مشرق و مغرب کا رب

مشرق و مغرب کا رب

مجھے اچھی طرح یا د ہے افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ ”اگر جنگ ہار گئے تو پاکستان ہار جائے گا“۔رضا ربانی نے آبدیدہ ہو کر اپنے ضمیر کے خلاف فوجی عدالتوں کیلئے ووٹ دیا تھا حالانکہ اُن کے ضمیر نے انہیں اُس وقت لعن طعن کیوں نہیں کیا تھا جب محترمہ بے نظیر بھٹوشہید نے مشرف مرحوم سے این۔آر۔ا و لیا تھا۔مولانا فضل الرحمان بھی اکیسویں ترمیم بنانے کے ”گناہ“ میں شامل نہیں ہوئے تھے، جماعت اسلامی کے سابق امیر دہشتگردی کو مذہب سے جوڑنا مغربی ایجنڈا قرار دے چکے تھے۔اُن سے پوچھا جا سکتا تھا کہ کل تک روس کے خلاف جنگ کاحکم کون سا الہامی تھا؟وہ تو سرمایہ داری کا ایجنڈا تھا جس میں سعودی ریال سے لے کر اسرائیلی شیکل تک سب کچھ ہڑپ کر لیا گیا اور بچی کھچی جنگ اپنے منہ زور پسماندہ جہادیوں سمیت عام پاکستانیوں کے حصے میں آئی۔۔عمران خان پاکستان میں طالبان کا ترجمان ہے اور اِس بارے کوئی دوسری رائے نہیں بلکہ وہ تو ماضی میں خود کش حملوں کے دوران طالبان کا دفتر پاکستان میں کھولنے کا سب سے بڑا سفارشی اور حمایتی تھا گو اُس نے اپنی وزارتِ عظمیٰ میں خیبر پختون خوا حکومت غیر اعلانیہ دہشتگردوں کے سپرد ہی کر رکھی تھی۔ موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہبازشریف نے تو طالبان سے پنجاب میں خود کش حملے نہ کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ اُس وقت وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ایسی لاتعداد حقیقتیں دہشتگردی کی جنگ کے حوالے سے ہمارے ماضی قریب سے جڑی ہوئی ہیں۔
دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں جیت ہمار ا مقدر ہے کہ ہم نے اس کو لڑنے نہیں جیتنے کا عہد کیا ہے۔ہمیں اس جنگ کو جیتنے کیلئے انہیں قدموں واپس لوٹنا ہوگا جہا ں سے ہم نے اس عقلی جنگ کو شروع کرنے کے اقدامات کیے تھے۔ ہمیں وہ تمام نشان مٹانا ہوں گے جو افغانستا ن کی جنگ کے دوران ہم نے سرمایہ داری کی فتح کے بعد ویسے ہی چھوڑدئیے تھے اورخیال کیا تھا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے لیکن جنگ ختم نہیں ہوئی تھی ابھی سلگ رہی تھی ختم تو صرف اُن جرنیلوں کو کیا گیا تھا جن کے سینے میں سرد جنگ کے خاتمے کا ایک ایک راز تھا۔ہم نے امریکہ کی سرد جنگ ختم کرنے کیلئے روس کے ٹکرے کرائے اور ہمیں امریکہ نے اُس کے بدلے میں دی ایک گرم ترین جنگ ٗ جس نے پاکستان کے گلی کوچوں اور سکولوں کے بچوں تک کو لہو میں نہلا دیا۔بچے یتیم ٗاور بااولاد بے اولاد ہو گئے ٗ سہاگنیں بیوہ اور شادی شدہ رنڈوے ہو گئے ٗ املاک تباہ ہوئیں ٗ افواج پاکستان کی تنصیبات پر دہشتگردوں کے کامیاب حملوں نے افواج پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔اس یک طرفہ جنگ میں ہم نے پاکستان کے قیمتی ترین سیاستدان ٗبہادر جرنیل ٗغیور عوام اور معصوم بچے سب کچھ کھویالیکن دہشتگردوں کے خلاف کوئی متحدہ آواز ٗکوئی طاقتورہاتھ انہیں کچلنے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن یک لخت سانحہ پشاور نے سب کچھ بدل کررکھ دیا۔اُس وقت ایک طرف پاکستانی عوام اوردوسری طرف دہشت گرد اور اُن کے ساتھی تھے ٗ جومختلف حیلے بہانوں سے اس جنگ میں شریک نہ ہونے کیلئے دہشت گردوں کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش رہے ہیں۔ آج ہم تاریخ کے اُس موڑ پر آپہنچ چکے ہیں جہاں ہم نے آخری فیصلہ لے لینا ہے کہ ہم نے یا تو پاکستان کو حقیقی پاکستان بنانا ہے یا پھر اسے دہشتگردوں کے حوالے کرنا ہے۔مہذب شہری اپنی فوج پر انحصار کرتے ہیں اور آج اگر فوج اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اُس کے رستے میں روڑ ے اٹکائے جا رہے ہیں جس کا دوسرا مطلب صاف اور سادہ ہے کہ ایسا کرنے والوں کے بیانات کے ذریعے اُن کی خواہشات عوام کے سامنے آ رہی ہیں۔
صر ف 1717 کی ہیلپ لائن بنا دینے اور آئینی ترمیم کرنے سے جنگ نہیں جیتی گئی اور سانحہ پشاور کے بڑے سانحہ نے ایک بار پھر پاکستان کے درو دیوار ہلا کر رکھ دیئے ہیں۔اس طویل اور درد ناک دہشتگردی کی جنگ نے ہماری معیشت سے لے کر اخلاقیات تک سب بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ختم نہ ہوتی ہوئی اس جنگ کو  جیتنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اُس حمایت کو ختم کرنا ہو گا جو ہمارے سماج کے اندر سے انہیں میسر آ رہی ہے اور یہ اُتنی دیر تک ممکن نہیں ہے جب تک دہشتگردوں کے خلاف نفرت اور دہشتگردی کو بطور لعنت پاکستانی بچوں کے نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا ٗ اس میں بچوں کو دہشتگردوں کا حلیہ ٗ اُن کا طریقہ کار ٗلوگوں کو پھانسنے کے طریقے ٗ بچوں کو ایک نظر نہ آنے والی جنت دکھانے کے مقاصداور طریقہ ٗ دہشتگردوں کی حمایت کرنے والوں کے سوالات اور مذہبی ہتھکنڈے سب کچھ اپنے بچوں کو بتانا ہوگا اگر ڈینگی کو نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا تھا تو پھر دہشتگردی کے خاتمے کو تو بہت پہلے ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن شاید ہم نے فوجی عدالتیں بنا کرٗ آرمی ایکٹ اورآئین میں ترمیم کرنے کو کافی سمجھا ہے لیکن یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ثابت ہوا ہے۔ اب ہمیں نظر آنے اور نظر نہ آنے والے دشمنوں کے خلاف بہت کچھ کرنا ہو گا۔ 5 جولائی 1977 ء کے بعد بننے والے پاکستانیوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو چیک کرلینا انتہائی مفید ہو گا۔موٹروے ٗ جی ٹی روڈ ٗملتا ن روڈاور سپر ہائی وے پر چوکیاں بنانا ہوں گی تاکہ ان رستوں سے باآسانی پاکستان کے اہم مقامات پر پہنچنے والوں کو چیک کیا جا سکے۔ پاکستان کے تمام تھانوں کی حدود میں دہشتگردی کے خلاف عوامی کمیٹیاں بنائی جانی چاہئیں اور وہ اتنی با اختیار ہونی چاہیں کہ اُن کی ایک شکایت پر ایس۔ایچ۔ا وتک فوری تبدیل کردیا جائے۔ان کمیٹیوں کیلئے محب وطن ٗ بہادر اور ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے جو صرف پاکستان بچانا چاہتے ہوں جن کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہ ہو۔اور اگر ہو سکے تو فوری طور پر پاکستانی نوجوانوں کیلئے فوجی تربیت لازم قراردی جائے کہ یہ جنگ اور امن دونوں حالتوں میں فائدہ مند ہے۔
میڈیا کی آزادی ٗ  آزاد پاکستان کے ساتھ جڑی ہے ہمیں میڈیا پر چیک رکھنے کیلئے ایک سیل بنانا ہو گا جو الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر گہری نظر رکھے اور دہشت گردی کی حمایت میں بولنے اور لکھنے والی آوا ز کو پس ِ زندان ڈالا دیا جائے کہ دہشت گردی کی حمایت پاکستان اور افواج ِ پاکستان کی مخالفت ہے اور حالت جنگ میں دشمنوں کی مدد کرنے والے لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوتے۔پاکستان حالت ِجنگ میں ہے اور پاکستان کے وہ سیاستدان جو عرصہ دراز سے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ٗ جو نسل در نسل پاکستان کے قومی حزانے پر پل رہے ہیں ٗ آج جب قربانی دینے کی باری آئی ہے تو ایک بار پھر پاکستانی عوام کی طرف دیکھ رہے ہیں اور خود اس جنگ اوراس کے نتیجہ میں بُری معیشت کا حصہ بننے سے مسلسل انکاری ہیں۔اب اس کیلئے لازمی نہیں کہ آپکا انکار صاف اور شفاف ہو ٗ پس و پیش بھی انکار کی ہی ایک قسم ہے اور جب کوئی قوم حالت ِ جنگ میں ہو تو اُس کے اہلِ عقل اوربہادر اگر سوچ میں پڑ جائیں تو اسے انکار ہی سمجھا جاتا ہے۔ایسے انکاری ”سورماؤں“ پر کڑی نظر رکھنا ہو گی کہ کمزور آدمی کا کوئی وطن نہیں ہوتا ٗ کوئی مذہب نہیں ہوتا ٗ کوئی انا نہیں ہوتی اور کوئی بیوی بچے نہیں ہوتے ٗ طاقتور اِن کی آنکھوں کے سامنے ان سے سب کچھ چھین لیتے ہیں اوریہ ہنسی خوشی غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر طاقتور کی غلامی قبول کرلیتے ہیں سو یہ سب آستین کے سانپ ہیں۔ہمیں اپنے دوستوں اوردشمنوں کے درمیان سماجی بنیادوں پر بھی ایک لائن کھینچنا ہو گی کہ دنیا کی کوئی  جنگ دوست اوردشمن میں تمیز کی بغیر تو لڑی ہی نہیں جا سکتی چہ جائیکہ ہم اُس کوجلد جیتنے کی امید کریں۔
سوشل میڈیا کے تمام ذرائع کی فلٹریشن لازمی ہونی چاہیے اور ایسے اکاونٹ پر نہ صرف نظررکھی جائے جو دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں بلکہ انہیں گرفتارکرکے قانون کے کٹہرے میں بھی لایا جائے تاکہ سوشل میڈیا کے اس رش میں سے دہشت گردوں کے گھروں میں بیٹھے بزدل ساتھی جو لاعلمی یا کم معلومات کی بنیاد پر دہشتگردوں کے حمایتی بنے بیٹھے ہیں وہ دبک کر بیٹھ جائیں یا کھل کر اپنے بل سے باہر نکل آئیں۔ افواج کو پاکستان کے عام شہریو ں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ اگر کوئی پاکستانی دہشت گردوں کے کسی حملے میں سہولت کار بنا تو افواجِ پاکستان جہنم کے دروازے تک اُس کا پیچھا کرے گی خواہ اُن کاسفارشی  مشرق سے ہو یا مغر ب سے۔۔۔کیوں۔۔۔کہ ہم مشرق اورمغرب کے رب پر یقین رکھتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں