نئی عمرانیات

نئی عمرانیات

عظیم سقراط نے کہا تھا کہ ”جو شخص عادل بننے کی خواہش ظاہر کرے وہ کبھی عدل کرنے کے قابل نہیں ہوتا“72 سالہ بوڑھے سقراط کو جب نوجوانوں کو ورغلانے کے جرم میں عدالت نے سزا کے تین آپشن دیئے۔نمبر ون: ایتھنز چھوڑ کرسپارٹا چلے جاؤ لیکن اُس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ72 سال جی چکا ہوں کہیں اور جا کر کتنا جی لوں گا۔نمبر ٹو: جرمانہ ادا کردولیکن عظیم سقراط نے جرمانے کی ادائیگی سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ جرمانہ ادا کرنے کا مطلب ہے کہ میں نے جو کچھ کہا وہ جھوٹ تھا جبکہ میرا ایک ایک حرف سچ ہے اور آنے والا وقت اسے سچ ثابت کرے گا۔ نمبرتھری: زہر کا پیالہ پیو اور مر جاؤ، سقراط نے زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دیتے ہوئے کہا ”میں زہر پی کر ہمیشہ کیلئے زندہ ہو جاؤں گا لیکن مجھے زہر دینے والے زندہ رہنے کے بعد بھی مردوں جیسی زندگی گزاریں گے“۔تقریباً 24 سو بہتر سال نے سقراط کا ایک ایک لفظ سچ کر دکھایا۔ عظیم سقراط کا باب یہیں ختم نہیں ہوتا، اُس کے شاگردوں نے موت کی رات جیل توڑ کراُسے نکال لیا اورکہا ”استاد، تم ایتھنز چھوڑ کر سپارٹا چلے جاؤ باہر 8گھوڑوں کی بگھی کھڑی ہے لیکن بوڑھے سقراط نے حقارت سے شاگردوں کے چہروں کو دیکھتے ہوئے کہا: ”میں اس ریاست کے قانون کو بدلنا چاہتا ہوں توڑنا نہیں۔“ اورپھر اگلی صبح سقراط نے زہر کا پیالہ پی لیا۔جب وہ مر رہا تھا تو اُس کے ایک شاگرد نے روتے ہوئے کہا: ”استاد تم بے جرم مارے جا رہے ہو۔“ مرتے ہوئے سقراط نے غصے سے جواب دیا:”کیا تم چاہتے تھے کہ میں مجرم بن کر مرتا۔“سقراط دنیا سے چلا گیا لیکن دنیا بھر کے انسانوں کو یہ بات بتا گیا کہ انسان گوشت پوشت کی ہئیت کا نہیں ایک موقف کا نام ہے اور جس کا موقف غیر انسانی ہو وہ انسان اورجانور کی درمیانی مخلوق تو ہو سکتا ہے البتہ انسان ہرگز نہیں ہو سکتا۔ سقراط کے بعد اُس کے شاگرد افلاطون نے زمین پر پہلی بار ”اکیڈمی“ بنائی جس نے ارسطو جیسے ہزاروں شاگرد پیدا کیے۔یونانی عقل نے اُس کے بعد سیکڑوں برس دنیا پر حکمرانی کی۔اہل یونان آج بھی اُس 72 سالہ بوڑھے کے ایک فیصلے کے مقروض ہیں۔قوموں کی تاریخ میں بڑے لوگوں کوبڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں، قدرت جب کسی قوم سے ناراض ہوتی ہے تو اُس قوم میں بڑے لوگ پیدا کرنے بند کردیتی ہے جس کے بعد قوم کو ہر بُرے فیصلے کے نتائج بھگتنا پڑجاتے ہیں۔ سقراط نے عمر بھر عقل کی بات کی اور نوجوانوں کو اپنے عہد کے حکمرانوں کے دیوی دیوتاؤں کے ڈرامے سے بچنے کی تلقین کی۔ اُس کے عہد کی اشرافیہ اُس سے خوف زدہ اور اسے اپنی اقتدار کیلئے خطرہ سمجھتی تھی۔ یونان کے حکمران اُس وقت دیوی او ر دیوتاؤں کی اولاد کہلاتے تھے لیکن سقراط اس بات کو ماننے کیلئے کبھی تیار نہیں ہوا۔ وہ انسانوں کے فیصلے بہترین انسانی عقل کے ذریعے حل کرنے کو سب سے معتبر سمجھتا تھا۔ اُس نے زندگی بچانے کے بجائے اپنا موقف بچانے کو ترجیح دی اوروقت نے یہ ثابت کیا کہ جب کسی قوم کے بڑے لوگ جان بچانے کے بجائے موقف بچا لیں تو قوموں کی زندگی کو حیاتِ جاوداں میسر آ جاتی ہے۔ 
وطن عزیز میں جاری کھیل تماشو ں نے ہرشجرِ سایہ دار کو اُس کی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔کبھی تربیت یافتہ انقلابی ریاستوں کی غیر منصفانہ تقسیم ِزر کے خلاف برسرِ پیکار ہوا کرتے تھے۔زندگی اُن کے نزدیک بے توقیرشے اورموقف اہم ہوا کرتا تھا لیکن آج وطنِ عزیز کے بے دید، ان پڑھ اور حقیقی انقلاب سے نا آشنا ہجوم کو دیکھتا ہوں تو اپنے ماضی پر 
کفِ افسوس ملنے کے سوائے کچھ نہیں بچتا۔مستقبل میں جھانکنا چاہتا ہوں تو کٹی پھٹی چند بے ترتیب تصویروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سماج ٹوٹ رہا ہے، انسان، انسان سے دور ہو رہا ہے۔ بدترین معیشت نے ہمارا فیملی سسٹم برباد کرکے رکھ دیا ہے۔دوسری طرف سیلاب کی تباہ کاریوں اور دلخراش مناظر نے پاکستان کے ہر گھر کو سوگوار بنا رکھا ہے لیکن اِن تمام حالات سے تو انسان نمٹ لیں گے۔پاکستانی قوم پر یہ مشکل وقت پہلی بار نہیں آیا اِس سے پہلے بھی ایسے لاتعداد مشکل ترین صراط کے پل طے کیے ہیں لیکن ان تمام حالات میں پاکستان میں عمران نیازی کاسیاسی کردار انتہائی قابل مذمت اور لائقِ نفرت ہے۔ مجھے خود ریاست کی یہ اندھی پسند نا پسند سمجھ نہیں آ رہی کہ جو آپ کو پسند نہیں وہ آپ بتائے بغیر مسنگ کر دیں گے اور جو پوری قوم کو بتا رہا ہے کہ آپ میرجعفر ہیں، میر صادق ہیں، پاکستان پر ایٹم بم گرا دینا چاہیے، جو افوا ج پاکستان اور عدلیہ کے ساتھ کھلے بندوں بدمعاشی کررہا ہے اُس کے ساتھ اتنا نرم رویہ کہ وہ آئین اورقانون سے بھی بالاتر ہے میری سمجھ سے باہر ہے۔ میرے کشمیر کیلئے یواین او نہیں بولتی مگر اُس کیلئے مغرب کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ جس کے اردگرد شوکت ترین،فواد چوہدریٗ، محسن لغاری، اسد عمر اور تیمور جھگڑا جیسے خود غرض اورسازشی لوگوں کا ہجوم بیٹھا ہے۔جنہوں نے کسی پرچون فروش کے خلاف نہیں ریاست پاکستان کے خلاف نہ صر ف سازش کی ہے بلکہ پکڑے جانے پر سینہ زوری بھی کر رہے ہیں۔ عمران خان کو ایک ایسی ریاست چاہیے جہاں کوئی ادارہ نہ ہواورصرف اُس کے احکامات کو ازلی، ابدی اورختمی حیثیت حاصل ہو۔ وہ سیاسی کن فیعکون حاصل کرنے کا تمنائی ہے۔ تحریک انصاف کا یہ چے گویرا یک ہاتھ سے گریبان اوردوسرے سے پاؤں پکڑ کر اپنے ناجائزمطالبات منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ عمران خان نے ابھی تک ریاست کی اصل شکل نہیں دیکھی، اُس کا تو پاکستان میں کچھ بھی نہیں جو تھوڑی بہت پراپرٹی ہے اُس کے وارث پاکستان سے باہر بیٹھے ہیں لیکن میں انتہائی ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں کے بچوں کو ورغلا کر مراد سعید تو بنا سکتا ہے لیکن کسی منظم آرمی کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بلوچوں کے رابطے را سے نکل آئیں تواُن کا کبھی پتہ نہیں چلتا انہیں کوئی جج برآمد نہیں کرا سکتا لیکن جن کے بھارتی، امریکی، گلفی اورمغربی مددکار، معاون اورسہولت کار آن ریکارڈ پکڑے جائیں اسے ہرادارہ ریڈ کارپٹ عطا فرمائے یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ اس سے عوام میں اگر عمران خان کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے تو بغیر کسی معذرت کے لکھ رہا ہوں کہ اس سے اداروں کا وقار بھی مجروح ہو رہا ہے۔ 
ریاست کسی ایک ادارے کا نام نہیں ہوتی یہ اداروں کا ایک جال ہے اور جال جہاں سے کمزورہو وہاں سے طاقتور تو دورکی بات کمزوراورلاغر مچھلیاں بھی نکل جاتی ہیں۔ریاست ایک رعب و دبدبے کا نام ہے جو اُس کے ادارو ں کی وجہ سے قائم ہوتا ہے اگر اداروں کی ساکھ تباہ وبرباد ہو جائے تو ریاستیں نہیں بچتیں۔ چین کے عظیم فلاسفر کنفیوشس کو ایک بار چین کے بادشاہ سی کنگ نے بلا کر پوچھا:”کنفیوشس ریاست چلانے کیلئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔“ کنفیوشس نے جواب دیا: ”تین چیزیں:سب سے پہلے روٹی پھر فوج اور تیسرے نمبر پر عوام کا ریاست پر اعتماد۔“ سی کنگ نے پوچھا:”اور اگر ”بحالت مجبوری کوئی ایک نہ دے سکیں؟“ تو کنفیوشس نے جواب دیا:”فوج کے بغیر گزارہ ہو جائے گا۔“سی کنگ نے پھر پوچھا:”اگر دو نہ دے سکیں تو؟“کنفیوشس نے برجستہ جواب دیا”روٹی کے بغیر بھی گزارہ ہوجائے گا لیکن جس دن عوام کا ریاست پر اعتماد ختم ہو گیا اُس دن ریاست نہیں بچے گی۔“
جناب مسیح سے تقریباً پانچ سو پچاس سال قبل چینی دانشور کی یہ ذہانت آج بھی دنیا بھر کے حکمرانوں کیلئے روڈ میپ ہے۔ عوام کا اعتماد ریاست پر اُس وقت ختم ہوتا ہے جب عوام کی آنکھوں کے سامنے اُس کے ادارے بے توقیر ہونا شروع ہوجائیں۔ جب عوام کے اندر سے کوئی پاپولر شخص بغیر کسی پروگرام، تربیت، جائزمطالبے کے، صرف ایک بے ہنگم ہجوم کے بل بوتے پر روزانہ کی بنیاد پر ریاست کی توہین شروع کردے تو عام آدمی بھی خوفزدہ ہو کر اُس ہجوم کا حصہ بن جاتا ہے۔ اُس وقت وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں جس کے ساتھ چل رہا ہوں وہ مستقبل میں کیا کرے گا مگر وہ اتنا ضرور سمجھ لیتا ہے کہ اُس کی ریاست اس کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔ 72 سالہ بوڑھے یونانی سقراط نے نہ تو بزدلی دکھائی اور نہ روزانہ کی بنیاد پر یو ٹرن لیا نہ اپنی ریاست کا قانون توڑ اورنہ ہی اپنے عظیم موقف سے دستبردار ہوا لیکن اُس نے یونانیوں کو ایک عظیم قوم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میں دنیا میں ہونے والی ہر مثبت تبدیلی کا حمایتی ہوں لیکن یہ ریاست ِ پاکستان مجھے اپنی ماں کے تقدس، اپنی بیٹی کی آبرو اور اپنے بیٹے کی جوانی کی طرح عزیز ہے لیکن اہلِ اختیار کو جو آئینی ذمہ داری دی گئی ہے انہیں وہ ہنگامی بنیادوں پر پوری کرنا ہو گی کیونکہ سقراط نے کہا تھا:”جو عادل بننے کی خواہش ظاہر کرے وہ عدل کرنے کے لائق نہیں ہوتا۔“ 

مصنف کے بارے میں