مہنگی سرکار!

مہنگی سرکار!

مہنگائی پر اپوزیشن کے پھس پھسے سے احتجاج سے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ جہاں تک عوام کا معاملہ ہے تو بیس بائیس کروڑ عوام میں سے چند ہزار لوگ بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے یا اپنے احتجاج کو صرف سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ تک محدود رکھتے ہیں۔ اس سے حکمرانوں کو کیا فرق پڑتا ہے؟…ٹی ایل پی کے ساتھ ہونے والے خفیہ معاہدے نے یہ ثابت کر دیا ہے صرف وہی احتجاج اثر کرتا ہے جو سڑکیں بلاک کر کے ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کے اور اسلام آباد دھرنے کی دھمکیاں دے کے کیا جائے۔ لاتوں کے جن بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔اب روز چیزیں مہنگی ہوتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے عوام میں تھوڑی بہت غیرت یا سکت باقی تھی کوئی حکومت سالانہ بجٹ میں کوئی چیز مہنگی کرتی عوام سڑکوں پر نکل آتے۔ مارکیٹیں بند ہو جاتیں۔ پہیہ جام ہڑتالیں ہوتیں۔ اور حکومتیں اپنے عوام دشمن فیصلے واپس لینے پر مجبور ہو جاتیں۔اب جو حالات ہیں ، ہمارا سارا احتجاج سوشل میڈیا تک ہے۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا… پہلے ہمیں صرف شک تھا اب یقین ہو گیا ہے وزیر اعظم اقتدار کا صرف ایک ہی ’’چُوٹا‘‘ لینے آئے ہیں۔ خان صاحب کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش وزیر اعظم بننا تھا جو وہ بن گئے۔ وزیر اعظم بن کر کرنا کیا تھا؟ یہ انہیں وزیر اعظم بننے سے پہلے معلوم تھا ، نہ بعد میں ہو سکا۔ اب اس عہدے سے آگے وہ بھلا کیا سوچ سکتے ہیں؟ سو زیادہ امکان یہی ہے اپنی عمر کا آخری حصہ وہ کسی دربار میں بیٹھ کر گزار دیں گے… ویسے اقتدار کا چسکا قبر میں اترنے کے بعدبھی نہیں جاتا۔ میں نے اکثر قبروں کے کتبوں پر سابق وزیر اعظم ، سابق صدر ، سابق چیف جسٹس اور سابق جنرل وغیرہ لکھا دیکھا ہے۔ ان مرحومین کو اگر ایک بار دوبارہ زندہ ہونے کا موقع مل جائے تو اپنے لواحقین سے ضرور وہ احتجاج کریں گے کہ ان کی قبروں کے کتبوں پر ان کے عہدے کے ساتھ ’’سابق‘‘ کیوں لکھا گیا۔ کچھ حکمران خود کو ’’زمینی خدا‘‘سمجھتے ہیں۔ وہ زمین و آسمان کے خدا کے قہر سے ذرا نہیں ڈرتے۔ اگر ڈرتے ہوتے عوام کی زندگیوں کو اس قدر اجیرن نہ بنا دیتے کہ عوام اب خود کو زندوں میں شمار کرتے ہیں نہ مردوں میں… عوام خصوصاً غریبوں کو چاہئے اب ’’گھاس‘‘ اکٹھی کرنا شروع کر دیں کہ ماضی قریب میں اگر کھانے کو کچھ میسر نہ ہوا کم از کم گھاس کھا کر ہی گزارا وہ کر لیں گے۔ ویسے جو ہمارے عوام کا کردار ہے انہیں کھانی بھی صرف گھاس ہی چاہئے۔… حکمرانوں کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے وہ اپنی طرف سے مہنگائی ختم یا کم کرنے کی جتنی کوششیں کرتے ہیں مہنگائی اتنی بڑھتی جاتی ہے… پچھلے دنوں وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کی خبر آئی ، میرا خیال تھا وہ شاید ’’قوم‘‘ کو ٹی ایل پی سے معاہدہ کی تفصیلات بتائیں گے۔ وہ قوم کو یہ بتائیں گے اس حوالے سے ریاست کے موقف میں نرمی کیوں پیدا ہوئی؟ اس معاملے میں کچھ وزیر مشیر و ترجمان مسلسل جھوٹ کیوں بولتے رہے؟ میرا خیال تھا وہ ٹی ایل پی کو آگے بڑھنے سے روکنے کے عمل میں شہید ہو جانے والے پولیس ملازمین کے لئے کسی خصوصی پیکیج کا اعلان کریں گے۔ وہ یہ اعلان کریں گے کہ وہ عنقریب شہدائے پولیس کے گھروں میں جا کر ان کے لواحقین کو عملی طور پر یہ پیغام دیں گے ان کا وزیر اعظم ،ان کی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے… پر اپنے خطاب میں اس معاملے پر انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ سنا ہے خفیہ معاہدے کی ایک شق یہ بھی تھی جب تک شرائط کو مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا معاہدہ پبلک نہیں کیا جائے گا… بظاہر عوام کے ووٹ لے کر آنے والے اللہ جانے کیوں سب سے ناقابل اعتماد عوام کو ہی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کچھ قوتوں کے ساتھ جو خفیہ معاہدے وہ کرتے ہیں عوام کو ان سے بے خبر رکھنا ہی جمہوریت کی اصل خدمت ہے… البتہ وزیر اعظم نے ’’قوم‘‘ سے اپنے خطاب میں مہنگائی کے خلاف عوام کو ریلیف دینے کا ابھی صرف اعلان ہی کیا مہنگائی اگلے روز مزید بڑھ گئی۔ آدھی رات کو پٹرول کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھا دی گئیں اور اگلی صبح بجلی کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں۔ اس کے علاوہ آٹا ، چھوٹے گوشت ، ٹماٹر ، چاول ، چائے ، صابن اور انڈوں کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں۔ انڈوں کی قیمتیں تو شاید عوام کو سزا دینے کے لئے بڑھائی گئیں۔ وزیر اعظم نے اقتدار میں آتے ہی عوام کو مرغیاں پالنے کا جو مشورہ دیا تھا عوام نے اس پر عمل نہیں کیاتو انڈے مہنگے ہونے کی سزا کے اب وہ پوری طرح حقدار ہیں۔ البتہ جو ’’دیسی مرغیاں‘‘ سرکار نے عوام کو دینی تھیں ان کے بارے میں ضرور سراغ لگنا چاہئے وہ کس کے پیٹ میں اتر گئیں؟… اگلے روز ایک وزیر فرما رہے تھے ہمارے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ غریبوں کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں… یوں محسوس ہوتا ہے ہمارے حکمران ملک سے جان بوجھ کر غربت ختم نہیں کرتے کہ اس کے نتیجے میں اگر غریب نہ رہے ان کے لئے دعائیں کون کرے گا؟۔ غریبوں کو انہوں نے صرف اپنے لئے دعائیں کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے ۔ یا پھر ممکن ہے آبادی کا مسئلہ حل کے لئے رکھا ہو کہ چلیں بھوک سے تنگ آ کر غریب اگر بڑی تعداد میں خودکشتیاں کرنے لگیں اس سے ظاہر ہے آبادی میں کمی واقع ہو جائے گی جس پر سرکاریہ دعویٰ کر سکے گی اپنے اقتدار میں انہوں نے کم از کم ایک بڑا مسئلہ ضرور حل کیا جو آبادی کا تھا… مؤرخ لکھے گا پاکستان میں ایسے حکمران بھی آئے تھے جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر گلیوں بازاروں محلوں میں نکل کر دیکھتے تھے کہیں کوئی غریب کھانا کھا کے تو نہیں سویا؟؟ اب چینی کے بحران میں بھی شدت آ گئی ہے جس سے نمٹنے کے لئے موجودہ نااہل حکمرانوں کو چاہئے فوری طور پر یہ پالیسی جای کر دیں۔ ’’چینی کی جگہ لوگ نمک استعمال کریں‘‘… ترجمانوں کو اس مسئلے پر کوئی بیان نہیں سوجھ رہا میں ان کی مشکل آسان کر دیتا ہوں۔ وہ یہ کہیں کہ یہ بحران عوام کے مفاد میں ہے۔ ملک میں چونکہ شوگر کے مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی تھی جس سے نمٹنے کا ہمارے پاس بہترین حل یہ تھا مارکیٹ سے چینی غائب کرنے والوں کی خفیہ سرپرستی کی جائے… صابن مہنگا ہونے کا جواز یہ پیش کیا جا سکتا ہے سردیوں میں چونکہ عوام کو پسینہ نہیں آتا لہٰذا وہ بغیر صابن کے بھی نہا دھو سکتے ہیں۔ کوروناویسے ہی ختم ہو گیا ہے صابن سے ہاتھ دھونے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔پٹرول مہنگا کرنے کا جواز یہ تراشا جا سکتا ہے ہمارے عوام چونکہ پیدل چلنا بھول چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ مسلسل مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں تو سرکار صرف اور صرف عوام کو صحت مند رکھنے کے لئے پٹرول مسلسل مہنگا کر رہی ہے۔ لہٰذا جب تک ہمارے ملک کے تمام بیمار مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو جاتے پٹرول مہنگا ہوتا رہے گا۔ سب سے زیادہ مشکل ترجمانوں کو یہ درپیش ہے عوام کی زندگیاں اتنی اجیرن کرنے کے بعد اپنی حکومت قائم رکھنے کا کیا جواز وہ پیش کریں؟؟؟