عوام کے دن ضرور پھریں گے

عوام کے دن ضرور پھریں گے

موجودہ سیاست کاری سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس میں عوام کے لیے کچھ نہیں۔ ہر سیاستدان اپنے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے اپنے لیے ہی جوڑ توڑ میں مصروف ہے جبکہ تمام سیاستدانوں کو مل کر عوام کی حالت زار پر ترس کھاتے ہوئے گول میز کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے تھا مگر کسی ایک نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی بس آپس میں الجھتے چلے جا رہے ہیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کیے جا رہے ہیں تا کہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جا سکے مگر انہیں اس امر کا احساس نہیں کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ 
اب زمانہ اور ہے اس کے تقاضے مختلف ہیں لہٰذا یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے عام آدمی خوب سمجھ رہا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اسے بیوقوف بنانے کی روش سے اجتناب برتا جائے اس کے مسائل کے خاتمے کی بات کی جائے اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہو کر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے مگر جاوید خیالوی کہتا ہے کہ یہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے عوام کو مصائب سے دو چار کرنے کا عہد کر رکھا ہے تا کہ یہ اس کے بھنور میں پھنسے چکر کاٹتے رہیں اور ان کی طرف نہ دیکھ سکیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ 
انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو وہ عوامی غیظ و غضب کی زد میں آجاتا ہے پھر ظالموں کی زندگیاں بے کیف و سرور ہو جاتی ہیں ان کے دامن میں انگارے بھر جاتے ہیں لہٰذا بیان بازی اور دشنام طرازی کی سیاست جس نے پورے سماج کو آکاس بیل کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس سے نجات دلائی جائے علاوہ ازیں وطن عزیز مختلف النوع مسائل کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ عوام کی چیخ و پکار صاف سنائی دے رہی ہے۔ مہنگائی جو بڑھتے ہی چلی جا رہی ہے نے ان سے زندگی کی تمام رعنائیاں چھین لی ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس طرح کی حکمرانی کبھی نہیں دیکھی ایسی گرانی اور ایسا طرز عمل انہیں کبھی کہیں بھی نظر نہیں آیا کہ ہر طرف دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے کوئی اخلاقیات کوئی قانون اور کوئی ضابطہ دکھائی نہیں دے رہا۔ گویا جس کی لاٹھی ہے اس کی بھینس ہے۔ سرکاری محکموں میں غریب 
عوام کا کوئی پُرسان حال نہیں وہ اپنے جائز کاموں کے لیے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اہلکاروں کی اکثریت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کرنی ہے کسی کو کوئی اہمیت نہیں دینی اور اہمیت دینی بھی ہے تو دام کھرے کر کے لہٰذا ایک سینہ زوری کا منظر ابھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لوگ کس سے شکایت کریں کس سے شکوہ کریں ان کی کوئی سنتا ہی نہیں۔ 
ادھر ان دنوں کسان تحریک چل رہی ہے انہیں کھا دوں، بیجوں اور دواؤں نے بے حد پریشان کر رکھا ہے وہ اتنی مہنگی کر دی گئی ہیں کہ جنہیں وہ استعمال کرتے ہیں تو انہیں معمولی منافع ہوتا ہے جو جینے کے لیے ناکافی ہے، اسی وجہ سے ہی وہ سڑکوں پر آ ئے ہیں اور اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں۔ ان کا ایک مطالبہ بجلی کی قیمت کم کرنے کا بھی ہے پوری دنیا میں زراعت کی ترقی کے لیے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اس سے عام آدمی کو گندم چاول سبزیاں اور پھل سستے داموں حاصل ہوتے ہیں مگر یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے قومی خزانہ بھرنے کے لیے کسان کیا مزدور کیا اور ملازم کیا سب کی رگوں سے خون کشید کیا جاتا ہے اس کے باوجود خزانہ نہیں بھرتا، بھرے بھی کیسے اسے خالی کرنے والے بہت ہیں جو عوامی منصوبوں سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر کی آڑ میں اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں لہٰذا خزانہ بے چارا کیا کرے۔ اب تو حکومتوں نے پنشنرز کو بھی ایک بھاری بوجھ سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے۔ جس سے تعمیر و ترقی کے منصوبے اور پروگرام سخت متاثر ہوتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ایک ریاست ہے جسے اقوام متحدہ نے تسلیم کر رکھا ہے اس کا ایک آئین ہے جو شہریوں کو روزگار دینے کا پابند کرتا ہے تعلیم صحت کی سہولتیں دینا بھی اس کی ذمہ داری ہے مگر آئین کے اس حصے کو حکمران یاد نہیں رکھتے جو لوگوں کے فائدے میں ہے۔ اسے یکسر بھلا دیتے ہیں اور اس آئین کی شقیں یاد رکھتے ہیں جو ان کے اقتدار و اختیار سے متعلق ہے۔ 
بہرحال اب عوام کے سامنے ان حکمرانوں کے چہرے عیاں ہو چکے ہیں جو اب تک انہیں احمق تصور کرتے چلے آئے ہیں ان کی لوٹ مار بھی سامنے آ چکی ہے۔ جہاں کہیں بھی ان کی جائیدادیں ہیں ان سے لوگوں کو مکمل آگاہی ہوگئی ہے لہٰذا وہ ان سب سے بدظن و بدگماں ہیں انہیں ان پر کوئی اعتماد نہیں رہا کہ یہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں لہٰذا اب لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ جب تک ان کے اندر سے قیادت نہیں ابھرتی تب تک ان کے دن نہیں پھرنے والے لہٰذا اب اس سوچ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی منظر پر موجود جماعتیں سکڑتی ہوئی نظر آتی ہیں وہ محدود سے محدود ہوتی جا رہی ہیں اور جب یہ مزید سمٹیں گی تو عوامی شعور کے ہاتھوں مجبور ہو سکتی ہیں کہ ان کے مطالبات کو مان لیں انہیں بنیادی انسانی حقوق دے دیں مگر وہ آسانی سے نہیں ہار ماننے والیں۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ جب عوام احتجاج کرتے ہیں تو انہیں سختی سے روکا جاتا ہے ان پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے جیلوں اور حوالاتوں میں بند کر کے ذہنی و جسمانی ایذائیں پہنچائی جاتی ہیں اس کے باوجود ایک نفرت ہے جو حکمران طبقہ کے خلاف بڑھتی چلی جا رہی ہے جسے روکا نہیں جا سکتا اگر حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ ہر دلعزیز ہو جائیں عوام کے دلوں میں بس جائیں تو انہیں چالاکیاں ہو شیاریاں اور پھرتیاں چھوڑ کر ان کا ہتھیایا ہوا پیسا واپس خزانے میں لے آنا چاہیے اب سیاست ڈنڈے کے زور پر نہیں ہو سکتی عوام کو بڑے بڑے ریلیف دینا ہوں گے تا کہ ان کا غصہ اور نفرت کم ہو سکیں۔
اب جب وہ سڑکوں پر آئے ہیں تو انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے ان پر مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں ایسا سلوک انہیں کسی صورت قبول نہیں لہٰذا وہ حکمرانوں کو اپنا حریف سمجھنے لگے ہیں ان سے انہیں کوئی امید وفا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکمران ان سے انصاف نہیں کر رہے۔ اپنی کرپشن چھپاتے ہیں باہر کے ممالک میں ان کا پیسا لے جا کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ دوسری طرف عوام کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آئے روز ان پر ٹیکسوں کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے کبھی پٹرول، کبھی بجلی اور کبھی گیس کو مہنگا کر دیا جاتا ہے جس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں یوں غریبوں کو اپنی زندگیاں خطرے میں گھری نظر آنے لگی ہیں مگر مجال ہے حکمران اس کی فکر کریں انہیں کوئی تشویش لاحق ہو لہٰذا حکمران جتنے بھی انہیں چکمے دیں بھیس بدل کر مطمئن کرنے کی کوشش کریں فضول ہے۔ وہ آگے بڑھیں گے تاج اچھالیں گے اور تخت گرائیں گے پھر ایک نیا جہاں آباد ہو گا جس میں مساوات کا علم لہرا رہا ہو گا اور فاختائیں امن کے گیت گا رہی ہوں گی۔

مصنف کے بارے میں