سکہ کی انسان پر حکومت

سکہ کی انسان پر حکومت

پہلے ہر گائوں، ہر قصبے اور شہر میں اللہ کے ایسے بندے ہوتے تھے جن سے دل کی پیاس بجھتی تھی جس طرح زبان کی ایک پیاس ہوتی ہے اسی طرح دل کی بھی ایک پیاس ہوتی ہے۔زبان کی پیاس پانی ،شربت،یا سوڈے سے بجھتی ہے مگر دل کی پیاس سچی اور پاک محبت کی باتوں اور محبوب حقیقی تذکرے سے بجھتی ہے،وہ روپیہ،دولت اور نفس کی خواہشات کے ذکر سے بھڑکتی ہے،آج ہر چیز کی دکانیں ہیں ،منڈیاں ہیں،بازار ہیں،لیکن دل اور روح کی غذا نایاب ہوچُکی ہے۔
سکہ،روپیہ پیسہ تو انسان کی ایجاد ہے اس کی قیمت تو صرف یہی ہے کہ انسان سے کام لے،مگر انسان نے سکہ،روپے پیسے کو بے جا اہمیت دے کر اسقدر جان ڈال دی کہ خود کو روپے پیسے کے آگے بے جان کرکے اپنی اہمیت کھو دی ہے آج انسان سے زیادہ روپے پیسے کی قدر ہے کیونکہ اس وقت انسان کی انسان سے دو ہی بڑی لڑائیاں ہورہی ہیںایک عہدے اور اقتدار کے لیے ،عہدے اور اقتدار کو حاصل کرنے کے بعد کوٹھیوں،اور مال و دولت کو اپنے اوپر حکمران بنا لیا ہے۔
جیسا کہ آپ سب بھی جانتے ہیںکہ ہر جمہوری دور میں یہی سُننے کو ملا کہ ملک مشکل میں ہے اور اُس کو چلانے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔میں قارئین کو بتاتی چلوں کہ ہمارے بہت سے اداروں کو چلانے اور تنخواہوں کو دینے کے لیے بہت بار قرض لینا پڑا جس کا بوجھ مہنگائی کی صورت میں آخر عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے مگر ایوانوں اور اقتدار کی کرسیوں پہ براجمان کبھی اپنی شاہ خرچیوں کو کنٹرول نہ کر سکے۔اور میں یہ بھی یاد کرانا چاہتی ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان اس کشکول کو توڑنے آئے تھے مگر سب اُلٹ ہوا سب سے زیادہ کشکول خان صاحب نے ہی آئی ایم ایف کے آگے پھیلایا۔
کچھ دنوں سے بہت سے تجزیہ کاروں کی آرا سُنی تو مجھے بے انتہا حیرت ہوئی کیونکہ بقول اُن کے اب ملکی معیشت درست سمت کی طرف جا رہی ہے،مگر یہ تو اُن کی سوچ ہے ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق اپنے رائے دے سکتا ہے۔ میں اس بات سے متفق نہیں جو حکومتی اعلانات ہیں میں اُن سکیموں پہ کچھ روشنی ڈالنا چاہتی ہوں کیونکہ اُن سکیموں سے ملک،عوام اور معیشت کا ایک ٹکا فائدہ نہیں ہوگا۔
وزیر اعظم کے اعلانات ،عوامی ریلیف اعلان اور صنعت و تجارت کے فروغ کے لیے ایمنسٹی سکیم کا بھی کہا گیا۔ کیا یہ ایمنسٹی سکیم صنعتوں کو فروغ دے سکتی ہے؟ پہلی بات اس ایمنسٹی سکیم کا مشورہ وزیر اعظم کو کسی کم علم رکھنے والے نے ہی دیا ہوگا کوئی انڈسٹری چلانے والا تو ایسا بے ڈھنگا مشورہ کبھی نہیں دے سکتا اُس مشورہ دینے والے اور وزیر اعظم سمیت یہ ہی نہیں جانتے کہ ہماری صنعتکاری کو کیسے فروغ کیسے دیا جا سکتا ہے اور بنیادی طور پہ( basically) ہماری صنعتکاری کے اصل مسائل کیا ہیں۔مگر میں ماضی کو یاد دلانا چاہوں، شاید آپ میں سے کسی کو یاد ہو کہ جب پچھلی (ن) لیگ کی گورنمنٹ تھی اُس میں بھی اسی ایمنسٹی سکیم کو متعارف کرایا تھا جس کا رزلٹ تو نکلا مگر صرف وہی لوگ بھرپور اُٹھا سکے جنہوں نے اپنی بلیک منی کو وائٹ میں بدلنا تھا۔
اصل اس سکیم کا نقصان صحیح طور سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہے،یہ سکیم ملک سے سرمائے کے فرار کو روکنے کے لیے بھی لازمی ہوتی ہے کہ ٹیکس میں چھوٹ اور مراعات اور اس کے مراعات اور اس کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہو اور دولت کو ملک میں ہی رکھا جا سکے۔ گزشتہ تیس، چالیس سال سے ایسی سکیمیں آرہی ہیںجس کا ایک ٹکا بھی ملک کو فائدہ نہ ہوا ،ہاں اگر فائدہ ہوا تو صرف خاص لوگوں اور ایک خاص طبقے کو جو وزیر اعظم کے رائٹ،لیفٹ رہتے ہوں۔
اگر بات کریں انڈسٹری کی کہ کیوں پاکستان میں ہماری انڈسٹری اور ملکی معیشت بہتری کی طرف نہیں جا رہی تو اُس کی بنیادی وجہ صنعتی شعبے پر بہت زیادہ ٹیکسوں کا لاگو ہونا اس شعبے کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔کیونکہ پاکستان میں ٹیکسوں کی ادائیگی اب بھی ٹھیک طریقے سے ادا نہیں ہو رہی جس کا نقصان پوری ملکی معیشت پر اور عام عوام پہ بوجھ پڑتا ہے۔
 ایک نظر ڈالیںحالیہ جو انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2022کیا کہتا ہے؟آرڈیننس کی مد سے انکم ٹیکس آرڈیننس کی مدد سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2021کے سیکشن 59سی،65سی ایچ،اور100ایف کا اضافہ کیا گیا۔اس کے مطابق صنعتوں کے قیام کے لیے ظاہر کردہ اثاثوں پر سرمایہ کاروں کو صرف پانچ فیصد مقررہ ٹیکس دینا ہوگا ،ظاہر کردہ فنڈز صرف پلانٹ و مشینری خریدنے اور انڈسٹری کے قیام کے لیے استعمال ہو سکیں گے۔ اب اس آرڈیننس کے تحت ایک لمحے کے لیے مان لیا کہ حکومت کی صنعتکاری کو فروغ دینے کے لیے یہ ایک بہترین کاوش ہے اب یہاں رُک کے سوچئے! وہ خاص طبقہ اور صنعتکار جو ہر دور میں اقتدار میںاہم عہدے لے کر قوم کا پیسہ پہلے لوٹتے ہیں اور پھر وہ احتساب سے بچنے کے لیے ان سکیموں سے فائدہ اُٹھا کر ایک آدھ مزید انڈسٹری لگاتے ہیں اور اس چیز کا بھی موازنہ کیا جائے کہ انڈسڑیز بھی اُسی خاص طبقوں کی رہ گئی ہیں اور عام پاکستانیوں کا تو دور، دور سے تعلق نہیں نہ ایمنسٹی سکیم سے فائدہ لینے کا اور نہ ہی وہ کوئی نئی انڈسٹری لگا نے کی بساط رکھتے ہیں عام آدمی تو کولہو کے بیل کی مانند بن کے رہ چُکا ہے۔
اس آرڈیننس میں یہ بھی کہا ہے کہ تحقیقاتی ادارے ایف بی آر سے ایسے افراد جو اس میں اپنے اثاثے ظاہر کریں ان کے بارے معلومات نہیں لے سکیں گے ۔اس آرڈیننس کی گہرائی میں جایا جائے تو اس سے اقتدار میں رہ کر ملک کی دولت لوٹنے والوں کو پوری طر ح اُن کو اور اُن کی دولت کو محفوظ کر دیا تاکہ اُن کا احتساب نہ کیا جا سکے۔ اور آپ دیکھیں گے کہ اس اقتدار کے بعد بہت سے ایسے لوگ جن کی گاڑی خریدنے کی حیثیت نہ تھی وہ لوگ اس اقتدار کے بعد بڑی بڑی ملوں کے مالک نظر آئیں گے۔
ایک مزید اہم بات جو کہ اس کالم کی وساطت سے کہنا چاہوں گی کہ ہم ہر جمہوری دور میں انہی سیاستدانوں کو سنتے ہیں جو کہ الفاظوں کو بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔الفاظوں کو بدل کر ہر بار آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں مگر اپنی خو نہیں بدلتے ،بہت سے ممالک ایسے ہیں جو کہ اپنے ملک کے موجودہ وسائل کا موازنہ کرکے اُن سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اپنے ممالک کو احسن طریقے سے چلاتے ہیں۔ہم بھی ہمیشہ کے لیے آئی ایم ایف سے نجات حاصل کر سکتے ہیں سب میری اس بات کو پڑھ کے حیران بھی ہونگے،میں چند ایک باتیں ہی اس کالم میں بتا سکوں گی، مملکت خداداد نے پاکستان کو ہر قسم کی قدرتی  نعمتوںسے مالا مال کیا ہے مگر بدقسمتی سے نظام و وسائل پر قابض اشرافیہ کے طرز عمل نے آج تک کبھی اُن نعمتوں کو بروئے کار لانا تو درکنار بلکہ ایک خاص پلاننگ کے تحت اُس طرف کبھی توجہ ہی نہیں جانے دی۔ہم اب بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں ہم ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں ۔بلوچستان جو کہ معدنیات کی سر زمین ہے آئے روز وہاں دہشت گردی کے مناظر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں وہاں پہ دہشت گردی پھیلانے اور ملکی معاملات کو اُلجھانے کے لیے انڈیا بھاری رقم خرچ کرتا چلا آرہا ہے۔سیاستدانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینا پڑیں گے بلوچستان جیسی سر زمین جو کہ سونے کی چڑیا ہے ،ہم اپنے ہی ملک کی ان معدنیات کو استعمال کر کے ملک کو صحیح سمت کی طرف لا سکتے ہیں مگر ہمیں تو پروجیکٹ ہر جمہوری دور میں وہی لے کر آنے ہیں جس میں ان سیاستدانوں اور 72خاندانوں کا ہی بھلا ہو نہ کہ عوام اور ملکی معیشت کو تقویت مل سکے۔ جب تک یہ 72 خاندان ایوانوں میں رہیں گے تب تک تو یہ ممکن نہیں دکھائی دے رہا کہ ہم اپنی معدنیات سے کبھی فائدہ اُٹھاسکیں گے۔ جب تک پڑھا لکھا اور عام آدمی ایوانوں تک نہیں پہنچے گا تب تک اس ملک کا بھلا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔جب تک یہی لوگ اقتدار پہ قابض رہیں گے تب تک اسی قسم کی سکیمیں آتی رہیں اور اسی طرح ملک کا دیوالیہ ہوتا رہے کا۔کیونکہ یہ لوگ اتنے لالچی اور ہوس پرست ہو چُکے ہیں کہ ان پہ سکہ حکومت کر رہا ہے۔

مصنف کے بارے میں