امام سے گفتگو اور بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس

امام سے گفتگو اور بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس

جناب خواجہ جمشید امام بٹ جن کے اجداد 1800 میں کشمیر سے ہجرت کرکے گوجرانولہ قلعہ دیدار سنگھ پھر محلہ بھتے والا و دیگر علاقوں میں قیام پذیر ہوئے۔ 1900 میں لاہور آ گئے۔ بنیادی طور پر پہلوان گھرانے کے سپوت ہیں۔ یونس پہلوان ستارہ پاکستان کے پھوپھا اور بلا پہلوان ٹرکوں والا بھی بزرگوں میں سے تھے۔ جو دنگل بھی لڑتے رہے، اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔ مگر خوش آئند حیرت ہے کہ صاحب اسلوب کالم نگار، دانشور، سیکروں کتابوں پر محیط لائبریری بھی رکھتے ہیں جو ان کو حفظ ہیں۔ نظریاتی سیاست کرتے ہیں۔ دوستوں کے دوست، غریب پرور، شرافت، جرأت، دوست نوازی اور نباہ کرنے کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک مرنجان مرنج شخصیت جن سے گفتگو کر کے میں نے ہمیشہ سیکھا ہے۔ بہت دنوں سے خواہش تھی کہ ان سے بات ہو۔ میری کوشش سے رابطہ ہوا، بہت دفعہ سیاسی مقدمات میں جیل بھی گئے جہاں یہ سپرنٹنڈنٹ جیل گلزار احمد بٹ (گلزار بھائی) کے مہمان رہے۔ انہوں نے مجھے میرے یوٹیوب چینل کے حوالے سے کافی رہنمائی فرمائی۔ علمی سیاسی گفتگو ہوئی، جو میری اصلاح کا سبب تھی۔ اس میں ایک بات سرفہرست تھی کہ خواجہ جمشید امام نباہ میں جان بھی چلی جائے، مڑ کے نہیں دیکھتے۔ علیم خان جب گرفتار ہوئے تو علیم خان رہائی کمیٹی بنائی، اب خواجہ صاحب کو معلوم تھا کہ میں عمران نیازی کے بارے میں حقیقی خیالات رکھتا ہوں۔ حکم ہوا کہ آپ کا نام علیم خان رہائی کمیٹی میں ڈالنے لگا ہوں۔ میں نے اپنے لیے آنر سمجھا کہ خواجہ صاحب نے مان کیا اور میں نے مان رکھا۔ خواجہ صاحب ایک زیرک، خوش گفتار، خوش پوش، خوش خوراک اور دوست نواز آدمی ہیں۔ سیاسی حوالے سے ان کی سوچ الگ ہو سکتی ہے لیکن سری نگر پہلگام سے ان کے اور میرے محسنوں کا سفر ایک ہی ہے۔ سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے بلاول بھٹو کے عوامی مارچ اور گزشتہ روز پریس کانفرنس کے حوالے سے مثبت رائے دی۔
اب آتے ہیں بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس کی طرف ان کو عمران خان کی بدزبانی، اخلاق، تمدن، تہذیب کا منہ چڑھاتی ہوئی تقریروں اور بیانات معیار سے گرے ہوئے الفاظ کا جواب دینے کے لیے بڑی کوشش کر کے عمران نیازی کو کبھی کبھار تُو تُو کہہ کے پکارا ورنہ اپنی سیاسی تربیت کے حوالے سے آپ ہی کہتے رہے۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں جن شہدا کے نام اور اپنے بدن میں دوڑنے والے خون کی یاد دہانی کرائی۔ ان میں گریٹ بھٹو صاحب، محترمہ بی بی شہید، میر مرتضیٰ بھٹو، سر شاہ نواز بھٹو کے علاوہ لمبی ترین مگر مسکرا کر جیل کاٹنے والے جناب آصف علی زرداری کا ذکر خاص طور پر کیا۔ جس کا مقصد متعلقہ لوگوں کو بتانا تھا کہ میں کون ہوں۔ ان کی آنکھوں کے رنگ، الفاظ، باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات سمجھنے والوں کے لیے بہت سے پیغام رکھتے ہیں۔
بہت سال پہلے عمران خان کے گھر میں اپنے والد صاحب اور گوجرانوالہ کے حاجی گلو کے ساتھ آیا۔ جنرل نیازی سقوط ڈھاکہ والے کی تصویر ڈرائنگ روم میں لگی ہوئی تھی وہ عمران احمد نیازی وزیراعظم پاکستان کے انکل تھے۔ نام نہیں لکھوں گا قلم نجس ہو جائے گا۔ اگلے روز ایک ترجمان گریٹ بھٹو کو ملک توڑنے کی سزا کا مطالبہ کر رہا تھا، کوئی شرم ہوتی تو ایسی بات نہ کرتا۔ اس کی پارٹی کا اسد عمر جو اس کو پارٹی میں لایا کے والد محترم حمود الرحمن کمیشن میں جنرل عمرذمہ داران میں تھے، وہ نظر بند بھی رہے۔ حمود الرحمن کمیشن کو عام کرنے کا مطالبہ عمران خان بھی کرتے رہے مگر اب نہیں کرتے کیونکہ کام انھوں کا ہی تھا۔ گریٹ بھٹو نے تو سر توڑ کوشش کی کہ ملک دولخت نہ ہو۔ جو مجیب الرحمن کے چھ نکات جانتے ہیں وہ جانتے ہیں ایوب، یحییٰ، جنرل عمر، جنرل نیازی اور دیگر کا کیا کردار تھا۔ یہ بات دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو غریب آدمی کی حمایت کرنے، بے زبان انسانوں کی زبان بننے، تعلیم مفت اور عام کرنے، سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں کے جال بچھانے اور ختم نبوت کا حتمی بل پاس کرنے کی دشمنی میں آج تک معاف نہیں کیا گیا۔ یہ کالم علم، احساس، حب الوطنی، حمیت اور غیرت والوں کے لیے ہے جو ان ’’نقائص‘‘ سے مبرا ہیں وہ غصہ نہ کریں خاموشی سے دہی کے ساتھ روٹی کھائے جائیں۔ بلاول بھٹو مریم نواز ہی اس ملک کی حقیقی آواز بن چکے ہیں۔ رہی بات باریوں کی تو ملک میں شروع سے ہی باریاں لگی ہیں، آمریت، پیپلز پارٹی، پیپلز پارٹی مخالف، آمریت۔ یہ جتنی سیاسی قوتیں جن میں ایک عسکری ہے حکومت میں رہی ہیں۔ ویسے سیاسی جماعتیں تو بدنام ہی ہوئی ہیں اب جو دور، اپنے دردناک، عبرتناک انجام کو پہنچنے کو ہے، کو بھی تاریخ ہائبرڈ نہیں آمریت کے دور سے ہی منسوب کرے گی۔ 
گزشتہ روز پارلیمنٹ لاجز میں حکومت نے پولیس کے ذریعے جس لاقانونیت کا مظاہرہ کیا ہے یہ اپنی مثال آپ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بھٹو کے خلاف جب سیاسی تحریک، تحریک نظام مصطفی میں بدل دی گئی تو ان کو مشورہ دیا گیا کہ پیپلزپارٹی کے جیالوں سے بھی جلسے جلوس نکالنے کی پالیسی اپنائیں تو گریٹ بھٹو نے کہا کہ نہیں میں ملک میں خانہ جنگی نہیں چاہتا۔ عمران خان کی تقریریں، دھمکیاں تو پہلے ہی قابل تعزیر ہیں۔ شیخ رشید کو اپنی تقریر یاد نہیں، گرا دو، جلا دو، آگ لگا دو، تباہ کر دو، جیسے کسی دشمن ملک میں داخل ہوا ہے۔ وزیراعظم اقتدار کی خاطر ملک کو داؤ پر لگائے جا رہے ہیں۔ ان کے ترجمان ہونے کا معیار ہی دشنام طرازی ہے۔ بلاول بھٹو نے خاتون اول اور علیمہ خان کی بابت جو بات کی ہے وہ دراصل اس کا ادھورا جواب ہے۔ وہ بھی ان کی تربیت کی بدولت لحاظ رکھ گئے ورنہ پی ٹی آئی کی زبان بولتے تو عمران خان کو لگ پتہ جاتا۔ 126 دن دھرنے میں اور تقریباً چار سالہ اقتدار میں سوائے گالی، الزام، دشنام طرازی، تمدن کی بربادی، کرپشن کے علاوہ حکمران جتھے کے کھاتے میں کچھ نہیں ہے۔ پاکستان نے یہ دن بھی دیکھنا تھے، خارجہ پالیسی جلسوں، داخلہ پالیسی بیرون ملک دوروں میں زیر بحث لائی جاتی ہے۔ عمران خان تحریک عدم اعتماد میں سمجھتے ہیں عوام نے ووٹ دینے ہیں ان کو کوئی سمجھائے کہ یہ ووٹ اراکین قومی اسمبلی نے دینے ہیں۔ بلاول بھٹو کے عوامی مارچ، زرداری صاحب کی سیاست اور نواز شریف کے متوقع وار نے حکمران جتھے کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو کی محتاط تقریر کو سمجھنا چاہیے ورنہ بہت نقصان ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو چکی ہے تبدیلی آ چکی ہے، یہی سبب ہے کہ حکمران ٹولے کے بوکھلاہٹ سے ہانپے چلے جانے کا۔

مصنف کے بارے میں