وہ سیاست میں کیوں آیا؟!

وہ سیاست میں کیوں آیا؟!

(دوسری وآخری قسط۔گزشتہ سے پیوستہ)
میں اپنے گزشتہ کالم میں یہ عرض کررہا تھا خان صاحب نے کرکٹ میں جس اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ خصوصاً ورلڈ کپ جیتنے کے حوالے سے کیا، پھر اُس کے بعد شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے معاملات جس طرح انتہائی اعلیٰ طریقے سے اُنہوں نے چلائے اُس سے یہ تاثر اُبھرا اُن جیسے شخص کی سیاست کو اشد ضرورت ہے، لوگوں کو یقین تھا وہ ملکی نظام بھی اُسی طرح چلائیں گے جس طرح شوکت خانم ہسپتال کا نظام اُنہوں نے چلایا، اِس سوچ کے تحت اُن کے کچھ دوستوں اور رشتہ داروں نے اُنہیں سیاست میں آنے کا مشورہ دیا جسے ابتدائی طورپر اُنہوں نے یہ کہہ کر رد کردیا یہ اُن کے بس کی بات نہیں، آج لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں یہ واقعی اُن کے بس کی بات نہیں تھی، مگر واقعہ یہ ہوا شوکت خانم ہسپتال سے اُنہیں ملنے والی مقبولیت میں روز بروز کمی ہوتی جارہی تھی، کچھ سماجی خدمات مختلف این جی اوز کے پلیٹ فارم سے اُنہوںنے انجام دیں مگر اِس سے اُنہیں وہ شہرت نہ مل سکی جس کی بطور کرکٹر اُنہیں عادت پڑ چکی تھی، یہ بات اندر اندر سے اُنہیں کھائے جارہی تھی کہ اُن کی شہرت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے، اِس کا اظہار اُنہوں نے اپنے قریبی دوستوں سے بھی کیا تھا، جمائما خان کے ساتھ شادی سے بھی اُنہیں مقبولیت ملی، بعد میں اُنہیں طلاق دینے سے بھی ملی۔ مگر یہ عارضی نوعیت کی مقبولیت یا شہرت تھی، وہ یہ چاہتے تھے وہ ہرحال میں خبروں میں رہیں، اور اُسی طرح کی مقبولیت انہیں ملتی رہے جو ورلڈ کپ کے موقع پر ملی تھی، چنانچہ اِس مقصد کے حصول کے لیے اُنہوں نے سیاست میں چھلانگ لگادی۔ یہ پاکستان میں واحد شعبہ ہے جس میں کسی نہ کسی حوالے سے انسان خبروں میں اِن رہتا ہے اور اُسے شہرت ملتی رہتی ہے، پاکستان میں جس طرح کی سیاست ہے اُس میں فائدے ہی فائدے ہیں، نقصان بس یہ ہے بعض اوقات عزت سلامت نہیں رہتی، جس طرح کی اب سیاست ہمارے ہاں ہورہی ہے اس میں عزت سلامت رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عمران خان کے بارے میں البتہ لوگوں کو یقین تھا وہ سیاست میں آئے گا اپنی عزت آبرو پر کوئی کمپرومائز نہیں کرے گا کیونکہ وہ ایک ایماندار آدمی ہے، اُس زمانے میں اُن کی ایمانداری ہر قسم کے شک وشبے سے بالاتر تھی، حکومت میں آنے کے بعد اِس پر کئی سوالیہ نشان ہیں، میرا اُن کے ساتھ چوبیس برسوں سے ایک ذاتی تعلق ہے، میرے اخلاقیات مجھے اجازت نہیں دیتے کچھ ایسے واقعات شواہد کے ساتھ اور تفصیل کے ساتھ میں عرض کروں جس کے بعد خود میں ڈبل مائنڈڈ ہوں کیا یہ شخص واقعی ایمانداری کے اُس معیارپر پورا اُترتا ہے جو بے شمار لوگوں نے اُن کے حوالے سے قائم کررکھا ہے؟ ہمارا خیال تھا سیاست میں اُن کی آمد سیاست میں بداخلاقی کے شدید ترین حبس میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی، وہ سیاست میں نئی خوبصورت روایات متعارف کروائے گا جس سے سیاست کے گندے انڈوں کو اپنی اصلاح کا موقع ملے گا، وہ سیاست میں ایسا خوبصورت کردار ادا کرے گاجس کے بعد شورش کاشمیری کے اس شعر کی اہمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماند پڑ جائے گی کہ ’’میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو … گھری ہوئی ہے طوائف تماشبینوں میں ‘‘ … ان کے کچھ مخلص دوستوں نے ان سے کہا اس وقت دوسیاسی جماعتوں نے ملک کی سیاست اور اقتدار پر قبضہ کررکھا ہے، لوگ ان سے بہت اُکتائے ہوئے ہیں، وہ تبدیلی چاہتے ہیں لہٰذا آپ اگر میدان سیاست میں چھلانگ لگادیں آپ کو بڑی پذیرائی ملے گی … جیسا کہ میں نے اُوپر عرض کیا شوکت خانم ہسپتال کے قیام کے بعد خان صاحب کی شہرت ایک بار پھر مدھم پڑ گئی تھی۔ اُنہیں دولت کی لالچ تو بالکل نہیں تھی، مگر آہستہ آہستہ شہرت سے محروم ہونے کا خدشہ اُنہیں پریشان کیے ہوئے تھا، وہ چاہتے تھے اُن کی شہرت نہ صرف برقرار رہے بلکہ یہ اُسی مقام پر رہے جس مقام پر ورلڈ کپ جیتنے کے موقع پر تھی، چنانچہ ’’جذبہ شہرت‘‘ کے تحت اُنہوں نے اُس شعبے میں چھلانگ لگادی جس کا اُنہیں کوئی تجربہ نہیں تھا، ابتدائی طورپرجو لوگ ان کے ساتھ ملے ان میں سے اکثرسیاست کے چلے ہوئے کارتوس تھے، زیادہ تر ’’بوڑھے طوطے‘‘ تھے جو کسی کام کے نہیں تھے، عمران خان کی سیاسی پارٹی کے نام تجویز کرنے کا مرحلہ آیا کئی نام زیر غور آئے، ملک میں چونکہ انصاف کے حصول میں لوگوں کو شدید دشواریوں کا سامنا تھا، لہٰذا اس سوچ کے تحت اس کا نام ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ رکھ دیا گیا کہ یہ نام لوگوں خصوصاً مظلوم لوگوں کو Attract کرے گا۔ 1994ء میں پی ٹی آئی کی جب بنیاد رکھی گئی اس کا سائز تقریباً اُتنا ہی تھا جتنا آج شیخ رشید کی جماعت کا ہے، اپنی سائیکل کی سواریوں کو وہ اپنے تانگے کی سواریاں قرار دے کر اپنا کام چلائے جارہا ہے اس کا ’’اعزاز‘‘ صرف یہ ہے کہ عمران خان نے اُسے اپنا چپڑاسی نہیں رکھنا تھا اور وزیر داخلہ رکھ لیا، راولپنڈی والوں نے ابھی تک خان صاحب کے ساتھ اُسے شاید اسی لیے جوڑارکھا ہے تاکہ خان صاحب یہی سمجھتے رہیں پنڈی والے اُن کے حق میںہیں۔ ابتدائی طورپر پی ٹی آئی کا منشور بھی لوگوں کو متاثر نہ کرسکا، اُس زمانے میں سیاست میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کا طوطی بول رہا تھا، یہ دونوں جماعتیں، خاص طورپر نون لیگ اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ جس جس طرح کے کمپرومائززکرنے کی عادی بلکہ ’’عادی مجرم‘‘ تھی اس کے نتیجے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کسی اور سیاسی جماعت کو اقتدار ملے گا، یا اُس کا کوئی چانس بنے گا، تیسری سیاسی قوت یعنی (اصلی قوت) سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور بنانے والوں کی اپنی تھی، اقتدار کا سب سے طویل عرصہ اُن ہی کا ہوتا تھا ، ان حالات میں چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں تھوڑا بہت حصہ ضرور مل جاتا، سنا ہے جنرل مشرف کے زمانے میں پی ٹی آئی کو بھی اُس کے سائز اور مقبولیت کے مطابق تھوڑا بہت حصہ دینے کی گنجائش پیدا کی گئی، مگر خان صاحب کی خواہش تھی اُنہیں کم ازکم وزیراعظم بنایا جائے، جوکہ اُنہیں نہیں بنایا گیا۔ 
جنرل مشرف کے ساتھ اُن کی ناراضگی شاید اِس لیے ابھی تک دور نہیں ہوسکی کہ اُنہوں نے اُنہیں وزیراعظم نہیں بنایا تھا، حالانکہ بعد میں یہی کام جنرل مشرف ہی کے کچھ ساتھیوں نے کردیا، اب وہ بھگت رہے ہیں، اور عوام بھی بھگت رہے ہیں، آئین وغیرہ توڑنے کا ’’حق‘‘ صرف اُنہیں ہی پیدائشی طورپر حاصل تھا، خان صاحب نے اُن کا یہ ’’حق‘‘ بھی اُن سے بغیر پوچھے ہی استعمال کرنا شروع کردیاہے، اِس کے نتائج مستقبل میں ممکن ہے اُنہیں بھگتنے پڑیں… ہم نے تو صرف یہ بتانا تھا خان صاحب کے پاس اُن کے کہنے کے مطابق عزت دولت شہرت واقعی سب کچھ تھا مگر اُن کا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ سیاست میں خدمت کے لیے آئے تھے۔ اصل میں وہ اپنی شہرت بحال رکھنے آئے تھے، ہم ایسے ہی یہ سمجھتے رہے وہ سیاست کی عزت بحال رکھنے آئے ہیں !!

مصنف کے بارے میں