شہباز گل کا پالیسی بیان اور گرفتاری

شہباز گل کا پالیسی بیان اور گرفتاری

کوئی بھی چیز آئسولیشن میں نہیں ہوتی۔ آگے پیچھے اوپر نیچے کوئی نہ کوئی ہوتا ہے۔ میں شہباز گل کے بیان کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ریڈ لائین کو عبور کیا اور اب تفتیشی اداروں کی تحویل میں ہے۔ میں اس وقت سوشل میڈیا دیکھ رہا ہوں وہاں پر اس کے حق اور اس کی مخالفت میں بیان بازی ہو رہی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جگالی ہو رہی ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس کے بغیر ہاضمہ درست نہیں ہوتا۔ شہباز گل نے اتنا بڑا بیان کیا ہوش و حواس میں رہ کر دیا ہے۔ پھر کیا ہوا اس کا کھوج پولیس لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسلام آباد کے کچھ دوست کہہ رہے ہیں کہ شہباز گل نیم دلی سے اداروں سے تعاون کر رہے ہیں۔ معاملہ اس وقت کھلے گا جب سب کچھ عدالت میں پیش ہو گا۔ معافی تلافی کا فی الحال کوئی امکان اس لیے نظر نہیں آ رہا کہ جہاں ہاتھ ڈالا گیا ہے وہ بہت گرم ہیں کہ یہ صریحاً فوج کے اندر بغاوت ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ شہباز گل نے عمران خان کی مرضی اور منشا کے بغیر یہ سب کیا ہو۔ بے چارہ شہباز گل لیڈروں کی شہ پر کیا کر بیٹھا ہے اور لیڈر اس کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی لائین لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان نے اس گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر شہبازگل نے کچھ کیا ہے تو اس کی اسے سزا ملے گی لیکن جس انداز سے انہیں گرفتار کیا گیا وہ غلط ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ گرفتاری کے وقت انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کے ڈرائیور کا بیان اور چاک گریبان گرفتاری کے وقت تشدد کی کہانی میں رنگ بھرنے کے لیے کافی تھا۔ شام کو ان کی گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی کہ کس طرح پولیس نے انہیں گرفتار کیا اور انہیں عزت سے گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔ پولیس نے اس وقت گاڑی پر بٹ مارا جب شہباز گل نے اپنے آپ کو گاڑی میں مقید کر لیا تھا اور اس دوران وہ اپنے فون سے ڈیٹا کو تلف کرنے میں مصروف رہے اور پھر خود گاڑی سے باہر نکلے اور پولیس کے ساتھ چلے گئے۔ وہ ساری کہانی اپنے انجام کو پہنچ گئی جو پھیلا کر اشتعال دلایا جا رہا تھا۔
لگ رہا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر معاملہ کو انتہائی احتیاط سے ہینڈل کر رہے ہیں۔ معاملہ نازک ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی معاملہ کو بگاڑ سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر موجود ہاکس (عقاب) یہ کوشش کر  رہے ہیں کہ کسی طرح اس 
گرفتاری کی آڑ میں صوبوں اور وفاق کے درمیان محاذ آرائی کی صورتحال پیدا کر دی جائے مگر پرویز الہی اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر حکومت کریں اور اپنے معاملات کو خراب کر لیں۔ پرویز الہی نے صاف الفاظ میں شہبازگل کے بیان کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ تحریک انصاف بھی اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرے۔ تحریک انصاف کی آج کی پریس کانفرنس میں یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ تحریک انصاف فوج کے ساتھ ہے اور فوج کو ملک کی محافظ سمجھتی ہے۔ اسد عمر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہو سکتا ہے کہ شہباز گل نے جو بات کی ہو وہ ٹھیک نہ ہو لیکن واضح قانون موجود ہے، آپ عدالت کے سامنے جا کر مقدمہ بنائیں اور وہاں ان سے سوال کریں کہ آپ نے ایسا کیوں کہا۔ وضاحت طلب کریں، بندوق کی بٹ مار مار کر شیشے توڑ کر گاڑی سے نکال کر حراست میں لینا اور پرائیوٹ گاڑی میں لے جانا واضح کرتا ہے کہ یہ حکومت خود کو اندر سے کھوکھلا محسوس کررہی ہے، طاقت کے استعمال سے ان کی آخری پھڑپھڑاہٹ نظر آ رہی ہے۔ فوج پر تنقید کے حوالے سے سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ ’فوج کے بارے میں پارٹی پالیسی واضح ہے، عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کے لیے اْن سے زیادہ پاکستان کی فوج ضروری ہے، ایک مضبوط فوج پاکستان کے لیے لازمی ہے جس کو عوام کا اعتماد اور محبت حاصل ہو‘۔ ان کی مجبوری کو سمجھا جا سکتا ہے کہ بہرحال انہیں اس گرفتاری کی مذمت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا سو انہوں نے کہا۔ لگے ہاتھوں وہ یہ بھی بتا دیتے کہ اس سے مہذب گرفتاری کا طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے۔ تھانے میں تفتیش کے دوران کیا ہو رہا ہے اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر گرفتاری کے وقت ان پر ہونے والے تشدد کی کہانی افسانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ شہباز گل کے ڈرائیور کو بھی حراست میں لے کر یہ تفتیش کی جاتی کہ اسے کس نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور کس نے اس کے گریبان پر ہاتھ ڈالا ہے۔
سچ پوچھیں تو تحریک انصاف نے بغاوت کی چنگاری کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ فوج میں بغاوت اور کس طرح ہو گی؟ نجی ٹی وی پر ہونے والی گفتگو کو سنیں تو واضح ہو جائے گا کہ کس طرح سوچے سمجھے انداز میں یہ بیان جاری ہوا۔ سلمان اقبال حق نمک ادا کر رہے ہیں اور اپنے چینل کو تحریک انصاف کے لیے ایک ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جو کچھ چینل کے ذریعے ہوا وہ صرف دو صورتوں میں ہو سکتا تھا کہ یا تو ان کا ایڈیٹوریل کنٹرول بالکل زیرو ہے یا وہ اس بیانیے سے مکمل طور پر متفق ہیں۔ حدت بڑھی ہے تو اس بیان سے لاتعلقی کا اعلان ہو رہا ہے لیکن اس کا جواب تو دینا ہو گا کہ آپ کے چینل نے یہ سب کچھ کیوں کیا ہے؟  لوگ فیشن کے طور پر بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے ہیں، فوج کے سیاسی کردار پر کھل کر گفتگو بھی ہوتی ہے اور جرنیلوں کے سیاست میں مداخلت پر برسرعام بات ہوتی ہے۔ یہ فوج کے خلاف بات نہیں ہوتی بلکہ اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ آپ صرف پیشہ وارانہ معاملات تک محدود رہیں لیکن آج تک کسی میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ فوج کے جوانوں اور افسروں سے کہے کہ وہ اپنے سنئیرز کے احکامات ماننے سے انکار کر دیں۔ یہ تحریک انصاف کی اسی پالیسی کا تسلسل ہے جو اس نے بیوروکریسی اور پولیس کے حوالے سے اپنا رکھی ہے اور جلسوں اور بیانات میں کہا جاتا ہے کہ آپ حکومت کے غیر قانونی احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ اب فوج کو اسی پالیسی کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اب سیاست نہیں ہو گی بلکہ جہاد ہو گا۔ بہتر ہے کہ انہیں کشمیر یا غزہ بھیج دیں وہاں جا کر وہ اصلی جہاد میں شریک ہو کر ثواب دارین حاصل کریں۔
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کی فرسٹریشن عروج پر ہے اور اس کے پس پردہ محرکات ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن اس طرح پڑے ہوئے بم کو لات مارنا عقلمندی نہیں ہے۔ رانا ثنا اللہ نے ٹھیک کہا ہے کہ انہوں نے بم کو لات مار دی ہے۔ آپ کو زعم ہے کہ عوام آپ کے ساتھ ہے تو سیاسی تحریک کو مضبوط کریں، حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ آپ کے مطالبات کے سامنے جھکنے پر تیار ہو جائے مگر اس طرح نہیں کہ فوج کو بغاوت پر آمادہ کیا جائے۔ جب آپ کو گود لیا گیا تھا اس وقت بھی آپ نے داڑھی کو نوچنے کی کوشش کی تھی مگر اس وقت آپ کی خطائیں معاف ہو گئی تھیں۔ سول نافرمانی کی کال پر ایکشن نہیں ہوا تھا اور اب تو بغاوت کی کہانی سامنے آ گئی ہے۔ یہ سب کچھ آئسولیشن میں نہیں ہوا اس کے کردار جلد سامنے آ جائیں گے۔ بس تھوڑا سا مزید انتظار۔ اب بھی کچھ بلوں میں گھس کر فوج پر حملے کر رہے ہیں۔ فوج کے خلاف گھات لگا رہے ہیں، انہیں علم ہو کہ فوج کے پاس بھی سوشل میڈیا تک رسائی موجود ہے۔ ایک بھی سرا ہاتھ لگا تو پہنچنے والے ان تک پہنچ جائیں گے۔ 

مصنف کے بارے میں