تجارت یا سیاست

تجارت یا سیاست

پاکستان کے موجودہ حالات سب کے سامنے ہیں اور ایسے میں بین الاقوامی امداد موصول ہو رہی ہے جس سے فوری طور پر چیلنج سے نمٹنے میں بے حد مدد مل رہی ہے. لیکن کیا 10 بلین ڈالر کی رقم قدرتی آفت سے آنے والی تباہ کاریاں ٹھیک کر سکے گی؟ بے شک اس سے انفراسٹرکچر کی بحالی ممکن نہیں۔ پاکستان کی نصف سے زیادہ فصل بہہ چکی ہے، اور غذائی قلت کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے۔
ایسے میں پاکستان نے افغانستان اور ایران سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کو چار ماہ کے لیے سیلز اور ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ تاہم، ابتدائی غور و خوض کے بعد، وفاقی حکومت نے بھارت سے ایسی اشیاء کی درآمد کا فیصلہ موخر کر دیا۔ موسلا دھار بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کی پہلے سے بیمار معیشت پر اضافی دباؤ ڈالا ہے، اور حکومت نے ابھی تک اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا منصوبہ ظاہر نہیں کیا ہے۔
بظاہر سیلاب نے پاکستان کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کو ٹھیک کرنے میں بہت وقت درکار ہے جن کے گھر بہہ گئے انہوں نے دوبارہ سے اپنے مکانات کو تعمیر کرنا ہے، جن کے پیارے پانی میں بہہ کر سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ان کی زندگیوں کا ازالہ بھی ممکن نہیں، جو حیات ہیں وہ کن حالات میں گزر بسر کر رہے ہیں یہ بیان کرنے کے لیے الفاظ کم ہیں۔ مگر کیا ریاستی پالیسی، ادارہ جاتی عمل معاشرے کی مجموعی ذہنیت یہاں تک کہ اس پریشان کن سیلاب زدہ حالت میں جس قسم کی سیاست کا مظاہرہ کیا گیا ان تمام معاملات پر ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔ بیرونی امداد کے بغیر اس آفت سے نمٹناممکن نہیں لیکن ذمہ دار اداروں کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ بے شک بہت دیر ہوچکی ہے اور پانی سر سے اوپر گزر چکا ہے لیکن آج نہیں توکب؟
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی سست روی کی وجہ سے بھی مسائل بڑھے، کہنے کو کم راحت اور زیادہ نقصان دیا ہے موجودہ حالات کو مد نظر رکھا جائے۔ انٹرنیشنل نان گورنمنٹل آرگنائزیشن INGOs جولائی سے متاثرہ علاقوں تک رسائی کے لیے کہہ رہی تھیں مگر NDMA ان کی مدد اور سہولت فراہم کرنے میں تاخیر کا مرتکب ہوا۔ لیکن یہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں ہی تھا کہ 15 INGOs کو بحران سے نمٹنے میں حکام کی مدد کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ صرف مغرب کی این جی اوز کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ چین کے لوگوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب وہ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتے تھے۔
ایک معاملہ بھارت سے سبزیوں کی درآمد کا بھی ہے جو سیاست کی نذر ہونے کی امید پر تا حال لٹکا ہوا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سوشل میڈیا پر اپنی ٹویٹس میں یہ بتایا ہے کہ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں سے درخواست ہے کہ انھیں بھارت سے امدادی اشیاء کو زمینی راستے کے ذریعے لانے کی اجازت دی جائے تاکہ متاثرہ افراد تک امداد فوری طور پر پہنچائی جا سکے۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا دکھائی دیتا ہے کیونکہ حکومت میں امدادی اداروں کو یہ ریلیف دینے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ایسے میں اگر کوئی پالیسی تشکیل دے دی جائے تو وہ پہلو جو ریلیف میں رخنہ ڈال رہا ہے، حل ہو سکتا ہے۔
ایسے میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ جب کبھی بھی وفاقی حکومت بھارت سے درآمد کا خیال پیش کرتی ہے تو سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اس بات کو متنازعہ بنا دیتی ہے جس عمل تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نے بھی نجی شعبے کو بھارت سے صفر اعشاریہ پانچ ملین ٹن سفید چینی کے ساتھ ساتھ کپاس اور دھاگے کی درآمد کی اجازت بھی دی تھی جب وہ اقتدار میں تھی اور اس عمل سے کاروباری اشرافیہ کو فائدہ بھی ہوا تھا۔ اگر پاکستان بھارت سے سبزیاں درآمد کرتا ہے تو عام آدمی کو بہت ریلیف مل سکتا ہے۔ اور اس وقت سوال زندگی اور موت کا ہے۔
لوگ ریلیف کے مستحق ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی سبزیوں کی آسمان چھوتی قیمتوں سمیت مہنگائی کے دباؤ میں ہی تقریبا 40 فیصد خوراک ضائع ہو جاتی ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی اور ذخیرہ اندوزی کی ناکافی صلاحیت اور زرعی شعبے میں مڈل مینوں کی ہیرا پھیری اس کی ذمہ دار ہے۔ حکومت اور صنعتی شعبے کو ایسی کمیوں کو دور کرنے پر توجہ دینا ہوگی اور اس وقت تک پاکستان کو سستی سبزیوں، پھلوں اور اناج کے لیے اپنی منڈیاں کھولنا ہوں گی۔
پاکستان کی افواج قابل تحسین ہیں کیونکہ وہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کی سرحدوں کی محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات ہو، زلزلہ سیلاب یا کوئی اور مصیبت لوگوں کی مدد کو ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے دنیا کو یقین دلایا ہیں کہ پاکستان اب اپنی توجہ اقتصادیات پر مرکوز کر چکا ہے یعنی جیوسٹریٹجک سے جیو اکنامکس کی طرف کا سفر جاری و ساری ہے ریاستی اداروں کو اس شفٹ کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا جس میں آپسی لڑائی اس عمل کو متاثر نہ کر سکے۔
پاک بھارت تجارت کے فوائد اور نقصانات کی بحث کی دہائیوں سے جاری ہے لیکن اگر بات اکنامکس کی آ جائے تو پھر اولین ترجیح اسی کو دینی چاہیے مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔ تلخ حقائق اپنی جگہ موجود ہیں، اندرونی سیاسی مسائل ترقی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہیں۔ بھارت میں حکمران جماعت مسلمانوں کے خلاف نفرت کا کاروبار کرتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی قیادت کو کچھ فیصلے کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان بھارت سے درآمدات پر ٹیکس اور ڈیوٹی ہٹا دے اگر تو نئی دہلی کیلئے پاکستان کو درآمدات پر 200 فیصد ڈیوٹی ختم کرنا ایک امتحان ہوگا۔
حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت بھارت بھی پاکستان کا ساتھ دے کیونکہ ماحولیاتی تباہی یا قدرتی آفت کاروبار اور زندگی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔ یہ وقت کسی پر بھی کبھی بھی آ سکتا ہے اور ایسے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے ہیں ان آفات سے نکالا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک بین الاقوامی فورم پر ایک دوسرے کے تحفظات اور مشترکہ مفادات کے لیے بھی آپس میں تعاون کرتے ہیں یہاں تک کہ چند ہفتے قبل پاکستان نے بھارت، کیوبا اور 44 افریقی ممالک کے ساتھ مل کر ڈبلیو ٹی او فورم میں ایک قرارداد پیش کی تھی تا کہ ترقی پذیر ممالک کیلئے کرونا کی وبا سے لڑنے کے لیے مزید معاونت لی جا سکے۔یہ بات غور طلب ہے کہ ہمیشہ کی جنگ سے حاصل کچھ نہیں ہوتا سوال یہ ہے کہ کس قسم کی میراث ہم چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں