ہم سے کر درگزر!

ہم سے کر درگزر!

ملکی فضا کا انتشار وافتراق طبیعت کو مکدر کیے دے رہا تھا۔ نئے ہجری سال کی ابتداء اور شہادتِ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے تذکرے لازم وملزوم ہیں۔ رشد وہدایت کا ایک مینار اور حق وباطل مابین کسوٹی! اگرچہ یہ شہادت سانحۂ عظیم تھا اسلامی تاریخ کا، مگر یہ وہ ہستی ہے کہ جس کا تذکرہ ہی دلوں کو گرما دے، ولولۂ تازہ سے بھر دے۔ یاس کی تاریکیاں چھٹ جائیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کی شہادت پر فرمایا تھا: عمر! اللہ تم پر رحم فرمائے، تم نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا، جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس جیسا عمل کرتے ہوئے اللہ سے ملوں۔ اللہ کی قسم! مجھے یہ یقین تھا کہ وہ آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کثرت سے یہ کہتے ہوئے سنتا تھا: میںؐ گیا اور ابوبکرؓ و عمرؓ گئے، میںؐ اور ابوبکرؓ و عمرؓ داخل ہوئے، میںؐ اور ابوبکرؓ و عمرؓ باہر آئے۔ (بخاری)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمرؓ کی شہادت کے وقت ان الفاظ میں تسلی انہیں دی تھی: ’آپ کی خلافت پر دو لوگوں کے مابین بھی اختلاف نہ تھا، ایسے اجماع کے ساتھ آپ نے خلافت سنبھالی تھی۔‘ اقبال کے یہ اشعار سیدنا عمرؓ کو کیا خوب جچتے ہیں: تنے پیدا کن از مشتِ غبارے، تنے محکم تر از سنگیں حصارے۔ درونِ او دلِ درد آشنائے، چوں جوئے در کنارے کوہسارے۔
(مشتِ خاک سے وہ وجود اٹھا جو پتھر کے حصار سے زیادہ مستحکم ہو۔ مگر جس کے اندر درد آشنا دھڑکتا دل یوں ہو جیسے کوہسار کے دامن میں بہتی ندی!) اہلِ ایمان کا حیران کن توازن جنگوں میں کھل کر سامنے آتا ہے۔ کفار جہاں وحشی درندے ہو جاتے ہیں۔ مومنانہ صفیں سورۃ الانفال سے، (جنگوں میں بھی) نماز سے للہیت اور خشوع پاتی ہیں۔ جسم، دل، کھال نرم پڑ جاتی، چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔ خدا خوفی ہرجا رہنما ہوتی ہے۔ (جس کا ہماری سیاسی جنگوں سے گزر بھی نہیں!) نبی کریم صلی اللہ علییہ وسلم نے سیدنا عمرؓ کی مثال حضرت موسیٰؑ سے دی تھی جنہوں نے کہا تھا: ’یا اللہ ان کے دلوں کو مہر کر دے کہ یہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں۔‘ اشداء علی الکفار میں یہ سختی اور رحماء بینھم میں بھی ضرب المثل۔
 حضرت موسیٰؑ کو مدین میں دیکھیں تو تھکا ماندہ اجنبی مسافر، جوتے پھٹ چکے آبلہ پا، راستے میں درختوں کے پتے کھاتے ہونٹ کٹ گئے۔ اس حال میں بھی کنویں پر خواتین کی بے چارگی پر طبیعت کی نرمی، نیکی مدد کو لپکتی ہے۔ حالانکہ گرد وپیش مردوں کا جمگھٹا مروت سے بے پروا تھا! خواتین کے جانوروں کو پانی پلایا۔ اور پھر اپنا فقر لیے درخت کے نیچے عجز سے رب تعالیٰ کو پکار رہے ہیں! اجابتِ دعا لدی پھندی مجسم چلی آئی۔ دردمندی کے احساس، لمحے کی نیکی، الشکور رب کے ہاں سے 8-10 سال کی ملازمت کا پروانہ، گھر، خاندان، بیوی، بچے، نبوت، فرعون کی غرقابی، بنی اسرائیل کی نجات لے کر آئی۔ 
اخلاص اور مروت کو اتنا پھل لگتا ہے! ہماری تاریخ روح سیراب وشاداب کر دینے والی ہے جہاں سے کھول لیجیے! یہی کوہسار کنارے جوئے نغمہ خواں سیدنا عمرؓ بھی تھے۔ بیواؤں کے لیے کاندھے پر مشک رکھے پانی بھرتے، مجاہدین کی بیویوں کے لیے بازار سے سودا سلف لائے۔ پھر تھک کر مسجد کے گوشے میں فرشِ خاک پر لیٹ جاتے۔ 
اسی طرح ایک دن شہر سے باہر تھک چکے تھے۔ غلام کو گدھے پر سوار دیکھا، ساتھ بٹھا لینے کی درخواست کی۔ وہ فوراً اتر گیا اور گدھا پیش کیا۔ فرمایا: نہیں! تم سوار رہو، اور امیر المومنین اس طرح مدینہ میں داخل ہوئے کہ گدھے پر غلام کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ (ہمارے ہاں افسران تک ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھنا ہتک سمجھتے ہیں۔ گاڑی کا دروازہ خود کھولنے اور بریف کیس اپنا خود اٹھانے سے بھی معذور ہوتے ہیں!) سفر میں امیر المومنین کے لیے درخت کا سایہ شامیانہ ہوتا اور فرش خاک بستر! جبکہ رعایا کا یہ عالم کہ زکوٰۃ دینے نکلیں تو مستحقِ زکوٰۃ نہ ملے۔ معاذ بن جبلؓ یمن کے گورنر تھے۔ صوبے کے بجٹ سے بچی رقم مرکز کو دینے کو بھجوائی۔ سیدنا عمرؓ ناراض ہوئے واپس کردی کہ وہیں فقراء کو دو (مدینہ خوشحالی سے سیراب تھا!) جوابی خط آیا کہ میرے صوبے میں کوئی مستحق نہیں ہے! 
اور امن کا یہ عالم کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوشخبری پوری ہوئی کہ تنہا عورت حیرہ سے مکہ تک کا سفر کرے گی، ایک اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا! آج ہمارے پورے ملک میں لوٹ مار، چوری ڈاکے کا بازار گرم ہے۔ بھری ٹرین میں، موٹروے پر روشنیوں کے باوجود، کوچ کے سفر میں لٹتی خواتین! روزانہ اغوا قتل ہوتے معصوم بچے! (ریاست مدینہ کی دعووں بھرے اتنے سال۔) اور یہ موازنہ بھی کرلیجیے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا، تو وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے، ماننے سے انکاری ہوئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے تلوار کی دھمکی دی تو سر جھکایا۔ یہاں کرسیوں، ووٹوں، عدل انصاف کے گھن چکر، آپادھاپی، کھینچا تانی، میوزیکل چیئرز کا نقشہ اور وہاں منصب سے لرزاں وترساں عمرؓ جیسا جری آدمی! سیدنا عمرؓ نہ صرف باصلاحیت امراء وگورنر مقرر کرتے بلکہ حکام کی سخت نگرانی کرتے۔ ارشاد فرمایا: میں نے گورنر اس لیے نہیں بھیجے کہ وہ تمہیں کوڑوں سے پیٹیں یا تمہارا مال تم سے لے لیں، بلکہ اس لیے کہ وہ تمہارے مسائل عدل وانصاف کے ساتھ حل کریں اور مال تمہارے درمیان عدل سے تقسیم کریں۔ مسلم معاشرے کی اصل بنیاد ہی عدل وانصاف ہے۔ خداخوفی پر مبنی حق کے گواہ، عدل قائم کرنے والے، کہ یہی تقویٰ ہے۔ (المائدہ۔ 8) 
امام رازی کہتے ہیں کہ ’امن قائم کرنا (جس کی بنیاد عدل وانصاف ہے نہ کہ انصاف طلب مظلوم عورتیں ہراساں کی جائیں۔) بھوک رفع کرنے سے بھی مقدم ہے۔ انصاف نہ ہوتو بھوک بھی ختم ہو جاتی ہے۔‘ سستا اور فوری انصاف یقینی بنانا مسلم حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ رعایا کے تحفظ کے لیے ہمارے سیٹی اور ڈنڈا بردار چوکیدار کی مانند 22 لاکھ مربع میل کی وسیع وعریض پرشکوہ مملکت کا امیرالمومنین راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں پھرتا پہرہ دیا کرتا تھا۔ قیادت کا کام عوام کی حفاظت کرنا تھی، اپنی حفاظت نہیں۔ یہاں بلٹ پروف، بم پروف قیادت ہے۔ پولیس کی آدھی نفری تو بڑوں کی حفاظت پر متعین ہے۔ جو کنالوں، ایکڑوں پر محیط محلات میں رہتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے ایک مصری شہری کی شکایت پر (ناروا کوڑے مارے گئے تھے۔) گورنر اور بیٹے کو طلب کرلیا۔ مصری نے بدلے میں اتنے ہی کوڑے (عدلِ فاروقی پر) بیٹے کو مارکر شرعی بدلہ لے لیا۔ اس پر وہ تاریخی جملہ گورنر سے کہا: ’انہیں ان کی ماؤں نے آزاد پیدا کیا تھا تم نے انہیں غلام کب سے بنا لیا!‘
جب قحط پڑا تو گوشت مکھن دودھ ختم ہوگیا جو بنیادی خوراک تھی۔ سیدنا عمرؓ نے قسم کھا لی کہ جب تک عام انسان کو بازار میں یہ چیزیں میسر نہ آئیں گے، وہ یہ نہیں کھائیں گے۔ بازار میں یہ چیزیں آ گئیں اگرچہ مہنگی تھیں۔ ملازم گیا اور دودھ، مکھن 40 دینار میں خرید لایا کہ اب آپ کی قسم پوری ہوگئی۔ جب 40 دینار کا سنا تو انکار کردیا۔ یہ اسراف ہے میں ہرگز استعمال نہ کروں گا۔ جب تک میں اس تکلیف سے نہ گزروں جس سے عوام گزر رہے ہیں، مجھے ان کے دکھ درد کا احساس کیونکر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا جب تک قیمت نہ گری نہ خریدا نہ استعمال کیا۔ عتبہ آذربائی جان میں تھے۔ مسلمان بہت سادہ غذا کے عادی تھے۔ طرح طرح کے ذائقوں سے ناآشنا۔ فتحِ آذر بائی جان سے وہ ایک نئے میٹھے پکوان سے آشنا ہوئے۔ سوچا خلیفہ کو بھیجتا ہوں۔ ڈھیر سارا بنواکر اونٹ پر لادا اور بھیج دیا۔ سیدنا عمرؓ نے چکھا، فرمایا بہت لذیذ اور میٹھا ہے۔ اگلا سوال یہ تھا۔ ’کیا یہ آذر بائی جان میں تمام مسلمانوں کو میسر ہے؟‘۔ پتا چلا کہ نہیں! سیدنا عمرؓ نے فرمایا، اسے واپس لے جاؤ اور خط لکھ بھیجا۔ ’یہ پیسہ نہ تمہاری اماں کا ہے نہ بابا کا، جو تم دونوں ہاتھوں سے لٹا رہے ہو۔ کوئی چیز مت کھاؤ، جب تک وہ تمام مسلمانوں کو میسر نہ ہوں۔ تمہیں یہ خصوصی مراعات کیوں حاصل ہوں، جبکہ یہ تمہارے والدین کا پیسہ نہیں ہے۔ یہ تھے عمرؓ۔ خود کو کسی ترجیح کے لائق نہ سمجھنے والے!
رہے ہمارے حکمران تو شاید یہ ہم عوام کو اپنے والدین سمجھتے ہیں۔ (سیدنا عمرؓ کے پیرائے میں)۔ بے حد وحساب مراعات عوام کے پیسے سے اڑاتے ہیں۔ اگر اول تا آخر بیوروکریسی، جج، جرنیل، ہر سطح کے حکمرانوں کی مراعات تفصیلاً چھاپ دی جائیں تو عوام کی مفلسی، قرضوں کے انبار اور ان بڑوں کے ارب پتی ہونے کے راز اور وجوہات سب سامنے آ جائیں۔ ان سفید ہاتھیوں نے عوام سے خون کی ہر رمق چھین لی ہے۔ اللہ کی رحمتہم سے دور ہوگیٔ۔ جھوٹ کی بدبو (گناہوں میں بدبو ہوتی ہے۔) سے نبیؐ کی صراحت کے مطابق، فرشتے دور چلے جاتے ہیں۔ پورے ملک میں جھوٹ سیاہ بادل بن کر چھایا ہوا ہے۔ اس تسلسل، ڈھٹائی اور بے خوفی سے جھوٹ دہرایا جاتا ہے کہ وہی سچ لگنے لگے۔ عقل ماؤف ہو جائے۔ شیطان فارغ ہوکر سو جائے! یہی فتنۂ دجال ہے!   ؎
تیری رحمت کی ربّاہ! بس اک نظر
بخش دے ہر خطا، ہم سے کر درگزر