اوورسیز پاکستانی اور حکومت

اوورسیز پاکستانی اور حکومت

ملک ندیم سے میری ملاقات تقریباً 20برس بعد ہوئی ہے۔ وہ 2000 میں ترقی اور خوشحالی کے خواب لے کر برطانیہ چلا گیا تھا۔ وہاں عام پاکستانیوں کی طرح شروع میں ہر طرح کا کام کیا۔ سخت محنت اور لگن ہو تو انسان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس نے وہاں پر کمیپوٹر کی تعلیم حاصل کی۔ بطور سافٹ ویئر انجینئر ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا آج ایک بڑی کمپنی میں بڑے عہدے پر فائز ہے۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر رابطہ بحال ہوا۔ اس بار پاکستان آیا تو ملاقات کے لیے گھر آیا۔ بالوں میں چاندی اتر آئی ہے۔ ماتھے کی دونوں اطراف سے بال اُڑ چکے ہیں۔ لیکن نظر کی ذرا بڑے فریم کی عینک لگانے سے سنجیدہ شخصیت لگنے لگا ہے۔ ندیم میرا گورنمنٹ کالج کا دوست ہے۔ ہم دونوں کے سبجیکٹ الگ تھے۔ یہ ذرا پڑھاکو ٹائپ تھا لیکن بلا کا ہنس مکھ۔ اسی لیے دوستی ہو گئی۔ اس بار ملنے آیا تو وہ یار باش ندیم کہیں کھو چکا تھا۔ سنجیدہ اور دکھی لگ رہا تھا۔ میرے اصرار پر بتایا کہ پچھلے بیس برس کی سخت محنت کے بعد یہ مقام حاصل کیا۔ ان برسوں میں صرف ایک ہی خواب تھا کہ اپنے وطن جا کر بسنا ہے۔ ایک دن اپنے بچوں کو میں واپس لے کر جاؤں گا۔ اس لیے والدین اور بھائیوں کی مدد کے علاوہ رقم پس انداز کر کے آہستہ آہستہ جہلم میں کچھ زرعی اور شہری جائیداد خریدتا رہا۔ اس کے انتظامات میرے سب سے بڑے بھائی کے پاس تھے۔ اس بار کرونا کی لمبی چھٹیوں پر میں نے کوشش کی یہاں ایک فارم ہاؤس اور شہری پراپرٹی پر ایک پلازہ تعمیر کیا جائے۔ لیکن یہاں آ کر مجھے معلوم ہوا کہ میں نے جنہیں رکھوالا بنایا تھا وہ میری ہی جائیداد پر قابض ہو چکے ہیں۔ میرے مطالبے پر بھائی نے کہا کہ بھتیجے بھی تمہاری اولاد ہیں۔ ان کا بھی تمہاری جائیداد پر حق ہے۔ تمہارے پاس پیسے ہیں اور بنا لینا۔ میں تنہا ان سے جھگڑا مول نہیں لے سکتا۔ عدالتی و قانونی کارروائیوں کا میرے پاس وقت نہیں ہے۔ وزیر اعظم شکایت پورٹل پر شکایت کیے 4 مہینے ہو گئے ہیں لیکن مسئلہ جوں کا تو ں ہے۔ یہ سب بتاتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ میرے پاس اسے تسلی دینے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ یہ صرف ندیم کا مسئلہ نہیں بلکہ لاکھوں اوورسیز اپنے رشتہ داروں اور 
فراڈ رئیل سٹیٹ مافیا کے ہاتھوں اپنے زندگی بھر کی پونجی لٹا چکے ہیں۔ اپنی زندگی کا بہترین وقت دیار غیر میں محنت مشقت میں گزار کر پاکستان میں ایک چھوٹا سا گھر اور محفوظ مستقبل کی خواہش کس قدر غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ 13 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جو حکومت پاکستان کے رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک گئے ہیں۔ دیگر طریقوں سے باہر گئے افراد کا اس میں شمار نہیں کیا گیا۔ ان افراد میں میں ایک بڑی تعداد ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہے جو پاکستان میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے باہر چلے جاتے ہیں۔ اسے ’برین ڈرین‘ کہتے ہیں۔ اگر انہیں پاکستان میں مناسب مواقع دستیاب ہوں تو ان کی قابلیت سے پاکستان بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پر افسوس، ہمارا ملک اور اسے چلانے والے ان نوجوانوں کی ذرا بھر بھی قدر نہیں کرتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کو ان کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک کی جگہ سیکڑوں نئے پاکستانی لے لیتے ہیں۔ پاکستان کو تو ان کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا لیکن انہیں پاکستان رہنے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ انہیں گھر بنانا ہے، ماں باپ کو حج کرانا ہے، بہن بھائیوں کی یونیورسٹیوں کی فیسیں بھرنی ہیں اور ان کی شادیاں بھی کرنی ہیں۔ یہ سب کام ایک عام آدمی پاکستان میں رہتے ہوئے نہیں کر سکتا۔ اوورسیز پاکستانی اپنے ملک کی ایسی انڈسٹری ہے جن پر حکومت کا کچھ خرچ میں آتا۔ ان کے جائز مسائل کے حل کے لیے حکومت کو فی الفور توجہ دینا ہو گی۔ ان کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ اوورسیز پاکستانیوں نے مصیبت کی ہر گھڑی میں ہم وطنوں کا ساتھ دیا ہے۔ رواں برس 22-2021 میں اب تک اوورسیز پاکستانی 30 اب ڈالر سے زائد زرمبادلہ پاکستان بھیج چکے ہیں۔ یہ پاکستان کی اسی برس 15 ارب ڈالر برآمدات سے دوگنی رقم ہے۔ لیکن ان غریب الوطن لوگوں کو رہائشی کالونیوں میں جو پلاٹ دئیے جاتے ہیں اور اس پلاٹ کے ساتھ جو حال ہوتا ہے۔ ہر داستان دل چیر دینے والی ہے۔ قیمت سب سے قیمتی پلاٹ کی لی جاتی ہے اور دیا ارزاں جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو ہائی وولٹیج لائنوں والا پلاٹ الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ غریب الوطن بندہ سوائے کوسنے کے اور کیا کر سکتا ہے؟ اور ان کے پلاٹوں پر قبضے ہونا اک عام سی بات ہے۔ پٹواری، تحصیلدار اور عدالتوں کے چکر لگاتے اوورسیز پاکستانی کس قدر اذیت و کرب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ وہی جانتے ہیں جن پر بیتی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف سمیت ساری جماعتیں دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو سبز باغ دکھا کر خوب چندہ لیتی ہیں لیکن ان کے لیے قانون سازی کرنا اور انہیں سہولیات دینا اک ایسا خواب ہے جس کی کوئی عملی تعبیر نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم عمران خان ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی ہمارا سرمایہ ہیں ہم ان کو پاکستان میں سازگار ماحول اور جان و مال کا تحفظ دیں گے تاکہ وہ پاکستان میں بلاخوف و خطر سرمایہ کاری کریں۔ جناب وزیر اعظم صاحب عملی طور پر ایسا نہیں ہو رہا۔ اوور سیز پاکستانیوں کو بہتر اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ صرف قانون سازی نہیں بلکہ عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ کچھ عرصہ قبل وزیر قانون فروغ نسیم سے ایک فلائٹ میں ملاقات ہوئی تو میں نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے چند تجاویز دیں۔ سب سے پہلے ایئرپورٹس پر اوورسیز ڈیسک بنائے جائیں۔ جہاں یہ وطن پہنچتے ہی اپنی شکایت درج کرائیں اور اس پر پراسیس شروع ہو جائے۔ اس ڈیسک کو ایس پی لیول کا بندہ ہیڈ کرے۔ دوسرا اوور سیز پاکستانیوں کے لیے سپیشل کورٹس بنائی جائیں جو انہیں فوری انصاف دیں۔ ہر کیس چھ ماہ میں نمٹانا ضروری قرار دیا جائے۔ تیسرا جس پر حکومت اب کوشش کر رہی ہے وہ ہے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ووٹ کا حق۔ لیکن ووٹ کا یہ حق پورے پاکستان کے حلقوں پر پھیلانے کے بجائے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے نمائندے منتخب کیے جائیں۔ جو پارلیمان میں اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ ان کی مؤثر آواز بن سکیں۔ اگر حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو سیاسی حقوق کے ساتھ معاشی حقوق کے تحفظ کا یقین دلانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر ہمیں آئی ایم ایف یا دیگر ملکوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

مصنف کے بارے میں