معاشی جادوگری کی ضرورت

معاشی جادوگری کی ضرورت

معیشت کو خطرات کے بھنورسے نکالنے کے لیے ایسی معاشی جادوگری کی ضرورت ہے جو آمدن کے ذرائع کو بہتربنائے تاکہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات ملے اسحاق ڈار کے آنے سے توقع تھی کہ ایسا ہوگا مگر اُن سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں بلکہ ہر آنے والا دن گزرے دن سے ابتر ہوتاجارہا ہے اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے اطوار نہیں بدلے بلکہ سب کچھ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے غیر متوقع اور تباہ کُن سیلاب نے تیس ارب ڈالر کا نقصان کیاہے رہائشی مکانات گرنے اور کم ہوتی زرعی پیداوار جیسے نقصانات کا مداوا کرنے کے لیے جس صدقِ دل سے کام کرنے کی ضرورت تھی تاکہ متاثرین کی بحالی ہو سکے اُس کافقدان ہے اسی بناپر ابھی تک بحالی کاکام ادھورا ہے خوراک میں خود کفالت سے محروم ہونے کا تقاضاتھاکہ غیر آباد کھلیان کو کاشت کے قابل بنایا جاتا مگرہویہ رہا ہے کہ زرعی رقبہ رہائشی کالونیاں نگلتی جا رہی ہیں لیکن صاحبانِ اقتدار ہنوزایسا کوئی طریقہ کار نہیں بناسکے جس سے تیزی سے کم ہوتے زرعی رقبے کی رفتار پر قابوپایا جا سکے اِس لاپروائی کی وجہ سے پاکستان جیسے زرعی ملک کا اربوں ڈالر چینی،گندم،خوردنی تیل جیسی اجناس درآمدکرنے پر خرچ ہورہاہے بڑھتے درآمدی بل کے باوجود ذمہ داران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نقصان برداشت کررہے ہیں اگر خوراک میں خود کفالت ہی حاصل کر لی جائے توکسی حدتک معاشی دباؤ کم ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کواگلے تین برس کے دوران بیرونی قرضوں کی مد میں تہتر ارب ڈالر کی بھاری بھرکم ادائیگیاں کرنا ہیں صرف 2022-23میں بتیس سے چونتیس ارب ڈالر بیرونی قرض کی صورت میں ادا کرنا ہیں مگر زرِ مبادلہ کے ذخائر پر نظرڈالیں تو ادائیگیوں کے عشر عشیر بھی نہیں اِس لیے ادائیگیوں سے بچنے کے لیے بیرونی قرضوں کو ری شیڈول کرانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑے گی فوری طورپرا داکرنے والے ستائیس ارب کے بیرونی قرضوں میں چین کے بھی 23ارب ڈالر شامل ہیں علاوہ ازیں پاکستان کو توقع ہے کہ اگلے برس کے دوران کچھ دوست ممالک اور چند ایک عالمی اِداروں سے بائیس ارب ڈالر کی مالی معاونت حاصل ہو جائے گی اِس میں سعودی عرب،چین اور متحدہ ارب امارات کے سٹیٹ بینک کے پاس رکھوائے ڈیپازٹ تک شامل ہیں آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق قرضے جی ڈی پی کے اسی فیصد تک ہو چکے ہیں یہ خطرے والی صورتحال ہے جسے بہتر کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر آمدن کے ذرائع بڑھانا ہوں گے تاکہ اسی فیصد ہونے والے بیرونی قرضے 2027تک جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد تک لائے جا سکیں مگر اِس حوالہ سے جس جادوگری کی ضرورت ہے اُس حساب سے کام ہو تا نظر نہیں آرہاآج بھی شاہ خرچیاں جاری ہیں بے مقصد بڑے بڑے وفودبیرونِ ملک لے جانے کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ معاشی بہتری کے لیے اخراجات کم کرتے ہوئے بچتوں پر توجہ دی جائے اور غیر ضروری اخراجات کو ختم کیا جائے۔
حکومت نے گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل سکوک بانڈ
کی ایک ارب ڈالر ادائیگی سے ملک کو دیوالیہ کے خطرات سے چاہے وقتی طور پرہی سہی نکال لیا ہے ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے سٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں 1.5ارب ڈالر جمع کرانے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں معمولی حد تک بہتری دیکھنے میں آئی ہے مگر جب تک قومی آمدنی بڑھانے کے لیے معاشی استحکام اور پائیدار منصوبوں پر توجہ نہیں دی جاتی معاشی استحکام کی منزل حاصل ہونا محال ہے ہر آنے والی حکومت نے ملک کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے بجائے قرضوں کے ذریعے ہی امورِ مملکت کی انجام دہی کی یہی حکمتِ عملی اور تن آسانی ملکی معیشت کو بے ڈھب کرنے کی اہم وجہ ہے وزیرِ اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ اگر پن بجلی اور شمسی توانائی پر توجہ دی جاتی تو آج ہمارا ایندھن کا بل 27 ارب ڈالر نہ ہوتا مگر یہ بات کرتے ہوئے شاید اُنھیں یاد نہیں رہا کہ اُن کے برادرِ اکبر نوازشریف 1983سے تھوڑے تھوڑے وقفے سے مسلسل اقتدار میں ہیں سب کی غلطیوں کا خمیازہ آج ملک معاشی گرداب میں دھنستا جا رہا ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ اب بھی پالیسی تبدیل نہیں کی گئی حالانکہ وقت ضائع کیے بغیر ایسی معاشی جادوگری کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف دیوالیہ کے خطرات ختم ہوں بلکہ معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال ہونے کی منزل حاصل کی جا سکے۔
بیرونی قرضوں کاحجم 2015میں پینسٹھ ارب ڈالر تھاجو گزشتہ مالی سال میں 130ارب ڈالر ہو گیا جس سے عیاں ہوتا ہے کہ رواں دہائی میں ملکی آمدن میں اضافہ کرنے کے بجائے بیرونی قرضوں پر ہی انحصار کیا گیا اسی وجہ سے قرضوں کا بوجھ معیشت کے لیے ناقابلِ برداشت ہواعجیب اور شرمناک پہلو یہ ہے کہ آج بھی معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے اور ٹیکس وصولی کی شرح دنیا میں کم ترین ہے آمدن کے حوالے سے بات یہاں تک ہی محدودنہیں گزشتہ سات برس میں ملکی برآمدات میں تو محض تیرہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا مگر درآمدات میں بڑھوتری پچاسی فیصد ہوچکی ہے اِس خوفناک فرق کوکم کرنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کے بجائے سیاسی قیادت نے غیر ملکی قرضوں پرہی انحصار رکھا جس سے قرضوں کا پہاڑ کل معیشت کے قریب آتاگیا اور ادائیگی بساط سے باہر،اب اسحاق ڈارکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے کچھ جادوگری کا مظاہرہ کریں تاکہ وطنِ عزیز پر دیوالیہ ہونے کے خطرات کا خاتمہ ہو حالات کا تشویشناک پہلو تو یہ ہے کہ حکومت کے حامی مفتاح اسمعٰیل جیسے لوگ بھی اب تو معاشی ابتری کی جانب اشارہ کرنے لگے ہیں یہ اعتراف ثابت کرتا ہے کہ معاشی بہتری کے حکومتی دعوؤں میں صداقت نہیں بلکہ معاشی حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔
ایسے حالات میں جب ملک پر معاشی طورپر دیوالیہ کے خطرات منڈلارہے ہیں سیاسی قیادت نے رویے تبدیل نہیں کیے پائیدار معاشی بہتری کے لیے عملی طور پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے مگرسیاسی قیادت کام کے بجائے آج بھی محض الزام تراشی میں مصروف ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ ملک کی آج جو بھی معاشی حالت ہے اِس کی سبھی سیاسی قیادت ذمہ دارہے کوئی ایک بھی بری الزمہ نہیں مگر سب ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں ملکی بانڈز قد رکھو رہے ہیں جن پر CDSرسک پریمیم جو کبھی صرف چھ فیصد تھا تیس کے بعد پچاس اور اب تو بانوے فیصد سے تجاوز کر گیا ہے اِس کا مطلب ہے کہ عالمی سطح پر ہماری معیشت اعتبار سے محروم ہو رہی ہیں بینکوں نے نئی ایل سی کھولنا تک بند کردی ہیں اور آئی ایم ایف نے حکومتی اخراجات کم نہ کرنے اور ٹیکس اہداف پورے نہ کرنے کی پاداش میں قرض کی نئی قسط بھی روک لی ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی کمی واقع ہورہی اور بیرونی ادائیگیوں میں عدمِ توازن بڑھ رہا ہے اگر فوری قدامات کے طورپر ڈالر کے ساتھ متبادل کے طورپر دیگر کرنسیوں میں تجارت کی جائے اور غیر ضروری اخراجات کم کرنے اور ٹیکس وصولی کی شرح بہتر بنانے پرتوجہ دی جا ئے نیز خوراک میں کھوئی خود کفالت کی منزل دوبارہ حاصل کرلی جائے تو قرضوں میں ڈوبے ملک کو خوشحال بنانا مشکل نہیں مگر شرط یہ ہے کہ بیرونی قرض پر انحصار کی پالیسی ترک اور ہر شعبے میں خود کفالت پر توجہ دی جائے اب اسحاق ڈار کیا معاشی جادوگری دکھاتے ہیں؟ قوم منتظرہے فی الحال توحکومتی ساکھ کی وجہ سے ترسیلاتِ زر میں 9فیصد کمی آچکی ہے اور ملک کو بیرونی سرمایہ کاری اور روپے کی قدرمیں سخت کمی کا سامنا ہے تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے ایسے حالات میں کوئی معاشی جادو گرہی ملک کو معاشی مسائل سے نکال سکتا ہے۔