شریف برادران اور خان صاحب ایک دوسرے کے محسن ہیں!

 شریف برادران اور خان صاحب ایک دوسرے کے محسن ہیں!

خان صاحب پر ہونے والے حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وہ ایک مقبول ترین سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، پاکستان کی تاریخ میں ایسی مقبولیت اُن سے پہلے صرف ذوالفقار علی بھٹو کے حصے میں آئی۔ تب سوشل میڈیا نہیں تھا، صرف ایک سرکاری ٹی وی تھا یاکچھ اخبارات تھے، خان صاحب کی مقبولیت میں سوشل میڈیا کا کردار بڑا اہم ہے، کسی نے کوئی ایسا خاص کارنامہ نہ کیا ہو جو لوگوں کے دِلوں میں دیرتک اُسے زندہ رکھ سکے کِسی اہم عہدے سے اُترنے کے بعد اُس کی مقبولیت بڑی تیزی سے ختم ہوجاتی ہے، خان صاحب نے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں کوئی ایسا کارنامہ نہیں کیا جِس کی بنیاد پر اُن کی مقبولیت قائم رہتی، …… میں کوئی نئی بات نہیں کہنے لگا، یہ بات خان صاحب کے چاہنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں اُنہیں اقتدار کی مدت پوری کرنے دی گئی ہوتی جِس طرح کی ”چولیں“ وہ مسلسل مارہے تھے اُن کی مقبولیت مکمل طورپر زمیں بوس ہوگئی ہوتی، اپنی طرف سے اسٹیبلشمنٹ نے اُنہیں دھکا دیامگر کبڑے کولات راس آگئی، اُس کی مقبولیت کی گرتی اور ٹوٹتی ہوئی کمر یکدم سیدھی ہوگئی، جنگ ابھی جاری ہے، اِس جنگ میں بالآخر جیت کِس کی ہوتی ہے یا ”موت“ کِس کی ہوتی ہے اِس کا فیصلہ بلکہ فائنل فیصلہ چند دِنوں میں شاید ہونے والا ہے، ……منافقت مگر دونوں اطراف سے پورے زوروشورسے جاری ہے، …… مگر جس طرح کی جید منافقتوں کے مظاہرے اپنے خان صاحب نے کیے اسٹیبلشمنٹ کی بے شمار منافقتوں کو اُنہوں نے پیچھے چھوڑ دیا، بے شمار سیاستدان بھی اِس مقابلے میں اپنی مثال آپ ہیں، خان صاحب کی منافقتوں کا مگر انداز ہی نرالا ہے، ……سیاست میں منافقتوں کے جو جدید رجحانات اب اُنہوں نے متعارف کروادیئے ہیں اُن سے جان چھڑانا اچھاخاصا مشکل ہوگا، خان صاحب کو سیاستدان نہ سمجھنے والے اب منہ چھپائے پھرتے ہیں، خان صاحب نے جب ورلڈ کپ جیتا خیال تھا وہ صِرف کرکٹ ہی کھیل سکتے ہیں، وہ خود بھی یہی سمجھتے تھے وہ صِرف کرکٹ کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، اُس زمانے میں ایک بار کِسی نے اُن سے سیاست میں آنے کا پوچھا اُنہوں نے بُرا سامنہ بناکر جواب دیا ”یہ گندہ کام اپنے بس کا روگ نہیں“……پھر یہ وقت آیا اِس ”گندے کام“ کو اُنہوں نے مزید گندہ کردیا، کون کون سا ایسا غلیظ کارنامہ اُنہوں نے نہیں کیا جو اُن سے پہلے گندے حکمرانوں نے نہیں کیا؟۔ فرق صِرف یہ ہے سابقہ حکمرانوں نے ”تبدیلی“ ریاست مدینہ، امربالمعروف یا کِسی سائف کے نام پر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا، لوگوں کو بے وقوف بنانے کے اُن کے اپنے انداز تھے، آج بھی وہی ہیں، ……خان صاحب کبھی سیاست میں نہ آتے اگر بطورکرکٹر مقبولیت کا چسکا اُنہیں نہ پڑ گیا ہوتا، اُن کی سیاست کا واحد مقصد اُس مقبولیت کو برقرار رکھنا تھا جو ورلد کپ جیتنے کے  بعد بطور کرکٹر اُنہیں مِل چکی تھی، وہ جانتے تھے ایک آدھ ہسپتال بناکر اُس سطح کی مقبولیت کو برقرار رکھنا ناممکن ہے، کئی ایسے کرکٹرز جب ریٹائرڈ ہوئے گمنایوں کی گہری دلدل میں دھنس گئے۔ خان صاحب اِس سے بچنا چاہتے تھے، وہ بخوبی جانتے تھے پاکستان میں صرف سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جِس میں مقبولیت برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ بائیس برسوں کی سیاست میں کِسی نے اُنہیں اقتدار کی گھاس ڈالنامناسب نہیں سمجھا۔ اُنہیں بس گھا دکھادکھا کر پیچھے لگائے رکھا، پھر اچانک وہ اصلی طاقتوروں کی اِسی طرح ضرورت بن گئے کہ اصلی طاقتوروں کا اپنے سابقہ لاڈلے نواز شریف سے اِٹ کتے کا بیر شروع ہوگیا، نوازشریف کو ایک بار پھر ”اقتدار نکالا“ دے دیا گیا، وہ اگر خود کو لانے والے طاقتوروں کے ساتھ کِسی نہ کِسی طرح بنائے رکھتے، اپنے ماضی سے سبق سیکھتے، اُنہیں  چھوٹی موٹی ہڈیاں ڈالتے رہتے آسانی سے اپنی مدت پوری کرلیتے، مگر اُنہوں نے ایسا راستہ منتخب کیا جس کے ایک موڑ پر طاقتوروں کو خان صاحب کھڑے نظر آگئے، پیپلزپارٹی اتنی غیرمقبول ہوچکی تھی نون لیگ کو ہٹا کر اُسے اقتدار میں لانے سے طاقتور مزید ننگے ہوجاتے، سو اُنہوں نے ایک نئے تجربے کے طورپر خان صاحب کو گود لے  لیا، اِس پس منظر میں اگر دیکھا جائے خان صاحب کو اقتدار میں لانے کا اصل کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے، بجائے اِس کے اقتدار میں آنے کے بعد خان صاحب نواز شریف کے شکرگزار ہوتے کہ اُنہوں نے اُن کے اقتدار کی راہ ہموار کی اُلٹا وہ اُن کے پیچھے پڑ گئے۔ اقتدار میں آکے اُنہوں نے صرف ایک ہی ”کارکردگی“ دکھائی اپنی ہرتقریر میں اپنے ”محسنوں“ کو چورڈاکو، چورڈاکو کہتے رہے، ……2022میں پھرتاریخ دہرائی گئی۔ 2018میں جِس سطح پر نواز شریف کھڑے تھے 2022میں وہاں عمران خان آگئے، …… اب خان صاحب کے پاس بھی دوراستے تھے۔ ایک وہی کہ خود کو اقتدار میں لانے والی قوت کے ساتھ اپنے معاملات میں تھوڑی نرمی پیدا کرکے اپنے اقتدار کی مدت پوری کرلیتے۔ دوسرا راستہ بھی وہی تھا اُن کے ساتھ اپنے معاملات کو اِس بدترین مقام پر لے آتے کہ وہ ایک بار پھر اپنے سابقہ لاڈلوں (شریف برادران) کو گود میں بٹھانے کے لیے تیار ہو جائے ……نوازشریف کی طرح خان صاحب نے بھی دوسرا راستہ اختیار کیا، جِس کا نتیجہ یہ نکلا خان صاحب اقتدار سے باہر ہوگئے اُن کی کُرسی پر شہباز شریف کو بٹھا دیا گیا، اُن پر کرپشن کے جتنے کیسز تھے ختم ہوگئے۔ اسحاق ڈار وطن واپس آگئے۔ مریم نواز باہر چلی گئیں،……اطلاع یہ ہے بہت جلد نواز شریف بھی وطن واپس آنے والے ہیں۔ وہ  اگر واقعی واپس آگئے اُنہیں چاہیے ایئرپورٹ سے نکلتے ہی فوراًخان صاحب کے گھر تشریف لے جائیں۔ اپنے اِس ”محسن“ کا شکریہ ادا کریں جِس نے ایسے حالات پیدا کردیئے جو اُن کی آسانیوں کا باعث بنے۔ اِس بات کا تو خاص طورپر شکریہ ادا کریں کہ ہم جن سے بدلے نہیں لے سکے وہ آپ نے لے لیے اور ہمیں اُن سے یہ کہنے کا موقع فراہم کیا ”ھُن پتہ لگاجے“!!

مصنف کے بارے میں