چیف جسٹس بمقابلہ سپریم کورٹ

چیف جسٹس بمقابلہ سپریم کورٹ

چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کو محدود کرنے کے عمل کو روکنے واسطے پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا ہے جسکے تحت فردِ واحد چیف جسٹس نہیں بلکہ تین سینئیر ترین ججز کی کمیٹی اکثریت سے یہ فیصلہ کریگی کہ کونسا معاملہ سوْموٹو نوٹس کے قابل ہے اور کونسا نہیں اور اگر نوٹس لینا ہے تو کتنے اور کونسے جج اس معاملے پر سماعت کرینگے، اب کوئی بتائے کہ ایسا کرنے سے سپریم کورٹ کو آئین میں پہلے سے موجود اسکے اختیارات دئیے گئے ہیں یا چھینے گئے ہیں ;238;

صدر عارف علوی نی حسبِ توقع ایک یوتھیا بن کر قانون کے اس بل پر اعتراض لگا کر اسے واپس بھیج دیا ہے، آئین کے تحت اگر پیر کو مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں اسے من و عن منظور کر کے دوبارہ صدر عارف علوی کو بھیج دیا جاتا ہے تو دس دن بعد یعنی بیس اپریل تک یہ بل قانون بن جائیگا اور اکیس اپریل کو سپریم کورٹ میں تین سینئیر ترین ججوں کی کمیٹی سووموٹو کیسز اور اپیلوں کی سماعت کے لئیے بنچوں کی تشکیل شروع کر دے گی ۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس نئی قانون کو سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں چیلنج کر کے اس پر عمل درآمد روک دیا جائے، مگر سپریم کورٹ میں سووموٹو درخواست کے ذریعے اس قانون کو چیلنج کیا گیا تو پھر اس کے لئیے بھی بنچ کی تشکیل تین ججوں کی کمیٹی ہی کریگی، اسی وجہ سے زیادہ امکان ہے کہ اسے اکیس اپریل یا اگلے روز ہی ہائی کورٹ میں (ممکنہ طور پر لاہور ہائی کورٹ میں ) چیلنج کیا جا سکتا ہے جہاں سے اس قانون پر عمل درآمد روک دئیے گئے تو حکومت کا نئے قانون کے تحت اپیل (14 مئی کے الیکشن کیخلاف) دائر کر کے مختلف ججوں کے سامنے اسکی سماعت کی امید پر پانی پھر جائے گا اور پھر اگلے دس دن میں پرانے قانون کے تحت محض نظر ثانی کا وقت بھی گزر سکتا ہے ۔ اب دیکھیں ۰۲ اپریل کو کیا ہوتا ہے، کیونکہ قانون نافذ العمل ہونے سے پہلے چیلنج بھی نہیں ہو سکتا ۔

اس نے قانون پر کچھ عمران دار ماہرینِ قانون لوگوں کو گمراہ بھی کر رہے ہیں یہ دلیل دے کر کہ اس قانون کے ذریعے سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات میں کمی لائی جا رہی ہے جو ممکن نہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعے پہلی بار سپریم کورٹ کے اختیارات میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔

اختیارات تو غیر آئینی طور پر ایک فردِ واحد چیف جسٹس نے چھین رکھے تھے جو اس حوالے سے کوئی قواعد بھی بنانے کو تیار نہ تھا تاکہ پہلے اسٹیبلشمنٹ اور پھر اپنی مرضی سے منتخب حکومتوں کو بلیک میل کرتا رہے یا انہیں گراتا اور بناتا رہے ۔ اندازہ کریں کہ فردِ واحد کا بنچ بنانے کا اختیار ایسا تھا کہ جیسے کوئی آٹو میکینک یہ کہہ کر گاڑی کی ملکیت کا دعویٰ کر دے کہ یہ خراب ہو گئی ہے ۔ آمریت کے طفیلی قانون دانوں کی نسلوں نے اپنے چند تجزیوں میں بھی انتہائی ڈھٹائی سے آئین کے شیڈول چار کے نقطے پچپن کا حوالہ دیا ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ تمام عدالتوں ‘‘ماسوائے سپریم کورٹ’’ کے دائرہ کار اور اختیارات متعلق قانون سازی کر سکتی ہے، تو جناب پہلی بات یہ ہے کہ ‘‘ماسوائے سپریم کورٹ’’ سے مراد ‘‘ماسوائے چیف جسٹس’’ نہیں لی جا سکتی جبکہ سوْموٹو کا اختیار غیر آئینی طور پر ‘‘چیف جسٹس’’ استعمال کر رہے تھے ‘‘سپریم کورٹ’’ نہیں اور اسی لئیے سپریم کورٹ کے اکثر ججوں نے تحریری طور پر اس پر اعتراض بھی کیا تھا، اب جو قانون سازی کی گئی ہے اس میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو گھٹایا نہیں بلکہ غیر آئینی طور پر استعمال ہونے والے اس ہتھیار کو چیف جسٹس سے لیکر اس کی جائز وارث یعنی سپریم کورٹ کو لوٹایا گیا ہے، اس لئیے یہ کہنا درست نہیں کہ شیڈول چار کی خلاف ورزی ہوئی ہے بلکہ حقیقت میں نئے قانون کے ذریعے شیڈول چار پر سختی سے عملدرآمد کرایا جا رہا ہے کہ جسکے تحت چیف جسٹس کو بھی سپریم کورٹ کا اختیار کم کر کے اپنا اختیار بڑھانے کی اجازت نہیں ;245; آئین میں چیف جسٹس کو اپنے انتظامی اختیار کے تحت عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں ، جسٹس فائز عیسی کے تین رکنی بنچ کا سووموٹو بینچوں کی تشکیل متعلق چیف جسٹس کے اختیارات کیخلاف فیصلے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال چیمبر میں بیٹھ کر سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کر سکتے تھے، جس طرح دستر خوان پر ہونے والے کام بیت الخلا میں نہیں ہو سکتے اسی طرح کھلی عدالت میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کے فیصلے کو کسی چیمبر میں بیٹھا اکیلا چیف جسٹس ختم نہیں کر سکتا ۔

اب چلتے ہیں اْن چند نسل در نسل مفاد پرست قانون دانوں کی دوسری دلیل کی طرف جس میں کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کو نوے دن میں انتخابات کروانے سے روکا جا رہا ہے، تو جناب اگر آج بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نئے قانون کی صدر علوی سے منظوری سے پہلے غیر آئینی طور پر ہی سہی خود ہی فل کورٹ (تمام ججوں پر مشتمل مائنس وہ جو پہلے دستبردار ہو چکے) بنا دیں تو جو فیصلہ ہو گا اس سے بھاگنے کا کسی کو موقعہ نہیں ملے گا، مگر چیف جسٹس بندیال ایسا نہیں کر پار رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فل کورٹ نے آ کر پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پہلے سات ججوں کے بنچ کیطرف سے چار تین کی اکثریت کا فیصلہ درست تھا یعنی تمام درخواستیں مسترد، سووموٹو کاروائی اور نووے دن میں الیکشن کروانے کا حکم بھی غیر آئینی ۔ اب نوے دن میں الیکشن کرانے کی آئینی ذمے داری سے کس کو انکار ہے مگر بات یہ ہے کہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں آ چکا تھا تو کیا اسے آئین کے مطابق نہیں سنا جانا چاہئیے;238; آئین میں بکرے کی قربانی جائز تو مگر کیا اسے گولی مار کر قربان کیا جا سکتا ہے;238; نووے دن میں الیکشن کروانے یا نہ کروانے کے متعلق بات یا بحث تب شروع ہو گی جب آئین کے مطابق سپریم کورٹ (چیف جسٹس نہیں ) سووموٹو نوٹس لے گی اور بنچ تشکیل دیا جائیگا، اور اگر سپریم کورٹ چار تین کی اکثریت سے یہ قرار دے چکی ہے کہ معاملہ ہائی کورٹ میں طے ہو تو انتظار کر لینے میں کیا حرج تھا، قصائی عید کے تیسرے دن دستیاب ہو تو پہلے دن بکرے کو گولی مار کر مردار کرنے کی کیا ضرورت ہے;245;

جسٹس اطہر من اللہ کے تفصیلی فیصلے نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی بطور چیف جسٹس انکی اخلاقی قیادت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ سات ججوں کے بنچ نے چار تین کی اکثریت سے نوّوے دن میں الیکشن کرانی سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا، چیف جسٹس اور انکے چند ساتھی عمران دار ججوں اور وکیلوں کی رائے میں ان چار ججوں نے کیس سنا ہی نہیں تو فیصلہ کیسے لکھ دیا، تو جناب ابتدائی سماعت نو ججوں نے کی تھی، دو ججوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اس سووموٹو کے محرکین ہونے کے باعث بنچ سے الگ ہو گئے تھے اور انہوں نے بنچ اور درخواستوں پر کوئی بھی رائے دینے سے اجتناب کیا تھا، جسکے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کمال چالاکی یہ تاثر دیا کہ دو جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس(صفحہ3پر بقیہ نمبر1)

نقوی کو نکال کر باقی سات ججوں پر مشتمل بنچ بنا دیا جائے گا اور نو ججوں سے بنچ کی تشکیلِ نو کے آرڈر پر نو ججوں کے دستخط لئے گئے، اور پھر اپنے ہم خیال ججوں کی عددی اکثریت برقرار رکھنے کے لئے سات کی بجائے پانچ ججوں کا بنچ بنایا جس میں اپنی تین دو کی عددی اکثریت بنا دی گئی، (تین ججوں میں خود چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس منیب اختر ) اور پھر اس بنچ پر موجود دوسری رائے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس تمام کاروائی کو سات رکنی بنچ کا تسلسل سمجھ کر اپنے پرانے ۴;245;۳ کے اکثریتی حکم (درخواستیں مسترد بوجہ ناقابلِ سماعت ) کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا، اب جب کے درخواستیں چار تین کی اکثریت سے ناقابل سماعت قرار دی جا چکی تو چیف جسٹس کی طرف سے دو ججوں کو نکال کر باقی انہیں پانچ ججوں کا بنچ بنا دینا اور یہ دلیل دینا کہ نکالے گئے ججوں نے تو کیس سنا ہی نہیں اسے عمران داری یا بددیانتی نہیں تو اور کیا کہیں گے;238; او بھائی جب نو میں سے دو ججوں نے رائے دینے سے انکار کیا اور باقی سات میں سے چار نے درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے دیں تو پھر دوبارہ پانچ رکنی بنچ کیوں بنایا گیا اور نو رکنی بنچ کے فیصلے میں بنچ کی تشکیل نو کرنے کی اجازت صرف دو ججوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس نقوی کی رضا کارانہ دستبرداری کی حد تک تھی اور جب دو کی بجائے چار ججوں کو بنچ سے نکالا گیا تو نکالے گئے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی کی طرف سے نو رکنی بنچ کی تشکیل کے حکم کے پسِ منظر کو بھی تفصیلی فیصلے میں واضح کیا گیا، ایک چیف جسٹس کی چالاکی اور عیاری نے ساتھی ججوں کو بھی جوابی کاروائی پر مجبور کر دیا، چار ججوں کی تفصیلی فیصلے ایک چیف جسٹس پر ایسی بد اعتمادی کا ہی نتیجہ تھے وگرنہ عام حالات میں ججز کبھی بھی اس حد تک نہیں جاتے کہ تفصیلی فیصلے میں اپنے چیف جسٹس کی بدنیتی اور اسکے کردار پر یوں رائے زنی کریں ۔ بظاہر عمران خان کی محبت نے بڑے بڑے آئینی عہدیداروں کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے ۔ مکاری اور عیاری کا جو بیج بویا جا چکا ہے اسکے نتیجے میں جسٹس فائز عیسیٰ اور چند دیگر با اصول ججز حضرات اضطرابی کیفیت میں ہیں ، جسٹس فائز عیسیٰ کے ایک تین رکنی بنچ نے جب ایک عام سے دوسرے سووموٹو کیس میں سپریم کورٹ کو عارضی طور پر تمام سووموٹو کاروائیاں روکنے کا حکم جاری کیا تو چیف جسٹس نے پھر کمال چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ کیس جسٹس فائز عیسیٰ کے بنچ سے لیکر ایک چھ رکنی بنچ کے سامنے لگا دیا اور اسکی ہنگامی سماعت اسی دن دو بجے رکھ دی، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں چھ رکنی بنچ نے مختصر سماعت کے بعد وہ کیس ہی نمٹا دیا کیونکہ درخواست گزار نے بتایا کہ یہ بہت پرانی درخواست تھی جو اب اسکے لئے غیر اہم ہو گئی ہے، چھ رکنی ننچ نے کیس نمٹا یا تو اِسی کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ کا سووموٹو کاروائیوں کے خلاف عبوری حکم بھی ختم ہو گیا، اگر جسٹس فائز عیسیٰ کا بنچ عبوری حکم کی بجائے وہی ہدایات اپنے حتمی حکم میں دے کر کیس نمٹا دیتا تو چیف جسٹس کے پاس اس کیس میں درخواست گذار کے ذریعے نظر ثانی اپیل کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا مگر اب عبوری حکم کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ اور انکے ساتھی ججز حضرات مزید سماعت کر نہیں سکتے تھے اور چیف جسٹس کی سووموٹو کاروائیوں کے تالے میں قاضی عیسیٰ کے عبوری حکم کی ایلفی ڈل چکی تھی اس لئے چیف جسٹس بندیال نے وہ تالہ ہی توڑ دیا (آئین، قانون اور ضابطے) اور اْسی کیس کو جسٹس عیسیٰ کے بنچ سے لیکر جسٹس اعجاز الاحسن کی چھ رکنی بنچ کو دے دیا جس نے انصاف (تحریکِ انصاف) کے ہتھوڑے کے ایک ہلکے سے وار سے تالہ توڑ دیا، اسکے بعد جسٹس فائز عیسی کا ردّ عمل حالیہ نوٹ کی صورت میں آیا جس میں چھ رکنی بنچ پر بجا طور پر سوال آٹھائے گئے ہیں مگر یہ نوٹ نما ردّعمل نہ تو پریس ریلیز تھی اور نہ ہی کسی عدالتی کاروائی کا تفصیلی فیصلہ، ابتدا میں اسے عدالتی فیصلہ سمجھ کر کے سپریم کورٹ کی ویب ساءٹ پر بھی اپ لوڈ کر دیا گیا مگر پھر اسکی غیر واضح قانونی حیثیت کے باعث اسے ویب ساءٹ سے بجا طور پر ہٹا دیا گیا ۔ کیا کوئی جج کسی ایسے کیس میں جو اس نے خود التوا میں ڈال رکھا ہو اچانک گھر بیٹھے کوئی نوٹ لکھ کر جاری کر سکتا ہے;238; اور خاص کر جب چیف جسٹس کی قیادت میں ججوں کا مخالف گروپ چھ رکنی بنچ کے ذریعے وہ کیس ہی نمٹا چکا ہو;238;

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کیطرف سے ایک ساتھی جج جسٹس اقبال حمید الرحمان کے استعفی کے واقعات بیان کرتے ہوئے کھلی عدالت میں بہائے گئے آنسووَں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس کیس میں جذباتی طور پر ملوث ہو چکے تھے، ایسے جذبات کا اظہار تو عدالت میں لاپتہ افراد کی ماؤں بہنوں کیطرف سے کیا جاتا رہا ہے جنکو چیف جسٹس کی سیٹ پر بیٹھے ‘‘منصف’’ یہ کہہ کر نظر انداز کرتے تھے کہ ‘‘بی بی ہم آنسووَں کو نہیں آئین اور قانون کو دیکھتے ہیں ’’ اور پھر ناجائز اثاثہ جات اور آڈیو لیکس کے الزامات کا شکار ساتھی جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو اپنے ساتھ دوسرے بینچوں میں بیٹھانے کی وجہ بھی انتہائی شرمناک نکلی کہ میں پیغام دینا چاہتا تھا دنیا کو کہ یہ سب الزام جھوٹے ہیں ۔ سبحان اللہ! جج فیصلے نہیں پیغام دینا شروع ہو گئے ہیں ۔ تاثر ہے کہ پانامہ بنچ کو ‘‘پیغام’’ آتے تھے، اب یہاں سے وہاں پیغام جاتے ہیں ;238;

معزز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جس طرح جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی متعلق لیک شدہ آڈیوز کو جج کی کرسی پر بیٹھ کر بغیر کسی سماعت، شواہد یا دلائل کے جعلی قرار دیا ہے، اسکے بعد 14مئی کو الیکشن کرانے والے حکم پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئیے ۔