہوریت کی ڈگڈگی پر کسی بھی بچے جمورے کو دائیں سے بائیں کیا جا سکتا ہے۔ مصر میں عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ جمہوری حکمران مُرسی انہیں ایک آنکھ نہیں بھایا کہ ان کا ہم آواز نہیں تھا، اور اس کا تختہ الٹنے والا فوجی ڈکٹیٹر ان کی آنکھ کا تارا ہے۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں ملوکیت کے نسلی تخت پر براجمان بادشاہان کرام ان کے مہمانان خصوصی ہیں کہ ان کی پسند کی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ یہی حال ترکی کا ہوا چاہتا تھا، جمہوری حکمران کا تختہ الٹنے والے باغی ان کے میڈیا میں انقلابی قرار دے دیے گئے، وہ تو بھلا ہو عوام کا، جنہوں نے بروقت سڑکوں پر نکل کر اس نام نہاد انقلاب کو ناکام بنایا۔
خودداری ایک بیش قیمت جوہر ہے، اس کی کوئی قیمت نہں ہوتی، اس لیے جو بھی قیمت بن پڑے غیور قومیں ادا کرتی ہیں۔ اقبال کا شاہین بھوکا رہنا قبول کرتا ہے، بلند پرواز ہے، وہ کرگس کی طرح مردار دیکھ کر زمین بوس نہیں ہوتا۔ اس کی بلند پروازی اس کی خودی ہے، اس کی پہچان ہے، اس کا جوہرِ ذاتی ہے اور اس کی بقا ہے۔ کہتے ہیں کہ بارش سے بچنے کے لیے عام پرندہ کونے کھدرے تلاش کرتا ہے، شاہین بارش سے بچنے کی تدبیر یہ کرتا ہے کہ بلند سے بلند پرواز ہوتا چلا جاتا ہے، بادلوں سے اوپر چلا جاتا ہے۔ ’’زمینی حقائق‘‘ کو رینگنے والے کیڑوں مکوڑوں کے لیے نیچے چھوڑ دیتا ہے۔ قصر سلطانی جمہور کے گنبد پر نشیمن انداز نہیں ہوتا۔ فی زمانہ قصرِ سفید سلطانی جمہور کا ترجمان ہے۔ جمہوریت اور تہذیب کے سارے سرٹیفیکٹ یہاں سے جاری ہوتے ہیں۔
حیرت ہے، وہ دین جس میں بتایا گیا ہے کہ مومن فاسق کے برابر نہیں ہو سکتا، بینا کبھی نابینا کے برابر نہیں ہو سکتا اور جاننے والا نہ جاننے والے کے برابر نہیں ہو سکتا، اسی دین کے ماننے والے مقدار کی دنیا کے ایسے اسیر ہوئے کہ بندوں کو تولنے کے بجائے گننا شروع کر دیا۔ مغربی طرزِ فکر کی اندھی تقلید نے یہی دن دکھانے تھے۔ ہمیں اپنا نظام خود وضع کرنا تھا، ہم خود کو بھول گئے، خدا کے پیغام کو بھول گئے اور نتیجہ یہ کہ خودداری سے محروم ہو گئے۔ فکر کی پستی کا یہ عالم کہ خود کو دینی راہنما کہلوانے والے بھی جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ دین کے بجائے جمہوریت کا ’’تحفظ‘‘ ان کا منشور قرار پاتا ہے۔ وہ بھی جمہوری نمک کی کان میں جا کر نمک ہو گئے۔
عادل فاروق کہ ایک شاگردِ ذی فہم ہے، اس کا سوال تھا کہ اہلِ مغرب جنہوں نے یہ جمہوری نظام وضع کیا ہے، کیا انہیں اس کی ایسی خرابیوں کا علم نہ تھا؟ دراصل چیزیں ہمیشہ اپنے تقابل میں بہتر یا بدتر ہوتی ہیں۔ مغرب نے سیکڑوں برس پر محیط ملوکیت اور پاپائیت کا گٹھ جوڑ برداشت کیا تھا، ان کے لیے انقلابِ فرانس ہی سب سے بڑا فکری انقلاب تھا۔ ظاہر ہے، ملوکیت کے مقابلے میں جمہوریت ایک بہتر نظام ہے، لیکن وہ قوم جس کے پاس آسمانی ہدایت اور معیار اپنی اصل حالت میں موجود ہو، اس کے لیے مقدار کی دنیا کے ضابطوں کی اندھا دھند تقلید قابلِ تعجب ہے۔ شومئی قسمت اسلام کی تاریخ کے اوائل ہی سے ہم ملوکیت کی گود میں جا گرے، معیار کا پیغام سننے والوں کی آنکھیں مقدار نے خیرہ کر دیں۔ دراصل اس وقت باقی اقوامِ عالم پر بھی ملوکیت ہی قائم تھی، اس لیے کسی کو کوئی اچنبھا نہیں ہوا۔ جب اہلِ مغرب نے بصد کوشش بسیار ملوکیت سے جان چھڑائی اور آزادی جمہور کی طرح ڈالی، اس وقت تقابل میں ہم ایک بار پھر بیک بینچر ہو گئے کہ ہم ہنوز ملوکیت میں سانس لے رہے تھے، ازاں بعد ہم اہلِ مغرب کی کالونی بن گئے۔ مقدار اور گنتی کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا یہ جمہوری نظام ایک بے دین معاشرے کے لیے تو ٹھنڈی ہوا ثابت ہوا، فیصلہ ہو گیا کہ وہ بادشاہ کی مانیں گے نہ پوپ کی، بلکہ اپنے فیصلے خود کریں گے، اکثریت جو چاہے گی، بس وہی قانون ہو گا۔ چنانچہ اس کے منطقی نتیجے میں آج اگر 
اکثریت شراب نوشی، جوا، بن شادی کے بچے اور ہم جنس پرستوں کی شادی ایسے اقدامات کی توثیق کر دیتی ہے تو یہ قانون ہے جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، اگر کوئی اس پر انگلی اٹھائے گا تو وہ گویا اُن کے جمہوری حق پر ضرب لگاتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے سیاسی مفکرین نے اپنی بگڑی ہوئی تاریخ کی سمت درست کرنے کے بجائے مغرب سے درآمد شدہ ریڈی میڈ جمہوریت کی سلی سلائی اچکن اپنے ہاں بھی امپورٹ کرنے کی ٹھان لی۔ اب یہ جمہوری لباس ہمیں پورا نہیں آتا، کبھی ہماری معیشت کے پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں اور کبھی ہماری اقدار کا سر ننگا ہو جاتا ہے--- کہتے ہیں، ننگے سر پر تو شیطان بھی دھول جماتا ہے۔ چاہیے تھا، اور چاہیے ہے کہ ہم وہاں سے سلسلہ جوڑیں، جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ ’’وامرھم شورٰی بینھم‘‘ ملوکیت اور پاپائیت دونوں کی نفی ہے۔
پارلیمنٹ کا نام مجلسِ شوریٰ رکھنے سے جمہوریت مسلمان نہیں ہو جاتی، پرائم منسٹر کو امیرالمومنین کہہ دینے سے اسلامی نظام قائم نہیں ہوتا۔ اسلامی نظام عدل پر قائم ہوتا ہے۔ عدل کا تعلق مقدار سے زیادہ معیار سے ہے۔ عدل تو دور کی بات، ہم تو محروموں کو ابھی تک انصاف بھی نہیں دے سکے۔ عدل ہر شئے کو اس کے درست مقام پر رکھنے کا نام ہے۔ ’’ہر مال دو آنے‘‘ عدل نہیں، یہ تو لوٹ سیل ہے یا پھر لوٹ مار!! ایک طفلِ مکتب اور ایک جہاں دیدہ کی رائے کو برابر وزن دینا عدل نہیں، ظلم ہے۔ جاننے والے اور نہ جاننے والے کے حقِ رائے کو برابر تسلیم کرنا عدل نہیں۔ عدل کا الٹ ظلم ہے۔ اگر کسی ہسپتال میں ڈسپنسروں کی اکثریت ایک قابل سرجن کے خلاف ہو جائے تو ان کی رائے کو ایک جمہوری حق تسلیم کرتے ہوئے سرجن کو آپریشن تھیٹر سے نکال باہر کرنا جاں بلب مریض پر ظلم ہے۔ عادل اور غیر عادل برابر نہیں ہو سکتے۔ خائن اور امین برابر نہیں ہو سکتے۔
حیرت در حیرت ہے، اسلامی معاشرے میں کسی کو بددیانت کہہ دیا جاتا ہے، مقدمہ درج ہوتا ہے، لیکن اسے بری کیا جاتا ہے نہ سزا سنائی جاتی ہے۔ اگر کوئی عہدیدار خائن ثابت ہو جاتا ہے تو اسے قرارِ واقعی عبرتناک سزا ملنی چاہیے اور اسے تاحیات کسی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہونا چاہیے، اور اس کے برعکس اگر کوئی کسی پر جھوٹا الزام دھرتا ہے، کسی کو بدنام کرتا ہے، بہتان لگاتا ہے تو اس پر حدِ قذف جاری ہونا چاہے۔ ملکی سیاسی معاملات میں جھوٹ ایک ناقابلِ معافی جرم ہونا چاہیے۔
سلطانی جمہور کی بات ہو رہی تھی، سیاسی اور معاشرتی نظام تو دور کی بات ہے، بحیثیت طبیب ایک مشاہدہ ہے کہ طبی معاملات میں بھی مغرب سے درآمد شدہ ادویات یہاں کے باشندوں کو اس طرح موافق نہیں پڑتیں جس طرح ان کے اپنے لوگوں کو راس آتی ہیں۔ ان کا ماحول مختلف، ان کی جینیاتی ترکیب ہم سے ذرا سی مختلف، غذائی عادات یکسر مختلف، لامحالہ وہ دوا اس طرح کام نہیں کرے گی جس طرح ان کی اپنی پاپولیشن میں کام کرتی ہے۔ چین، جاپان اور کوریا ایسے ممالک اس معاملے میں زیرک ہیں، وہ سائنس مغرب کی پڑھتے ہیں، ادویات کا انتخاب مقامی کرتے ہیں۔ ہمیں بھی صرف جمہوری اقدار سیکھنی ہیں، اپنے لیے جمہوری نظام خود تشکیل دینا چاہیے۔ مادر پدر آزاد جمہوریت اور میڈیا ہمیں مغرب کا غلام بنا دے گا۔ ڈیموکریسی میں ٹیکنوکریسی کی آمیزش شائد ہمارے مزاج کے موافق ہو جائے، بصورتِ دیگر وہی کچھ ہو گا جو کچھ ہو رہا ہے۔ جب تک لوگوں کی اکثریت تعلیم یافتہ نہ ہو جائے، اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے قابل نہ ہو جائے، یعنی باشعور نہ ہو جائے، کھوٹا اور کھرا پہچاننے کی اہل نہ ہو جائے، سب کی رائے کو یکساں اہم قرار دینا خطرناک ہے۔ جہاز کے کاک پٹ میں سب مسافروں کو یکساں رسائی دینے کی مہم جوئی ملک و ملت کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ رائے دینا صرف اہلِ رائے کا حق ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

مصنف کے بارے میں