اقبالؒ کی شاعری کا بنیادی نقطہ فرد اور ملت کی اصلاح

اقبالؒ کی شاعری کا بنیادی نقطہ فرد اور ملت کی اصلاح

ایک عظیم شخصیت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ ان کے افکار و نظریات کے اقرار و اعتراف کا دائرہ تغیرِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مزید وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور اس شخصیت کے نکتہ چین بھی اس حقیقت کو قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان کا نظریہ حیات و فن ان کے پیش روؤں اور ہم عصروں سے منفرد ہے۔ اقبال فرماتے ہیں 
برا سمجھوں انہیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا 
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں 
اقبال ؒکے نظام فکر و نظر کے مطالعے کے بعد یہ مسلمہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کا تصورِ زیست ابدی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبیاتِ عالم کی جن چند شخصیات کے فکری اثاثے کو سکول آف تھاٹس کی اہمیت حاصل ہوئی ان میں علامہ اقبال نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ بالخصوص بیسویں صدی کے آغاز میں جن شخصیات نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ان میں علامہ اقبالؒ کی حیثیت ایک قطب نما کی ہے۔علامہ اقبالؒ کے متعلق یہ بات تو ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ وہ علمی اعتبار سے اپنے ہم عصروں میں امتیاز رکھتے تھے۔ وہ مطالعہئ فکر میں ہمیشہ مصروف رہے، ذی فکر اور اہلِ نظر سے استفادہ کے لئے کوشاں رہتے۔ ان کا اسلوبِ فکر متحرک اور آگے کی طرف رواں دواں ہے اور یہی انسانی سرچشمہئ فکر کی تقویم کا اصل الاصول بھی ہے۔
 اقبال کے کلام کا جہاں اور جس جہت میں بھی مطالعہ کیا جائے وہ زندگی کے انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں اور فرد و قوم کے روابط کو روشن کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی عظمت اور روز افزوں مقبولیت کا مسلمہ راز اسی امر میں ہے کہ انہوں نے 
حزن و یاس کی تاریک فضاؤں میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو روشن مستقبل دکھایا اورا س کی مردہ اور افسردہ رگوں میں اپنی دلپذیر اور روح پرور نواؤں سے خونِ زندگی بھر دیا۔ اقبال ان اکثر روایتی شعرا اور حکما کے برعکس جو زندگی کے ہاتھوں ہر وقت بیزار اور نالاں رہتے ہیں جد و جہد اور سخت کوشی کی تعلیم دیتے ہیں اور زندگی کی بقا کے معتقد ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے ہاں اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں تو صورتحال بالکل مختلف نظر آتی ہے۔        
برِ صغیر میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد جو معاشرہ ظاہر ہوا تھا اس کی سائیکالوجی کو بدلنے کے بعد جو طریقِ کار بروئے کار لایا گیا تھا اس میں تعمیرِ خودی کا نظریہ بنیادی تھا جو بیک وقت تاریخی، تہذیبی، فلسفیانہ اور تعلیمی نظریہ بھی تھا اور ایک ایسے انسان کی تشکیل کا نظریہ بھی تھا جو ان اوصاف کی پیروی کرتا تھا جو اسلامی کردار کا لازمی جزو ہیں۔ یہ انسان اخلاقی نوعیت کا پیکر تھا۔ بدلتی ہوئی دنیا کا شعور اس انسان کی تربیت کا ضروری حصہ تھا۔ اس انسان کے ذمے عہدِ حاضر میں اپنے مسلمان ہونے کی تصدیق فراہم کرنا تھا۔ منتخب اداروں کے ذریعے اس انسان کو اجتہاد کی ذمہ داری بھی سونپی گئی اور صحت مند معاشرے کے قیام کو ضروری قرار دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کو اس انسان اور ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے ایک لازمی اقدام گردانا گیا تھا۔ مسلم معاشرے کے انسان کی کردار سازی اور اس معاشرے کا متحرک تصور ایسے بنیادی اصول تھے جن سے پاکستانی معاشرے کی پہچان کو ممکن بنانا مطلوب تھا۔ 
اقبال ؒ کے فلسفے کا مخاطب بالعموم تعلیم یافتہ مسلمان تھا۔ اقبالؒ عہدِ حاضر کے علوم سے مستفید ہونے والے مسلمان کو اسلام کے اصولوں سے فیضیاب کرنے اور اسے اجتہاد کے لئے تیار کرنے کے خواہشمند تھے۔
خبر نہیں کیا ہے نام اِس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
 عمل سے فارغ ہوا مسلماں، بنا کے تقدیر کا بہانہ
اس اعتبار سے زوال زدہ معاشرے کی فلاح کے لئے اقبالؒ حصولِ علم کو ضروری گردانتے ہیں اور جہاں تک حصولِ علم کا تعلق ہے وہ تعلیم یافتہ مسلمان سے تخلیقی صلاحیتوں کی کار آفرینی کی توقع کرتے تھے۔ عہدِ حاضر میں تخلیقی صلاحیتوں کی کار آفرینی کے ساتھ مسلمانوں کی فلاح وابستہ ہے۔ پاکستانی معاشرے کے نصب العین کی ایک واضح جہت یہی ہے۔ یورپ کی تصویر کے ذریعے اقبالؒ اپنے عہد کے مسلم معاشرے کو مخاطب کرتے ہیں اور آنے والے زمانوں میں مسلم معاشرے کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اس راہ کو اختیار نہ کرے جو دنیا پرستی کا راستہ ہے اور ان رویوں کو اپنانے سے احتراز کرے جو مذہب کے سطحی مظاہر ہی کو صداقت کل گردانتے ہیں۔  
اقبال کی شاعری اور افکار میں فرد اور ملت کی اصطلاح پاکستانی معاشرے کے حوالے سے قابلِ غور ہے۔ اقبالؒ کی نظر میں فرد محض ایک اکائی ہے اورا س کی اپنی کوئی اہمیت نہیں۔ جس طرح دریا کے باہر موج کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، فرد ایک چھوٹی اکائی ہے جس کا ایک بڑی اور تاریخ ساز اکائی میں شامل ہونا ضروری ہے تا کہ وہ زندہ اور قائم رہ سکے۔ان کے خیال میں 
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
 ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اقبالؒ فرد اور ملت کے ربط کو اہم قرار دیتا ہے جسے عہدِ حاضر کی زبان میں قومی اتحاد کہا جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جدید دنیا میں قوم ایک بڑی اکائی ہے جس کے بغیر فرد نہ تو اپنا وقار حاصل کر سکتے ہیں اور نہ بین الاقوامی معاملات میں اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں