فائنل راؤنڈ شروع

فائنل راؤنڈ شروع

وفاقی کابینہ کے بعد اتحادی جماعتوں نے بھی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اس فیصلے کی توثیق پارلیمنٹ سے بھی کرا دی گئی ہے۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فل بینچ کے فیصلے کے سامنے کسی قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ لیکن اس قسم کی باتیں ان معاشروں میں ہوتی ہیں کہ جہاں تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہے ہوں۔ جہاں یہ تاثر پختہ ہو جائے کہ بعض ججوں نے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ایک پارٹی کی لائن نہ صرف پکڑ لی ہے بلکہ اس پر ڈٹ کر کھڑے بھی ہو گئے ہیں تو پھر قرارداد تو کیا بیانات بھی اثر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے الیکشن کے بارے میں نو رکنی بینچ کو چیف جسٹس نے جس طرح سمیٹ کر تین رکنی ہم خیال بینچ بنا کر جو فیصلہ دیا اسے متنازع تو ہونا ہی ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہوئی کہ ازخود نوٹس کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم بینچ نے جو واضح فیصلہ جاری کیا تھا اسے چیف جسٹس نے پہلے تو رجسٹرار کے ذریعے ایک سرکلر سے ختم کرنے کا حکم سنایا اور پھر یہ سوچ کہ اس اقدام سے معاملہ الجھ سکتا ہے۔ ایک رات پہلے اپنے ہم خیال چھ جونیئر ججوں کا اجلاس بلا کر منصوبہ بندی کی اور اگلے روز جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں بینچ بنا کر صرف پانچ منٹ میں 8 صفحات کا فیصلہ جاری کر کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ کالعدم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح یہ طے ہو گیا کہ چیف جسٹس اور ان کے ہم خیال ججز ہر حد تک جائیں گے۔ اس پیغام کے بعد حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے بھی سر جوڑ لیے۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادت نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو متنازع اور اقلیتی رائے قرار دے دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت اجلاس میں پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پارلیمان کی بالا دستی کیلئے ڈٹ جانے کی تجویز دے دی۔ نواز شریف اور مریم نواز نے تین رکنی بینچ میں شامل ججز کیخلاف ریفرنس دائر کرنے پر اصرار کیا۔ شرکا نے کہا کہ فل کورٹ نہ بنا کر انصاف کا قتل کیا گیا، پارلیمنٹ اپنی بالا دستی تسلیم کرائے، پارلیمنٹ کی بے توقیری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، سب سے اہم بات یہ کی گئی کہ اب بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا تو بہت نقصان ہو گا۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں چیف جسٹس سمیت تین ججز کے خلاف جوڈیشل مس کنڈکٹ پر ریفرنس دائر کرنے پر غور کیا گیا، قانونی ٹیم نے کہا کہ ادھورے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو گا۔ اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے شریک تھے، جبکہ مریم نواز، مولانا فضل الرحمان اور خالد مقبول صدیقی اور دوسرے اتحادی رہنما بھی شریک ہوئے۔ اسی روز بلاول اور مریم نے الگ الگ اجتماعات میں چیف جسٹس بندیال پر کڑی تنقید کی۔ بلاول نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس وقت ملک میں کوئی سپریم کورٹ موجود ہی نہیں۔ چند جج ہیں جو اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ مریم نواز نے چیف جسٹس اور ہم خیال ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے غیر آئینی اور غیر قانونی احکامات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ انہی واقعات کے تسلسل میں اب یہ دیکھنا ہو گا کہ حکومت اپنی اگلی
چال کیسے چلتی ہے۔ چیف جسٹس بندیال اور انکے ہم خیال ججوں کی حد تک بالکل واضح ہے کہ انہوں نے ہر حوالے سے پیشگی پلاننگ کر رکھی ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ میدان عمل میں آ کر جوابی اقدامات کرنے کے لیے حکومت کی پوٹلی میں کیا کچھ موجود ہے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف پے درپے دائر ہونے والے ریفرنس انتہائی ٹھوس ہیں۔ ملک کے ایک بڑے قانونی دماغ جو سابق جج ہیں نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر ہونے والے پہلے ریفرنس کا مطالعہ کرنے کے بعد بتایا کہ جسٹس مظاہر کے پاس استعفا دینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ اب اگر چیف جسٹس بندیال، جسٹس مظاہر کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں لگا رہے تو اسکی وجہ صرف اتنی نہیں کہ وہ ان کے گروپ کے اہم ترین ممبر ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کچھ اور ججوں کی آڈیوز، ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ جن کا معاملہ اتنا دراز اور الجھا ہوا ہے کہ حالیہ فیصلوں کی پیشگی پلاننگ بھی پکڑی جا چکی ہے۔ سادہ سی بات ہے جیسے ہی جسٹس مظاہر کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں آئے گا اسکے ساتھ ہی کچھ اور ججوں کے متعلق مواد بھی سامنے آ جائے گا۔ سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے دست راست محمد خان بھٹی دوران حراست بیان دے چکے ہیں کہ جسٹس مظاہر ہمارے لیے سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب کو منیج کرتے ہیں۔ محمد خان بھٹی نے لاہور ہائی کورٹ کے متعلق بھی سب کچھ بتا دیا کہ وہاں کا سسٹم کیسے اور کون ہینڈل کر رہا ہے۔ اگر از خود نوٹس بنتا تھا تو اس معاملے پر لازمی بننا چاہیے تھا مگر چیف جسٹس بندیال نے سارا زور پنجاب میں الیکشن کرانے پر لگا دیا۔ یقیناً یہ سوچا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تو ایک پیج سے نکل گئی۔ اب بچے کھچے پارٹنرز اسی صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں کسی طرح پی ٹی آئی کی حکومت آ جائے تاکہ اس کے ساتھ ہی وفاق کو یرغمال بنا کر پورا سسٹم اپنے کنٹرول میں لے لیا جائے اور اہم ترین اور حساس عہدوں پر موجود شخصیات کو ہٹا کر اپنی مرضی کے بندوں کو مسلط کیا جا سکے۔ ایک بڑا خوف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اگلے چیف جسٹس بننے کا بھی ہے۔ کیونکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق میرٹ پر فیصلے کریں گے حتیٰ کہ ججوں کے متعلق زیر التوا شکایات بھی میرٹ پر نمٹائیں گے۔ سپریم کورٹ کے ہم خیال گروپ کی اب تک کی کارروائی دیکھ کر لگ رہا ہے کہ حکومت کے خلاف توہین عدالت کے ہتھوڑے برسا کر نااہلیوں کی لائن لگائی جائے گی۔ سپریم کورٹ کا اختیار تو ہے مگر کیا یہ ممکن ہو گا کہ جب تمام سیاسی جماعتیں ایک موقف پر یکسو ہوں تو انہیں عدالتی احکامات کے ذریعے مار گرایا جا سکتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہم خیال جج اور اتحادی حکومت اس حد تک مد مقابل آ چُکے ہیں کہ اب دونوں فریقوں میں ایک ہی برقرار رہ سکتا ہے۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ دھما چوکڑی کے اس فائنل راؤنڈ میں اسٹیبلشمنٹ کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی رہے گی۔ یہ تو طے بلکہ عمران خان نے خود اپنی زبان سے کہہ بھی دیا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کے نتائج ماننے یا نہ ماننے کا فیصلہ وہ رزلٹ دیکھ کر کریں گے۔ مطلب صرف اور صرف جیت ہی قبول کی جائے گی ورنہ پھر سڑکوں پر ہوں گے۔ کسی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ بہتر ہو گا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے تمام ہم خیالوں کے ساتھ ایک بینچ بنا کر عمران خان کو ڈائریکٹ وزیر اعظم مقرر کرنے کا حکم جاری کر دیں۔ لیکن یہ مت بھولیں ایسا ہوا تو امن و استحکام نہیں آئے گا بلکہ ملک ایک اور بڑے بحران میں گھر جائے گا۔ حکومتی اتحاد میں شامل کوئی جماعت عمران خان سے بات چیت کرنے پر تیار نہیں۔ اس کا سادہ ترجمہ رانا ثنا اللہ نے یہ کہہ کر پہلے ہی کر دیا ہے کہ اب عمران خان رہے گا یا ہم (یہ بات یقیناً سیاسی حوالے سے ہی گئی مگر ملک میں انتشار پھیلانے کے سوداگروں نے اسے کوئی اور ہی رنگ دے کر ملک میں افراتفری پیدا کرنے کے پوری کوشش کی بلکہ اب تک کر رہے ہیں)۔ عمران پراجیکٹ کے کئی کردار جا چکے لیکن کئی اب بھی پوری طرح سے سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ آگے بڑھ کر سخت ہاتھ ڈالے بغیر حالات کو کنٹرول کر لے گا تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ کوئی بھول میں نہ رہے کہ آپ جناب کہہ کر مخاطب کرنے کا دور کب کا ختم ہو چکا۔ حکومتی اتحاد میں شامل پارٹیوں نے اب کسی بھی حوالے سے کوئی کمزوری دکھائی تو فیض باقیات ان کو طویل عرصے کے لیے لپیٹ کر رکھ دیں گی۔ یہ سیاست نہیں بقا کی جنگ ہے۔ اس وقت تو یہی لگ رہا ہے کہ حکومت اور اسکی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی اور ہم خیال ججوں کے محاصرے میں آ چکی ہیں لیکن یہ پاکستان ہے جہاں صرف 24 گھنٹوں میں بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔ دیکھتے ہیں اس بار بھی ایسا ہی ہوتا ہے یا پھر جو ہوتا نظر آ رہا ہے وہی حتمی نتیجہ ہو گا۔