سانحہ اے پی ایس: وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ پیش، عدالت کا ذمہ داروں کے تعین کا حکم

سانحہ اے پی ایس: وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ پیش، عدالت کا ذمہ داروں کے تعین کا حکم
سورس: فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) کے معاملے میں اٹھائے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کا حکم دیدیا ہے اور کیس کی سماعت 4 ہفتوں کے ملتوی کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی فوری طلبی پر عدالت میں پیش ہوئے اور ججز کے سوالات کے جواب دئیے۔ 
تفصیل کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس کی سماعت کی جس دوران وزیراعظم کو آ ج ہی عدالت طلب کیا تھا۔ وزیراعظم نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر بتایا کہ سانحہ کے وقت صوبے میں ہماری حکومت تھی اور ہم نے ہر ممکن اقدامات اٹھائے، ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا اور نیشنل انٹیلی جنس کوآرڈی نیشن کمیٹی بنائی جو معاملہ دیکھ رہی ہے، اس وقت کہا تھا کہ امریکی جنگ ہے، ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور نیوٹرل رہنا چاہئے۔ 
وزیراعظم کمرہ عدالت پہنچے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ والدین کو تسلی دینا ضروری ہے جس پر وزیراعظم نے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو میں فوری طور پر پشاور پہنچا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کیلئے کیا کیا؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ میں تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا۔ 
جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، بتائیں مجرموں کو کٹہرے میں لانے کیلئے کیا کیا؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان سے مذاکرات کر رہے ہیں جس پر وزیراعظم نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کا موقع دی، میں ایک ایک کر کے وضاحت کرتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، آئین پاکستان میں عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، پوچھ رہے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا۔ 
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سانحہ کے وقت صوبے میں ہماری حکومت تھی اور ہم نے ہر ممکن اقدامات کئے مگر ہم اس وقت مرکز میں حکومت میں نہیں تھے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے، آئین پاکستان میں عوام ی حفاظت ریاست کی ذمہ دری ہے، اس پر وزیراعظم نے کہا کہ 80 ہزار لوگ دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہوئے، میں نے اس وقت کہا تھا کہ یہ امریکی جنگ ہے، ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمیں نیوٹرل رہنا چاہئے، ہمارا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا، ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ دوست کون ہے اور دشمن کون۔ 
عدالت نے وزیراعظم عمران خان سے سانحہ اے پی ایس کے معاملے پر اٹھائے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ذمہ داروں کے تعین کا حکم دیا اور کیس کی سماعت 4 ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ 
قبل ازیں سپریم کورٹ میں سانحہ اے پی ایس حملہ کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزیراعظم عمران خان کہاں ہیں کیا انہوں نے عدالتی حکم پڑھا ہے ؟۔جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، ان کو حکم سے آگاہ کروں گا ، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے ؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب اب ایسے نہیں چلے گا، بچوں کو سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے، اس کیس میں چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کر دی گئی حالانکہ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہئے تھی لیکن اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔ 
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد کیا سابق آ رمی چیف و دیگر ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟ کیا اصل ملزموں تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں، اطلاعات ہیں ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے۔ 
دوسری جانب اٹارنی جنرل نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کر کے انہیں عدالت عظمیٰ کے حکم کے احترام میں عدالت کے روبرو پیش ہونے کا مشورہ دیا جبکہ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اہم وزراءکو بھی اس معاملے پر آن بورڈ لیا اور مشاورت کے بعد سپریم کورٹ پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ 
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ پیش ہونے کا فیصلہ کئے جانے پر ان کا سیکیورٹی سٹاف سپریم کورٹ پہنچ پہنچا اور پولیس کی اضافی نفری بھی سپریم کورٹ کے داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات کی گئی جبکہ وزیراعظم عدالت کے روبرو پیش ہونے کیلئے ججز گیٹ سے اندر داخل ہوئے تھے۔ 
واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا ، جس میں سکول اساتذہ اور پرنسپل سمیت 140 بچے شہید ہوئے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ایل پی)  نے قبول کی تھی۔