روزہ روح کی غذا

روزہ روح کی غذا

رمضان المبارک کی آمد دنیا بھر کے مسلمانوں اور بالخصوص مسلم ممالک و معاشروں میں نعمت و رحمت کا درجہ رکھتی ہے۔ قرآن عظیم اور احادیث میں روزے کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے اس سے ہر مسلمان واقف ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلی قوموں پر تاکہ تم متقی ہو جائو اور حدیث مبارکہ ہے کہ روزہ ڈھال ہے گویا روزہ تزکیہ نفس کی کنجی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو خالص اپنے لیے مخصوص عبادت قرار دیا۔
روزہ ایسی عبادت ہے جو صحت و احساس کے حوالے سے تو افادیت رکھتا ہی ہے لیکن روحانیت اور ایمان کے حوالہ سے ایک لاجواب پرکھ ہے۔ ایمان کی یہ ایسی پرکھ ہے کہ شاید اس لحاظ سے کوئی دوسری عبادت اس کے ہم پلہ نہ ہو۔ روزہ دراصل روح کی غذا ہے۔ روزہ دار کی وضو کے دوران یا ویسے ہی کلی کرتے وقت کوشش ہوتی ہے کہ پانی کا قطرہ تو درکنار پانی کی ٹھنڈک تک اس کے حلق کو محسوس نہ ہو جائے اگر غسل کر رہا ہے تو منہ بند کر لے گا کہ پانی کا کوئی آوارہ قطرہ اس کے منہ اور حلق میں نہ چلا جائے۔ تنہائی کا عالم ہو، بھوک سے نڈھال ہو اور شدت کی پیاس بھی لیکن اناج کا ایک دانہ اور کسی بھی مشروب کا ایک قطرہ چاہے زم زم کا ہو کا استعمال ماورائے خیال ہے۔ اللہ رب العزت کی موجودگی کا یقین اس کے دیکھنے، جاننے اور موجود ہونے کا احساس روزہ سے بڑھ کر کسی عبادت یا انسانی کیفیت میں نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی اور اس پر ایمان لانے کا نقطہ کمال ہے۔
جہاں تک مقبولیت اور روزہ دار کی شخصیت پر اثرات کا تعلق ہے کوئی بھی عمل یا عبادت اگر انسانی زندگی پر اثرات نہ چھوڑے تو وہ عمل محض مشقت ہے جیسے حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا
تے کی لینا علم نوں پڑھ کے
تسبیح پھیری تے دل نہ پھریا
کی لینا تسبیح پھڑ کے ہو
روزہ نام ہے صبر کا، استقامت کا، خودی، خودداری، ایثار، نفسانی خواہشات کی نفی اور تقویٰ کا اگر یہ صفات و برکات روزہ دار کی شخصیت کا حصہ نہیں تو وہ روزہ نہیں فاقہ ہے۔ 
’’روزہ رکھیا تے صبر نہ سکھیا کی لینا روزہ رکھ کے۔‘‘
دیکھا گیا ہے کہ رمضان کی آمد سے پہلے بڑے بڑے نامور روزہ باز ایک دن پہلے زکوٰۃ کٹنے کے ڈر سے بینک سے رقم نکلوا لیں گے فارم بھر بھر کے دیں گے دوسری جانب لوئر مڈل کلاس اور اچھے بھلے لوگ باقاعدہ بھکاری بن جاتے ہیں۔ ایسے ایسے رمضان اور روزہ فروش عیاں ہوتے ہیں الایمان الحفیظ جبکہ 
مجموعی طور پر گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، چڑچڑا پن، عجلت، بے صبری، بے اطمینانی ہماری معاشرتی پہچان بن جاتی ہے کاروباری حوالہ سے یہ صورت حال ہے کہ پیسے کا لین دین کرنے والا ایک سیکنڈ میں رمضان کے بعد کا وعدہ کرے گا، کوئی سماجی کام ہے کوئی کاروباری معاملہ ہے سب رمضان کے بعد گویا بعض لوگوں کے لیے پورا مہینہ ایک وعدے کا بہانہ مہیا کر دیتا ہے اور یوں روزہ ڈھال کی بجائے ان لوگوں کے لیے ہتھیار کا کام کرتا ہے۔
صبر و تقویٰ کا یہ عالم ہے کہ سحری کے وقت بعض لوگوں کو کھاتے دیکھ لیں تو شبہ ہوتا ہے کہ شاید کرفیو لگنے والا ہے اور کئی دن کھانے پینے کی اشیاء دستیاب نہ ہوں گی حتیٰ کہ فجر کی نمازکے رکوع و سجود میں دشواری محسوس کریں گے سجدے میں کھایا پیا منہ کو آنے لگتا ہے کہا گیا ہے کہ روزہ دار کا ہر عمل عبادت ہے لیکن عمل اور حرکت میں فرق ہے لہٰذا ہر حرکت اچھے عمل کے زمرے میں نہیں آتی مگر ہم نے سمجھا کہ ملاں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ روزہ دار کی ہر حرکت عبادت ہے بس پھر سارا دن جس کا جو بھی کام ہے سرکاری نوکری ہے یا پرائیویٹ کاروبار ہے یا کوئی ایسی نوع کی مصروفیت سوائے دہاڑی دار مزدور یا پرائیویٹ ملازم کے سب جسمانی طور پر ساقط اور بوجھل رہیں گے جیسے پتے کا اپریشن کروایا ہو کبھی چل پھر کر کوئی کام یا کوئی مشقت کرنی پڑ گئی تو گویا بدن ہی شیشے کا ہے روزہ میں کوئی جسمانی مشقت اور محنت کر لی تو بدن ٹوٹ جائے گا، گفتگو میں پرہیز گاری ہو نہ ہو ایک قسم نما فقرے کا اضافہ ہو جاتا ہے سارا دن اپنی بات پر یقین دلوانے کے لیے ’’یار میں روزے سے ہوں‘‘ جھوٹ نہیں بول رہا، منہ ’’میں‘‘ روزہ ہے بات یوں نہیں یوں تھی۔ اور اگر افطاری کے دوران گفتگو جاری ہے تو ’’سامنے رزق ہے‘‘ معاملہ یوں نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ایسا رمضان کلچر متعارف ہوا کہ سارے دن کے جھوٹ سچ کے بعد وقت افطار کی آمد ہے گویا قیامت کا سماں ہو کہ سڑکوں پر ہر ٹرانسپورٹ ہی ایمبولینس، فائر بریگیڈ یا پولیس کی ایمرجنسی سروس بنی ہوتی ہے سڑکوں گلیوں بازاروں پر افطار کی گھڑی جیسے عذاب بن کر نازل ہو رہی ہو حالانکہ دعائوں کے مقبول ہونے کا وقت کہا گیا ہے مگر جو بھی ٹرانسپورٹ ہے رکشہ، موٹرسائیکل، کار، سائیکل حتیٰ کہ پیدل لوگ عجیب بے ہنگم اور طوفان بدتمیزی، بے لحاظی، بے صبری کے ساتھ رواں ہیں۔ عجیب خلاف تہذیب رویے کا اظہار دیکھنے میں آیا ہے جو کہ اسلامی تمدن کے برعکس ہوتا ہے ایک دوسرے کو گھورتے کاٹتے چہرے بگاڑتے چنگھاڑتے اور ٹکراتے ہوئے مسلمان۔ اشیائے افطار کی خریداری ہے تو ایک دوسرے کے پائوں کچلتے ہوئے، چٹنیوں کے لفافے اور سموسوں کے شاپر دوسروں کے چہروں سے ٹکراتے ہوئے، کہنیوں سے ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے، لتاڑتے ہوئے ایسا منظر پیش کرتے ہیں گویا زندگی بچانے والی دوائی لے رہے ہیں وہ بھی کسی معصوم بچے کے لیے۔ ایسا منظر جیسے کبھی عروج کے زمانہ میں سپرہٹ ہونے والی فلم کے لیے بکنگ سے پیشہ ور ماہر بکنگ سے ٹکٹ لے کر آ رہے ہوں۔ اب فون پر آرڈر کرنے کا رواج بھی عام ہے۔
دوسری طرف دھیان پلٹتا ہے حکمران طبقوں، بیورو کریسی اور مجموعی کردار کی طرف کہ یہ تو صرف 13/14 گھنٹوں کا روزہ ہے جس میں بمشکل 4/3 گھنٹے کی بھوک ہے تو دھکم پیل، افراتفری، ایمان کشی، بے صبری، بسیار خوری اور وحشیانہ رویوں کا یہ عالم ہے جب کہ یہ سوسائٹی جو صدیوں کی بھوک کا شکار ہے موقعہ ملنے پر رشوت، لوٹ کھسوٹ، چھینا جھپٹی، مار دھاڑ، احتجاج، تنقید، بحث و تکرار کے علاوہ کسی اور رویے کا مظاہرہ کیونکر کر سکتی ہے۔
جن لوگوں کو کرسمس، ایسٹر اور نیو ایئر میں یورپ امریکہ اور رمضان میں عرب ریاستوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ بخوبی واقف ہوں گے کہ ان تہواروں اور موقع پر وہاں کا تاجر اور کاروباری طبقہ کھانے پینے پہننے اور تمام استعمال کی اشیاء کی قیمت آدھی کر دیتے ہیں۔ جو عام دنوں میں نہ لے سکیں نہ کھا سکیں وہ ان خصوصی تہواروں میں حاصل کر سکیں۔ میں نے بھی کچھ عرصہ امریکہ میں گزارا اس عمل کا چشم دید گواہ ہوں 25 دسمبر اور نئے سال کی آمد پر اشیاء حیرت انگیز حد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ مگر وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو نہیں بکتا وہ رمضان میں بک جائے گا زائد المعیاد بھی روزہ داروں کے معدوں میں اتار دی جائیں گی۔ مہنگائی، ملاوٹ، گراں فروشی پوری بے دردی بے لحاظی اور بے شرمی کے ساتھ اپنے عروج پر ہوتی ہے پھر امید رکھتے ہیں کہ خالق ان پر مہربان ہو جو مخلوق کی زندگی کو سزا میں بدل رہے ہیں۔
اگر روزہ جیسی بے مثال عبادت کے کسی فرد یا ہم پر من حیث القوم یہی اثرات ہیں تو پھر عبادت کا مقبول ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ افطاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا بہت ذکر ہوتا ہے کہ روزہ پانی، کھجور، نمک سے افطار کرتے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ائمہ کریمین تو پانی، پیالہ دودھ، چند کھجوروں پر ہی اکتفاء کرتے ہوں گے ہمارے ہاں تو افطاری فوڈ فیسٹیول بن چکی کم از کم اب کی بار مہنگائی میں سفید پوش اور وضع دار لوگوں کی طرف نظر ڈالیں اور ضرورت سے زیادہ ان اجڑے ہوئے بے آسرا لوگوں کو بھجوا دیں اور اپنی افطاری کو محدود کرتے ہوئے بے روزگاروں کے ساتھ اظہار کرنا چاہیے تاکہ روزہ ہمیں متقی کر دے نہ کہ ملت کا مقروض اور ہماری روح کی غذا بنے نہ کہ بسیار خوری کی پہچان۔

مصنف کے بارے میں