کان اور آنکھیں سلامت رہنے دیں…!

کان اور آنکھیں سلامت رہنے دیں…!

جناب عمران خان کے خلاف تحریک عدم ِاعتماد کی کامیابی اور اس کے نتیجے میں اُن کے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد تقریباً ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران جناب عمران خان اور اُن کے ساتھیوں نے جس طرح کی بیان بازی اور منفی پراپیگنڈے کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ریاستی اداروں اور اُن سے تعلق رکھنے والی مقتدر شخصیات کو نشانہ بنا رکھا ہے اس سے جناب عمران خان کے جنوری کے اواخر میں دیئے گئے اس بیان کہ میں حکومت سے نکلا یا مجھے حکومت سے نکالا گیا تو میں مزید خطرناک ہو جاؤں گا کا ثبوت ہی سامنے نہیں آ رہا ہے بلکہ یہ بھی عیاں ہو رہا ہے کہ اُنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اُن کی اور اُن کے حامیوں اور پیروکاروں بالخصوص سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی اُن کی سپاہ کی طرف سے کیے جانے والے منفی پراپیگنڈے اور عسکری قیادت بالخصوص آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کردار کشی سے مسلح افواج کے ڈسپلن اور اس کے مجموعی کردار اور مقام و مرتبے پر بُرے اثرات ہی مرتب نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کو اس پر بغلیں بجانے اور خوشیاں منانے کے مواقع بھی مل رہے ہیں۔
جناب عمران خان اور اُن کے حامیوں کو یقینا اس بات کا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو اپنی شدید تنقید اور پراپیگنڈے کا نشانہ بنائیں۔ کسی کو اُنھیں نہیں روکنا چاہیے تاہم اُنھیں اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اظہر من الشمس حقائق کو جھٹلاتے ہوئے منفی پراپیگنڈہ کے بل بوتے پر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے کی روش اپنائے رکھیں۔ اسی طرح انھیں اس امر کی بھی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ریاستی اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کے بارے میں ایسے ریمارکس دیں یا ایسا منفی پراپیگنڈا کریں کہ جس سے نہ صرف یہ ادارے ہی بازیچہ اطفال دکھائی دیں بلکہ ملک کی سلامتی اور یکجہتی کو بھی نقصان پہنچے۔ جناب عمران خان اور ان کے بعض ساتھی جن میں شیخ رشید احمد، چودھری فواد حسین اور شہباز گل وغیرہ نمایاں ہیں جس طرح غیض و غضب اور اپنے مخالفین کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے کی روش اپنائے ہوئے ہیں لگتا ہے جیسے وہ ہوش و حواس کھو چکے ہیں اور انھیں اس بات کی بھی تمیز نہیں رہی کہ وہ جو کچھ کہ رہے ہیں اور جس طرح کے ان کے فرمودات سامنے آ رہے ہیں ان سے اگر ان کے مخالفین نشانہ بن رہے ہیں تو ان کے اپنے  پہلے سے اختیار کردہ  مؤقف اور فرمودات کی بھی تکذیب ہو رہی ہے۔
جناب عمران خان نے اگلے دن سوشل میڈیا پر خصوصی پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ اس کا بین ثبوت ہے۔ جناب عمران خان کا ارشاد تھا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات تھے اس لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ مشکل وقت میں ہمارا انٹیلی جنس چیف تبدیل ہو۔ مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ن لیگ والے ری انٹری کرنے والے ہیں  جو ابھی انھوں نے کی ہے۔ مجھے گزشتہ برس جولائی میں پتہ چل گیا تھا کہ انہوں نے پورا پلان بنایا ہے حکومت گرانے کا لہٰذا میں نہیں چاہتا تھا کہ جب تک سردیاں نہ نکل جائیں ہمارا انٹیلی جنس چیف تبدیل نہ ہو۔ میں  نے اپنی کابینہ میں کھلے عام کہا تھا کہ جب آپ پر مشکل وقت ہے تو آپ اپنا انٹیلی جنس چیف تبدیل نہیں کرتے کیونکہ وہی حکومت کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں۔ جناب عمران خان کے اس بیان کو سامنے رکھا جائے تو کیا اُن کے اپنی حکومت گرانے کی امریکی سازش کے واویلے کی تکذیب نہیں ہوتی ہے۔ لیکن جناب عمران خان کو ان باتوں کی کیا پروا؟ وہ تو ہمیشہ سے یو ٹرن لینے، الزام تراشی کرنے  
اور اپنے مخالفین کو بُرا بھلا کہنے کے اندازِ فکر و عمل پر کاربند چلے آ رہے ہیں۔
جناب عمران خان نے جس انٹیلی جنس چیف کی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ بلا شبہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل فیض حمید تھے  جنہیں جناب عمران خان کسی صورت میں اپنے منصب سے ہٹانے کے حق میں نہیں تھے۔ آخر ایسا کیوں تھا؟ اس کا جواب جناب عمران خان نے اس بیان میں دے دیا ہے کہ گزشتہ جولائی میں انہیں اس بات کی سن گن ہو گئی تھی کہ ان کو حکومت سے ہٹانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے جس میں مسلم لیگ ن پیش پیش تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اُن کو حکومت سے ہٹانے کی یہ منصوبہ بندی کسی صورت میں بھی کامیاب نہ ہونے پائے۔ یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ انھیں سابقہ آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کا پورا تعاون اور حمایت حاصل ہو اس لیے وہ ان کو اس منصب سے ہٹانے کے حق میں نہیں تھے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو اور اسے ایک کھلی حقیقت کے طور پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے کہ عمران خان کو  برسر اقتدار لانے کے لیے مقتدر اداروں بالخصوص آئی ایس آئی کے سابقہ چیف لیفٹنٹ جنرل فیض حمید کا نمایاں کردار رہا ہے۔ جناب عمران خان کو اس بات کا احساس کر لینا چاہیے کہ وہ  ملک کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی جسے وہ حکومت کی آنکھیں اور کان کہہ رہے ہیں اُسے برباد نہ کریں بلکہ سلامت رہنے دیں۔ ملک میں صرف آئی ایس آئی ہی بڑی خفیہ ایجنسی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے اور آئی بی بھی ملک کی بڑی خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی کا کردار بڑا مخصوص ہے۔ اُسے حکومتی نہیں بلکہ ریاستی خفیہ ایجنسی سمجھا جاتا ہے جس کا سب سے اہم فریضہ ریاستِ پاکستان کے خلاف ہونے والی کسی طرح کی بھی ملکی اور غیر ملکی سازشوں کا قبل از وقت  پتہ  لگا کر اُن کو کاؤنٹر کرنا یا اُن کا  ٹھوس جواب دینا ہوتا ہے۔ بلا شبہ آئی ایس آئی کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اُس نے اپنا یہ اہم ترین فریضہ سر انجام دینے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی جس کا  ہمارے اپنے لوگوں کے علاوہ غیر لوگ بھی اعتراف کرتے ہیں۔ تاہم ہماری یہ بد قسمتی رہی ہے کہ آئی ایس آئی کو کب سے ملکی سیاسی معاملات میں دخل اندازی کے لیے جھونکا جا رہا ہے۔ اس سے آئی ایس آئی کی نیک نامی پر ضرور حرف آیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی آئی ایس آئی اور اس کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج اور اس کی قیادت کو نشانہ بنانا شروع کر دے۔
جناب عمران خان کو تو اس کا اور بھی زیادہ احساس ہونا چاہیے کہ آپ ملک کے وزیرِ اعظم رہے ہیں اور کم و بیش پونے چار سال تک آپ نے اقتدار کے مزے لوٹے ہیں تو یہ اسی صورت میں ممکن ہوا تھا کہ آپ آج جن پر طعن و تشنیع کے تیر برساتے ہیں کبھی اُنھیں ہنڈلرز (Handlers) کہہ کر پکارتے ہیں اور کبھی انھیں یہ طعنے دیتے ہیں کہ نیوٹرل جانور ہوتے ہیں  تو یہی ہنڈلرز تھے کہ جنہوں نے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت کہ آزمائی ہوئی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں نہیں آنے دینا  کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کے لیے اقتدار کی راہ ہی ہموار نہیں کی بلکہ آپ کے لیے بیساکھیاں بن کر سہارے کا کام بھی کیا۔  جس کی بنا پر ایک وقت تھا کہ آپ اور آپ کے شیخ رشید احمد اور چودھری فواد حسین جیسے ساتھی یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم عسکری قیادت کے ساتھ ایک پیج پر ہیں اور ہمیں کسی طرح کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تو پھر آج کیا ہو گیا ہے؟ عسکری قیادت کا قصور یہ نہیں ہے کہ انھوں نے غیر جانبدار یا نیوٹرل ہونے کا اعلان ہی  نہیں کر رکھا ہے بلکہ چند ماہ سے اس پر عمل پیرا بھی ہو رہے ہیں اور آپ کو اس کی سخت تکلیف پہنچ رہی ہے۔ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لیں یہ ملک ہم سب کا ہے اس کے ریاستی ادارے بالخصوص مسلح افواج اور اس کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اس ملک کی سلامتی، یک جہتی اور تحفظ کی ضامن ہیں۔ خدا کے لئے اپنی نا اہلیوں، نالائقیوں، کمزوریوں اور بد عنوانیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے ملک کے مستقل اداروں کو نشانہ بنانے کی روش سے اجتناب کریں یہ نہ ہو کہ کوئی ایسا بڑا حادثہ پیش ہو جائے کہ جس کی بنا پر سبھی ہاتھ ملتے رہ جائیں۔
آخر میں آئی ایس پی آر کے ترجمان کی طرف سے اس بیان کا حوالہ دینا ایسا بے جا نہیں ہو گا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ فوج اور اس کی قیادت کو سیاست میں دانستہ ملوث کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عوامی فورمز، سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر غیر مصدقہ اور ہتک آمیز بیانات نظر آتے ہیں۔ بعض سیاسی راہنماؤں، چند صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے ریمارکس انتہائی نقصان دہ ہیں۔ فوج کو سب سے توقع ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں گے اور مسلح افواج کو ملک کے بہترین مفاد کے لیے سیاست میں نہیں گھسیٹیں گے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کا یہ بیان بلا شبہ انتہائی بروقت ہے۔ تمام متعلقہ حلقوں کو اس کا پاس کرنا چاہیے۔ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے بھی  بالواسطہ اس بیان کی تائید کی ہے کہ فوج کی بہت قربانیاں ہیں جو غلط بات کرتا ہے اس کی مذمت ہونی چاہیے۔ آخر میں مسلم لیگ ن کی اہم راہنما محترمہ مریم نواز سے یہ درخواست کرنا بھی ایسا غلط نہیں ہو گا کہ اب جب مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہے۔ میاں شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہیں تو پھر محترمہ مریم نواز کو بھی جوشِ خطابت میں کسی طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیان دینے سے اجتناب کرنا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں