جب عوام جاگ جائیں تو پھر سوتے نہیں

جب عوام جاگ جائیں تو پھر سوتے نہیں

ہمارے حکمران ہمیں کیوں اذیتیں دے رہے ہیں؟ یہ اذیتیں ہی تو ہیں کہ ہم عوام کی پہنچ سے  کھانے پینے کی تمام چیزیں دور بہت دور ہو چکی ہیں۔ یہی نہیں ادویات تک بھی رسائی مشکل ہو گئی ہے دیگر اشیاء کی قیمتوں کو بھی آگ لگ چکی ہے غرض آپ جس چیز کو بھی ہاتھ لگائیں گویا وہ چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا دے گی۔
اس صورت حال سے ہر غریب سخت پریشان ہے اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ جئے تو کیسے؟
 حکمران ہیں کہ انہیں کسی کی ذرا بھر پروا نہیں وہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں انہیں کھانے بھی مہنگے  میسر ہیں ان کی رہائشیں بھی شاہانہ ہیں اور علاج کی سہولتیں جدید ترین دستیاب ہیں۔ یعنی وہ ہر نوع کی فکر سے آزاد ہیں ہاں البتہ انہیں اقتدار کی فکر ضرور ہے کہ وہ تاحیات مل جائے۔ ہر طرف ان کا حکم چلے وہ سیاہ کریں یا سفید کوئی انہیں نہ پوچھے ویسے کوئی پوچھ بھی لے تو کیا ہو گا۔ یہاں کچھ ہوا‘ نہ ہوگا۔
یہ سیاسی منظر عوام کو ہر لمحہ تکلیف میں مبتلا کر رہا ہے وہ ہر شے کو ترس رہے ہیں اس کی خواہش کریں تو خزانہ خالی ہونے کا بتایا جاتا ہے الٹا انہیں ڈرایا بھی جاتا ہے کہ اگر وہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیتے تو ملک میں خو فناک معاشی بحران جنم لے گا جس سے وہ (عوام) چند نوالوں تک محدود ہو جائیں گے۔ ان کا حال بد حال ہو جائے گا یہ کہ ہاہا کار مچ جائے گی۔ 
ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جناب عالی! آپ نے جو قرضہ لیا وہ عوام پر ہی خرچ ہوا کیا؟ وہ ذرا کھاتے کھو لیں اور غیر جانبدار حساب کتاب کرنے والوں کے سامنے رکھیں پھر انہیں معلوم ہوگا کہ عوام پر صرف تیس فیصد خرچ ہوا بقیہ وہ خود اور ان کے چیلے ہڑپ کر گئے تو عوام کیوں قرضوں کا بو جھ برداشت کریں انہیں بتایا جائے کہ تمھارے پاس اربوں کھربوں کی جائیداد یں کہاں سے آئیں کیسے آئیں؟ 
مگر وہ نہیں بتاتے، بتائیں بھی تو گول مول جواب دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ چلئے کوئی نہیں بھی پوچھتا تو ہر کسی کو نظر تو آ رہا ہے۔ عوام پچھتر برس سے مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ جو پیدل تھے آج جہازوں کے مالک ہیں جن کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی وہ کھرب پتی ہیں۔ باہر کے ملکوں میں 
بڑی بڑی جائیدادیں بنا لی ہیں ان کی اولادیں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہی ہیں ویسے عوام بھی عجیب ہیں کہ پھر ان سے ہی امید وفا باندھے ہوئے ہیں  ان ہی سے اپنا مستقبل روشن دیکھنے کے خواہاں ہیں مگر انہیں کسی سے کوئی ہمدردی نہیں اب تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب لوگوں کی حالت ابتر ہے ان پر آئی ایم ایف کی شرائط من وعن ٹھونسی جا رہی ہیں ان میں اتنی جرات و استعداد نہیں کہ آئی ایم ایف سے کوئی ”عوام دوست“ مطالبہ کر سکیں۔ آئی ایم ایف بھی غیر عوامی ہے کہ وہ کبھی بھی حکمران طبقہ سے حساب نہیں مانگتا ان کے اثاثوں بارے معلومات طلب نہیں کرتا۔ ایک خبر کے مطابق اس نے افسر شاہی کے اثاثوں سے متعلق پوچھا ہے بس پوچھا ہی ہے اصرار نہیں کرے گا کیونکہ اسے حکمرانوں اور ان کے ہمنواؤں سے خاص محبت ہے لہٰذا یہ عوام کی آنکھوں میں محض دھول جھونکنا ہے کہ اب آئی ایم ایف سب سے پوچھے گا کہ وہ جو قرضہ دیتا ہے وہ کہاں پر صرف ہوتا ہے یہ کہ اسے عوام کی فلاح و بہود کا بڑا خیال ہے جبکہ یہ طے ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے عوام کو زیادہ سے زیادہ مشکلات کا شکار رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اسی میں ان کے مفاد کا تحفظ ہے یعنی عوام جب پریشان ہوتے ہیں تو وہ اس نظام کے لئے جدو جہد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جو انہیں روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرتا ہو انہیں روزگار اور انصاف کی دہلیز تک لے جاتا ہو۔ پھر وہ نظام سرمایہ داری کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہو جس سے عالمی طاقتیں مفلوج ہو کر رہ جاتی ہوں لہٰذا آئی ایم ایف عوام کا نہیں حکمرانوں کا طرف دار ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے وہ اپنے سفاک نظام کو محفوظ بناتا ہے اپنی تجوریاں بھرتا ہے اور عوام کو تعلیم بناتا ہے۔
بہرحال افسوس یہ ہے کہ ہمارے حکمر ان کبھی بھی اس سے آزادی کے لیے متحرک نہیں دیکھے گئے۔ انہیں اقتدار سے چمٹے رہنے کا  شوق ستاتا رہا ہے اگر وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہوتے تو انہیں عوام کو ساتھ لے کر چلنا تھا ان کی امنگوں کو ملحوظ خاطر رکھنا تھا مگر انہوں نے ان کی تابعداری کو ضروری نہیں سمجھا لہٰذا آج وہ خود بھی پریشان ہیں اور عوام بھی …… ہاں مگر اگر اب بھی وہ اپنے طرز عمل اور طرز فکر میں تبدیلی لے آتے ہیں تو پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وطن عز یز میں دودھ کی نہریں بہہ نکلیں گی مگر شاید ان میں حوصلہ نہیں لہٰذا عوام کی  ہر خواہش ادھوری ہے ہر چہرہ مرجھایا ہوا ہے۔ انصاف بک رہا ہے۔ کوئی داد نہ فریاد۔زندگی سسک کر رہ گئی ہے۔ خوشحالی کی طرف جانے والا راستہ کانٹوں سے اٹ گیا ہے ہر با اختیار دولت کا پجاری ہے اسے بلکتے بچے نظر نہیں آ رہے۔ وعدے بہت کیے جاتے ہیں خوابوں کی تکمیل کے‘ مگر پورے نہیں کیے جاتے گونگلوؤں سے فقط مٹی جھاڑی جاتی ہے شاید اس منظر کے پیش نظر ہی وہ عمران خان سے اچھے دنوں کی آس لگا بیٹھے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں عوامی فلاحی اقدامات کیوں نہیں کر سکے۔ اس کے جواب میں وہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں کچھ کرنے ہی نہیں دیا گیا ہاتھ پاؤں ان کے بندھے تھے تو پھر وہ اقتدار سے کیوں لپٹے رہے۔ اب ان کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ ہے جس سے ملک کو تمام مسائل سے نجات مل جائے گی۔ ایسا نہیں ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ عام انتخا بات کا مطالبہ ضرور کریں مگر وہ یہ بھی لوگوں کو بتائیں کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ یہ یہ کریں گے خیر ابھی تو انتخابات  ہوتے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ حکومت کو یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر تین چار ماہ تک انتخابات ہوتے ہیں تو وہ مطلوبہ نشستیں نہیں جیت سکے گی لہٰذا اس کی کوشش ہے کہ ابھی انتخابات نہ ہوں مگر یہ اس کی کم فہمی ہے جب بھی انتخابات ہوئے پی ٹی آئی ہی جیتے گی کیونکہ عوام جو اس سے جڑ چکے ہیں وہ کسی صورت کسی دوسری جماعت کے صندوق نہیں بھریں گے۔ عمران خان ان کے دل و دماغ پر چھا چکا ہے۔ اس کا لہجہ اور اس کا عوامی انداز لوگوں کو بھا گیا ہے پھر اس کی زندگی کے بعض اصول جو کسی لیڈر میں ہوتے ہیں عوام کی توجہ کھینچ چکے ہیں لہٰذا پی ٹی آئی کو صاف شفاف انتخابات کے انعقاد سے شکست دینا مشکل ہے۔ 
حرف آخر یہ کہ ملک کی موجودہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔ قانون سہم کر رہ گیا ہے۔ ہر سینہ زور اپنی منوا رہا ہے۔ غنڈے‘ بدمعاش‘ ذخیرہ اندوز، قبضہ گیر‘ مہنگائی مافیا‘پولیس‘ پٹوار خانے کمزور عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ انہیں روکنے اور ملک کو خوشحالی کی منزل تک پہنچانے کے لیے فریقین کا مل کر بیٹھنا اشد ضروری ہے۔