غلامی پہ رضامند!

غلامی پہ رضامند!

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ ایک اودھم مچا ہوا تھا ملک میں آٹھ ماہ سے۔ پی ٹی آئی کے ماہرین بحرانیات ومخمصہ جات نے پورے ملک کو بحرانوں اور مخمصوں میں الجھا رکھا تھا۔ دھمکیوں کا لامنتہا سلسلہ چلا۔ عمران خان ہر حال اپنی ٹانگ اونچی رکھنا چاہتے تھے۔ پینترے بدل بدل کر سب ہی پر چاند ماری کرتے رہے۔
 ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
 تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں!
 بالآخر ٹانگ اونچی ہوگئی، کرسی پر رکھ بیٹھے۔ آرمی چیف کی تعیناتی سے کچھ افاقہ ہوا تو پلستر اترا، نتیجہ نکل آیا اور لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکلی۔ تاریخیں دے دے کر قوم کو افرا تفریاتِ لامنتہا میں مبتلا رکھا۔ اچانک کنٹینر نکل آتے، سکول، ادارے، کاروبار، دفاتر یکایک بند ہو جاتے، شادیاں، تقریبات منسوخ کرنا پڑتیں۔ پھر اچانک مارچ کی تاریخیں آگے چلی جاتیں۔ جن سیاست بازیوں کو ہم ’یوٹرن‘ کے پردے میں لپیٹتے ہیں وہ فریب، دھوکا اور عہد شکنی ہے۔ حدیث ملاحظہ ہو: ’قیامت کے دن ہر عہد شکنی کرنے والے کیلئے بطور نشانی ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا، جو جتنا بڑا عہد شکن ہوگا اس کا جھنڈا اتنا ہی بلند ہوگا اور کہا جائے گا یہ فلاں کی دھوکا بازی کا جھنڈا ہے۔‘ (مسند احمد)
تآنکہ وہ جو لاکھوں اسلام آباد فتح کرنے آ رہے تھے، جو جمہوری تماشے لگا رکھے تھے، سب ٹائیں ٹائیں فش۔ لانگ مارچ ویری ویری شارٹ مارچ بن کر فدائیوں، سودائیوں کی اک جوئے کم آب پر کہانی ختم ہوگئی، طغیانی جھاگ بن کر بیٹھ گئی البتہ اقتدار کے اس جمہوری کھیل نے قوم (سیلاب اور قرضوں میں ڈوبی) کو کھربوں کا نقصان پہنچایا۔ غربا کا روزگار تباہ کیا۔ یہ کہانی یوں تو قوم کو ازبر ہے۔ دہرا صرف اس لیے رہے ہیں کہ سبھی ذمہ داران، عوام اور پاکستان کے بہی خواہ، ’محکمۂ زراعت‘، عدلیہ سمیت آگے کیلئے کوئی بہتر لائحہ عمل (ان اسباق سے) طے کرسکتے ہیں؟ یا کوئی بھی طالع آزما ٹولہ اٹھے اور معیشت اور ملکی استحکام کو تگنی کا ناچ نچا دے۔ قوم دنیا میں تماشا بن کر رہ جائے۔ ایمان اور اسلام کو یکسر بھلاکر ہم سرابوں کے مسافر بن گئے۔ قرآن نے ہمیں ہر آن رہنمائی دی: ’اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی (رعب ختم ہوجانا)۔ ‘ (الانفال: 46)
دنیا میں ہماری اوقات اور پہچان کشکولی ہوکر رہ گئی ہے اور پھر یہ بھیک دینے والے اور ان کی مزاج داریاں سہتے ہم ان زمینی خداؤں کو راضی کرنے دوڑے پھرتے ہیں۔ ایک کو راضی کرتے ہیں تو دوسرا ناراض! امریکا اور چین کی طرح! ہماری ایمانی شناخت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کا بدترین، قبیح ترین گناہ ہم نے آنے بہانے پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ بنا ڈالا۔ آئین کو کلیتاً نظرانداز کر ڈالا۔ قرارداد مقاصد نے پورے ملک کے نمایندوں اور عوام الناس کی یک زبانی سے یہ طے کرا دیا تھا کہ ریاست پر لازم ہے کہ وہ مسلمانانِ پاکستان کے لیے ایسا ماحول بنائے جس سے وہ اپنی زندگی اسلامی اقدار کے تحت بسر کرسکیں۔ شق 2A-کی رو سے حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ کی ہے۔ یعنی قانون اللہ کا چلے گا۔ بین الاقوامی ادارے شریعت سے متصادم قوانین مسلط نہیں کرسکتے/ حکومت ایسا کوئی دباؤ قبول نہیں کرسکتی۔ شق- 227 اسی کو مزید لاگو کرتی ہے کہ: ’یہاں قرآن وسنت سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔‘ اندازہ کیجیے کہ لالہ لاجپت رائے نے قائداعظم کی موجودگی میں کہا: ’کیا کوئی مسلمان لیڈر بھی ایسا موجود ہے جو قرآن کو پس پشت رکھ کر فیصلے کرسکے؟ کاش میرا اسلامی قانون کا مطالعہ (جو بہت وسیع تھا) جو نتائج دے رہا ہے وہ صحیح نہ ہوں۔ ہندو مسلم اتحاد نہ تو ممکن ہے اور نہ قابلِ عمل۔ 
میرا خیال ہے کہ اسلام ایسی کوشش پر مؤثر روک لگاتا ہے۔‘ یہاں پہنچ کر قائداعظم کا چہرہ ایک اندرونی تاثر سے جگمگا اٹھتا ہے، بنی سنوری مسکراہٹ اور ایک ڈرامائی توقف کے بعد کہتے ہیں: ’میرا خیال ہے کہ لاجپت رائے کا مطالعہ بالکل صحیح ہے۔‘ وہ اسلامی نظام میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ دیکھ رہے تھے، چنانچہ جب انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلامی طرزِ حیات کی تجربہ گاہ ہوگا تو مسلمان (جو انہیں سچا مان چکے تھے) دیوانہ وار اس آواز پر لپک پڑے۔ (سیکولر ازم، مباحث اور مغالطے: از طارق جان) 
یہ ہے پاکستان کا نظریہ، روح اور اس کی اٹھان۔ اس پر ٹرانس جینڈر ایکٹ لازم کرنا اس کی عزت ووقار، عفت وپاکیزگی داغدار کرنے کے مترادف ہے۔ نہایت المناک امر ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر، قرآن وسنت سے (فاضل بینچ کو) ہم آہنگ ہونے کی کوئی دلیل فراہم نہ کرسکے۔ (کہاں سے لاتے!) یورپ کی ’جنسی رجحانات اور صنفی شناخت‘ SOGI پر اسلامی ممالک کی تنظیم نے LBGTQ اور ٹرانس جینڈری کو مسترد کرکے اسے اسلام کے عائلی نظام پر حملہ قرار دیا۔ پاکستان کیا کر رہا ہے؟اور جب سوالات پر آئیں بائیں شائیں کرنے پر ٹوکے گئے تو بول پڑے: ’یہ قانون پاس کرنا ہماری ریاستی مجبوری ہے، کیونکہ ہم نے مختلف بین الاقوامی اداروں اور جی ایس پی پلس کے ساتھ معاہدات کر رکھے ہیں۔ اس سے ریاست کو مالی فوائد ملتے ہیں۔‘ گویا پیسے کے عوض قرآن کے ساتھ واضح معاشرتی احکام وقوانین بیچ دیے گئے۔ قوم کو حرام کھلا رہے ہیں۔ حرام پر پلنے والے کرپٹ نہ ہوںگے تو اور کیا ہوںگے! پاکیزہ حلال مال تھوڑا بھی کفایت کرتا ہے۔ ان عالمی ساہوکاروں کے ہاتھوں عوام بلبلا رہے ہیں۔ بجلی پٹرول کی قیمتیں عوام کی جیبیں پھاڑکر وصول کی جا رہی ہیں۔ بلااستثنا عمران خان ہوں یا کوئی اور، بنیادی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں، ہمیں عالمی ساہوکاروں کے ہاں گروی رکھنے والے ہیں یہ سبھی۔ اپنی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کا، طائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کا… (قرضوں پر خود ظالمانہ فاسقانہ شرائط قبول کرکے جال کے حلقے کستے ہیں۔) طائر لاہوتی، علامہ اقبال والا: تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر، اڑکر افغانستان جا بیٹھا۔ ہم ٹرانس جینڈری میں گرفتار ہوگئے اور وہ مردانہ وار پوری دنیا کی طرف سے عائد کردہ عالمی معاشی سیاسی تنہائی، سکون اور عافیت سے کاٹ رہے ہیں۔ 88 افغانی کا ڈالر، ملک پر اللہ کی مرضی، اس کے قوانین حکمران کرکے، مغرب کو ڈٹ کر دھتکار دیتے ہیں ہر مداخلت پر۔ امریکا، یورپ ان کا پیسہ (اربوں ڈالر) دبائے بیٹھا ہے اور یہ اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں پر کاربند، کامیابی سے سربلند ہوکر اقوام سے معاملات نبھا رہے ہیں۔
چین، پاکستان، ایران، روس کے ساتھ تجارت چل رہی ہے۔ امت کے اعلیٰ مقاصد کی پاسبانی میں مسجد الاقصیٰ کا ماڈل کابل میں ایستادہ کرکے اپنے نظریات پر استقامت کا مظاہرہ کیا۔ (ہم تو ڈرتے کانپتے اپنے ملک سے اپنے ہی ایٹمی میزائلوں کے ماڈل، جو سرمایۂ فخر تھے، ہر جگہ سے اتار بیٹھے!) شہروں کے نظم ونسق میں، کابل سے ریڑھیاں مکمل طور پر ختم کرکے ان کے لیے کیبن بنا دیے۔ شہر صاف ستھرا ، ٹریفک رواں۔ ہمارے ہاں اسلام آباد میں یہ ریڑھیاں چھاپے مارکر اچانک پھل سبزی، انتظامیہ ٹرکوں میں الٹا کر ’غرباء مساکین‘ افسروں کے گھر پہنچاتی ہے۔ روتے دھوتے،غریب ریڑھی بان جرمانے دے کرپھر دوبارہ چھپتے چھپاتے آن موجود ہوتے ہیں۔
ایک موازنہ اپنے خوبصورت شہروں میں بھکاریوں کی یلغار کا بھی کابل ودیگر افغان شہروں سے کر دیکھیے۔ پورے افغانستان (جنگوں سے اجڑا ہوا!) سے دس ہزار آٹھ سو فقیر اکٹھے کیے۔ ان میں سے 4806 پیشہ ور بھکاری تھے جنہیں نظربند کردیا۔ جو حقیقی مجبور ومفلس تھے ان کے لیے سیدنا عمرؓ کے دور کی طرح وظیفے مقرر کردیے۔ (مگر ہمارے تو حکمران بے چارے ریاستی تحائف گھڑیاں، انگوٹھیاں بیچ کر دال روٹی چلاتے ہیں۔ پیچھے ہٹتے ہیں تو اربوں کے اثاثے برآمد ہوتے ہیں۔ یہ نظام ہمیں سازگار نہیں!) پاکستان دراصل عزت ِنفس، قومی شناخت، دین ایمان بیچ کر گزارہ چلا رہا ہے، مکمل غلامی کی کیفیت میں افغانستان کی معاشی ضروریات کم نہیں مگر خودداری، خودمختاری اور دینی شناخت اہم تر ہے۔ سو ڈٹ کر امریکی ریڈیو (VOA)، ریڈیو آزادی، ریڈیو فری یورپ کی نشریات پر پابندی لگاتے ہوئے طالبان کے فارن آفس ترجمان نے واضح کیا: ’ہمارے پریس قوانین کی خلاف ورزی جو بھی کرے گا، اس نیٹ ورک سے رپورٹنگ اور نشریات کا حق لے لیا جائے گا۔‘ افغانستان سے مغربی دنیا کو سب سے بڑی تکلیف عوام کی معاشی بحالی نہیں، خواتین کا سڑکوں بازاروں میں ہر جگہ بے پردہ نظر نہ آنا ہے۔ کیا ہم امریکا یورپ کی شرمناک برہنگی اور LBGTQ جیسے خوفناک اخلاقی جرائم پر انہیں لعن طعن کرسکتے ہیں؟ حالانکہ ان کی عریاں تہذیب پورے گلوب کو تباہ کر رہی ہے! وہ اپنے کام سے کام رکھیں! یہ مقام افغانستان کو 20 سالہ شجاعت، غیرت مردانہ دکھاکر امریکا یورپ کو دھول چٹانے کی بنا پر حاصل ہے۔ رہے ہم! بقول اکبر الہ آبادی: ان کے بوٹ کی ’ٹو‘ چاٹتے ہیں! سو ٹرانس جینڈرایکٹ اور فلم بناتے ہیں حرمتیں توڑکر!
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند