پی ٹی آئی کو 'بلا' مل گیا

 پی ٹی آئی کو 'بلا' مل گیا
سورس: file


پشاور: پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کا بلا بحال کر دیا۔ 

پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے بلے کا انتخابی نشان بحال کر دیا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر تے ہوئے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کو انتخابی نشان کا سرٹیفیکیٹ جار ی کرنے کا حکم دے دیا۔ 

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بطور سیاسی جماعت پی ٹی آئی انتخابی نشان کی حقدار ہے۔ 

 خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

  پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انٹخابی نشان کیس کی سماعت جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے کی۔ 

 انٹرا پارٹی الیکشن کے اعتراض کنندہ 5فریق جہانگیر ، یوسف ، شاہ فہد،راجہ طاہر اور نور ین فاروق کے وکلاءکے دلائل مکمل ہوچکے ہیں جبکہآج کی سماعت کے دوران انٹرا پارٹی الیکشن کے اعتراض کنندہ 5فریقین کے وکلاء نے دلائل مکمل کرلیے، کیس میں پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے وکلاکل اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔

سماعت کے آغاز میں فریق جہانگیر کے وکیل نوید اختر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس حوالے سے آج سپریم کورٹ میں بھی کیس لگا ہے۔  جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ بات کل ختم ہوچکی ہے، انہوں (پی ٹی آئی وکیل) نے بتایا کہ وہ وہاں کیس نہیں کررہے۔


 
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اگر کل یہ نہ بتایا ہوتا تو ہم پھر پرسوں کی تاریخ دیتے۔ جس پر پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ میں پرسوں کیس نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔

دورانِ سماعت قاضی جواد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل نے پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر سے معلومات لینا چاہیں، جو ان کو نہیں ملیں، میڈیا سے پتہ چلا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے، ہم نے درخواست کی کہ انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں، میرے مؤکل انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے مگر انہیں موقع نہیں دیا گیا۔


 
جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں؟ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کیا۔

وکیل قاضی جواد نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس لیے ان کے خلاف الیکشن کمیشن گئے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ پشاور میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے جو الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دیے، پشاور ہائی کورٹ کو پٹیشن سننے کا اختیار کیسے نہیں ہے۔

قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ دائرہ اختیار کا سوال انتہائی اہم ہے، عدالتوں کے مختلف فیصلوں میں ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا تعین ہوا ہے.

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی تو لاہور ہائیکورٹ بھی گئی، وہاں ان کی درخواست خارج ہوئی۔جس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ نے لکھا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ کیس زیرِ سماعت ہے، پشاور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔


جسٹس ارشد علی نے سوال کیا کہ ایک مرتبہ شیڈول جاری ہو پھر کیسے انتخابی نشان کا فیصلہ ہو سکتا ہے، کیا سیاسی جماعت بغیر انتخابی نشان کے الیکشن لڑ سکتی ہے؟


کیس میں فریق نمبر 10 کے دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد فریق نمبر 8 کے وکیل طارق آفریدی نے دلائل کا آغازکیا۔وکیل طارق آفریدی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے دائرہ اختیارپر بات کروں گا، یہ درخواست عدالت سن سکتی ہے یا نہیں۔ شکایت کنندہ کے وکیل طارق آفریدی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 192 کے تحت الیکشن کمیشن وفاقی ادارہ ہے، اس کے معاملات اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنے جا سکتے ہیں، پشاور ہائی کورٹ کا اس معاملے پر دائرہ اختیار نہیں بنتا۔

عدالت نے جواب دیا کہ آپ سے پہلے وکیل صاحب نے بھی دائرہ اختیار پر 1 گھنٹہ دلائل دیے، انہوں نے پوائنٹس اٹھائے ہیں، ان کے علاوہ کوئی ہے تو بتائیں۔

اس دوران کیس میں فریق کوہاٹ کے شاہ فہد کے وکیل احمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ پارٹی جیسے ہی بنی وہیں سے لاڈلا پن شروع ہوا، اس پر جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ آپ قانونی بات کریں، یہاں پر کبھی ایک اور کبھی دوسرا لاڈلا بن جاتا ہے۔

احمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ اپنے کارکنوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دیا، انٹرا پارٹی انتخابات کا اچانک بلبلا اٹھا اور اعلان کیا گیا کہ کابینہ بن گئی۔ جسٹس اعجاز انور کے ریمارکس دیے کہ وہی بلبلا ابھی پھٹا ہے، ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

احمد فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ انتخابات آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے، الیکشن کمیشن فیصلہ کے خلاف بھی سول کورٹ جانا چاہیے تھا، الیکشن ایکٹ میں یہ لازمی نہیں کہ ہر انتخاباب میں وہی نشان ملے گا، اگر 2 جماعتیں مانگ لیں تو الیکشن کمیشن کو اختیار ہے۔

کیس میں فریق نورین فاروق اور راجا طاہر کے وکیل میاں عزیز الدین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس سرٹیفیکٹ مجاز شخص نے جمع نہیں کیا، جب فریقین کو معلوم ہوا تو عدالت میں کیس کردیا، عدالت نے کیس کمیشن کے پاس بھیج دیا، اس کے بعد مجاز شخص کے ذریعے سرٹیفیک جمع کیا گیا۔

اس کے بعد کیس میں فریق چارسدہ کے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرا مؤکل ضلعی صدر رہ چکا ہے، ایک بیان پر جہانگیر کو پارٹی سے فارغ کیا گیا، آئین کے مطابق عہدیداروں کو منتخب نہیں کیا گیا جو لازمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عہدیداروں کی تازہ فہرست الیکشن کمیشن کو دینی ہوتی ہے، انتخابی نشان بھی سیاسی پارٹی کو اس کی کریڈیبلیٹی کے مطابق دیا جاتا ہے، پارٹی کے آئین اور ووٹر کے تحفظ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کیس میں اعتراض کنندہ گان کے وکلاءکے دلائل مکمل ہو گئے تو  پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر ایک بار پھرروسٹرم پر آگئے۔ 


بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہو یا پشاور ہائیکورٹ، کہیں بھی چیلنج ہوسکتا ہے، انتخابات یہاں ہوئے اور سیکرٹری جنرل عمر ایوب کا تعلق بھی اس صوبے سے ہے۔ اس صوبے میں 2 مرتبہ پی ٹی آئی اقتدار میں بھی رہی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نشان نہ ملنے سے پی ٹی آئی کی پورے ملک کی مخصوص سیٹیں متاثر ہونگی،علی ظفر نے پشاور ہائیکورٹ اختیارات کے متعلق مختلف فیصلے عدالت میں پڑھ کر سنائے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہیہ کہنا کہ آفس اسلام آباد میں ہے اس لیے کیس یہاں نہیں ہو سکتا غیر مناسب ہے۔


پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا جواب الجواب مکمل ہوئے تو عدالت نےالیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟ 

 جسٹس ارشد علی نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ کارروائی آپ نے کیسے کی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 میں انٹرا پارٹی انتخابات کا ذکر نہیں۔ ایڈوکیٹ سکند مہمند کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 215 س تب لاگو ہوتا ہے جب اختیار ہو،  الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے،اسلئے اس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے۔


جسٹس اعجاز انورنے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق سیکشن 208 میں الیکشن پارٹی کے آئین کے مطابق ہوگا۔ آپ کے مطابق آپ نے شو کاز نوٹس نہیں دیا۔ آیا یہ الیکشن پارٹی کے مطابق ہے یا الیکشن آئین کے مطابق؟

سکندر مہمند ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ایک سال دیا گیا، الیکشن نہیں کیا گیا،  الیکشن ایکٹ اور پارٹی آئین کے مطابق انتخابات کرانا لازمی ہیں۔ 

 وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اگر وقت پر انتخابات نہ کرائے تو جرمانہ ہوتا، یہاں تو آئین کے مطابق انعقاد ہی نہیں کیاگیا۔  

بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان واپسی کیخلاف کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسٹس اعجاز انور  نے کہا کہ انشاء اللہ آج ہی فیصلہ کرتے ہیں۔



مصنف کے بارے میں