اب تو یہی بچا ہے

اب تو یہی بچا ہے

فواد چوہدری صاحب کی انصافی طرز کی یقین دہانیوں کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے سے چٹا انکار کر دیا ہے اور تحریک انصاف سمیت سب کو پیغام دیا ہے کہ کر لو جو کرنا ہے ظاہر ہے کہ اب جو کرنا ہے وہ اعلیٰ عدلیہ ہی کرے گی اور کیس کو لاہور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک پہنچتے کچھ وقت تو لگے گا دوسری جانب میرے محترم قائد انقلاب عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی آ گئی ہے اس میں بھی مخالفین کی نظر میں لاکھ خامیاں ہوں گی لیکن خان صاحب نے بھی کہہ دیا ہے کہ کر لو جو کرنا ہے میں تو اسی تفتیش کو مانوں گا جو میری مرضی کی ہو گی۔ الطاف بھائی کی قیادت میں کراچی کا جو حال ہوا تو اس کے بعد ایک بات کہی جاتی تھی کہ الطاف حسین بہت خوش قسمت ہیں کہ انھیں ایسے چاہنے والے ملے ہیں وہ کچھ بھی کرلیں ان پر اعتماد کرتے ہیں اور جو ان کے چاہنے والے ہیں ان سے زیادہ بد قسمت کوئی اور نہیں کہ انھیں الطاف حسین جیسا لیڈر ملا۔ اب یہی بات عمران خان کے فین کلب پر صادق آتی ہے کہ کچھ نازیبا قسم کی مبینہ آڈیوز اور وڈیوز کہ جن کی بازگشت کافی عرصہ سے سننے میں آ رہی تھی اب وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان آڈیوز اور وڈیوز کو ان کا فین کلب تو جعلی کہہ کر دفاع کر رہا ہے لیکن خود خان صاحب نے ان کی تردید نہیں کی بلکہ جنرل باجوہ سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو پلے بوائے کہہ کر ایک طرح سے اب تک آنے والی آڈیوز کی تصدیق ہی کی ہے۔فین کلب کے کچھ لوگ اسے ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں۔ ذاتی معاملہ قرار دینے والے ہمارے بچپن کے ایک دوست بھی ہیں جو وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ان سے جب بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ کیا اس طرح کسی کے ذاتی معاملات کی آڈیوز اور وڈیوز بنانا درست ہے تو ہم نے کہا اس طرح آڈیو وڈیوز بنانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے لیکن ذاتی پخ لگانا بھی درست نہیں۔ جس پر ہمارے دوست نے نا راض ہو کر موضوع بدل دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے کہا کہ تمہارے اس کلائنٹ کا کیا بنا کہ جس کا اپنی بیوی کے ساتھ طلاق کا 
کیس چل رہا ہے تو کہنے لگے کہ یار اسے شبہ ہے کہ اس کی بیوی کے کسی دوسرے مردکے ساتھ تعلقات ہیں اس پر ہم نے کہا کہ لیکن یہ تو اس کی بیوی اور اس مرد کے ذاتی معاملات ہیں اس میں تمہارے کلائنٹ کی ناراضگی کا کیا سوال بنتا ہے۔ ہماری بات پر ایک لمحہ کے لئے تو سٹپٹائے لیکن پھر کھسیانی ہنسی کے ساتھ چپ ہو گئے۔
اکثر ایک بات سننے کو ملتی ہے کہ ہمیں تو آج تک ڈھنگ کا کوئی لیڈر ہی نہیں ملا تو عرض ہے کہ ڈھنگ کا لیڈر اگر کسی فیکٹری میں بن کر تیار ہوجاتا تو محب وطن لابی اب تک بہت سے ڈھنگ کے لیڈر قوم کو دے چکی ہوتی لیکن اب کیا کریں کہ بانی پاکستان کی ایمبولنس بے یارو مددگار ماڑی پور روڈ پر کھڑی رہی اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ قائد ملت کو جلسے میں تقریر کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو ایک متنازع قتل کے مقدمہ میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا کہ جس کا اعتراف اسی بنچ کے ایک رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں کیا کہ ان پر دباؤ تھا۔ اسی بھٹو کی بیٹی جو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں اور ملک کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکی تھیں انھیں بھی راولپنڈی میں بھرے مجمع میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے کو ہم نے بنا کسی جرم کے دس سال جیل کی سزا سنا کر پہلے انھیں جیل میں رکھا اور بعد میں ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیا۔ اب اگر یہ سب کچھ جو کسی اور نے نہیں بلکہ خود ہم نے اپنے ہاتھوں سے کیا ہے اس کے بعد اگر کوئی کہے کہ ہمیں کوئی ڈھنگ کا لیڈر نہیں ملتا تو اب جو بچا ہے اس میں ڈھنگ کے لیڈر ایسے ہی ملیں گے کہ جن کی اس طرح کی نازیبا آڈیوز اور وڈیوز منظر عام پر آئیں گی اور جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق ان کے فین کلب والوں کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ بقول شاعر 
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام 
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
بات صرف ان مبینہ آڈیوز اور وڈیوز کی نہیں بلکہ رونا اس بات کا ہے کہ دوسروں کو ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑنے کا درس دینے والے عمران خان کا اپنا فین کلب سر سے پاؤں تک ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ جنرل باجوہ ہی در حقیقت جمہوریت کے محافظ ہیں تو ان کے فین کلب نے کہا کہ ایسا ہی ہے انھوں نے کہا کہ وہ جمہوریت کے قاتل ہیں تو انھوں نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ کو توسیع دے کر غلطی کی اور چھ ماہ اور تا حیات توسیع کی آفر بھی خان صاحب ہی کرتے ہیں اور تسلیم بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ آفر کی تھی۔2018کے انتخابات سے پہلے کہا کرتے تھے کہ کوئی مجھ سے یہ توقع کیسے کر سکتا ہے کہ میں اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر چلوں گا اور اب حسین حقانی کی امریکہ میں لابنگ کے لئے نامزدگی سے لے کر میاں نواز شریف کی لندن روانگی تک ہر بات اسٹبلشمنٹ پر ڈال کر انتہائی معصومیت سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ خان صاحب دعوے یہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا کہ جہاں پر طاقتور اور کمزور کے لئے الگ الگ قانون ہوں لیکن نہ صرف یہ کہ وہ خود کو بلکہ اپنے اہل خانہ اور جماعت کے لوگوں کو بھی اس اصول سے ماورا کوئی الگ مخلوق سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے احتساب پر یقین رکھتے ہیں لیکن خیبر پختون خوا میں نیب کے قانون کو ہی ختم کر دیااور پنجاب میں فرح گوگی اور دیگر پر در ج جو کیس بنے تھے انھیں عدالت کی بجائے پنجاب اینٹی کرپشن سے ختم کروایا۔ توشہ خانہ پر دوسروں کو زبردست ہدف تنقید بناتے تھے لیکن خود پورے توشہ خانہ کو ہی ہڑپ کر گئے۔سچ کا پرچار کرتے ہیں لیکن زیادہ جھوٹ خود بولتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ چار گولیاں لگیں جبکہ پنجاب فرانزک رپورٹ کہتی ہے کہ تین گولیوں کے ٹکڑے اور ایک دھاتی ٹکڑا لگا اور خان صاحب دو ماہ ہو گئے کہ ٹانگ پر پٹی باندھ کر گھر پر بیٹھے ہیں۔ ان کے دور میں جب نواز لیگ سارے ضمنی الیکشن جیت رہی تھی تو وہ عوام کا مینڈیٹ نہیں تھا لیکن اب اگر خود ضمنی الیکشن جیت رہے ہیں تو قبل از وقت الیکشن کرانا از حد ضروری ہے لہٰذا جن لوگوں نے سیاستدانوں کی اہلیت پر تنقید کرنا فیشن بنا رکھا ہے ان سے عرض ہے کہ اب تو مارکیٹ میں یہی مال بچا ہے اور خان صاحب کے فین کلب والے کتنے خوش قسمت ہیں کہ جو ہے جہاں ہے اور خان صاحب جیسے بھی ہیں وہ ان سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ ستم دیکھیں کہ وہ دوسروں کو بھی فین کلب کا رکن بننے کی دعوت دیتے ہیں۔