امن کے آثار

امن کے آثار

یوکرین کے چار علاقوں کا روس سے الحاق ایسا معاملہ ہے جسے چندایک ممالک کے سوادنیا کا کوئی اورملک قبول کرنے پر تیار نہیں حالانکہ یہ علاقے بظاہر جیسا بھی ہے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں یوکرین سے الگ ہو کر روس میں ضم ہوئے ہیں مگر یوکرین اس پر طیش میں ہے اور اِس فیصلے کو قبول کرنے سے انکاری ہے قبول کرنے سے انکارکے سوا کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ اُس کے حمایتی ممالک کے سربراہان امریکی صدر جو بائیڈن اور جرمن چانسلر اولاف شولز نے ردِ عمل میں روس کا مواخذہ کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن ایسا کیسے ہوگا طریقہ کار طے نہیں کر سکے جس سے صاف ظاہر ہے کہ لڑائی کو طول دینے کے متمنی ہیں جس سے خدشہ ہے کہ یوکرین کے حمایتی ممالک اپنے ڈھیلے ڈھالے ردِ عمل سے روس کو جنگ میں زیادہ دیر الجھائے رکھنے کا مقصدتوممکن ہے حاصل کرلیں مگر تباہ کُن حملے شایدنہ روک پائیں امریکہ،برطانیہ،فرانس اور جرمنی کی طرف سے ہتھیاروں کی بھاری کھیپ ملنے سے یوکرین کوکسی حد تک اپنادفاع کرنے کے علاوہ چند علاقوں میں جزوی کامیابیاں ملی ہیں مگراب بھی روس کوقابلِ ذکر نقصان پہنچانے سے باز رکھنے کی کیفیت میں نہیں پھربھی یہ بہت اہم ہے کہ وہ حملہ آور کی پیش قدمی کی راہیں کسی حدتک مسدود کرنے لگاہے جو بھی ہے لیکن اِسے کسی طور کامیابی نہیں کہہ سکتے بلکہ بیرونی طاقتوں کی ایما پر امن کی راہ پر آنے سے گریز دراصل اپنے شہریوں اور املاک کو روس کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے بہتر یہی ہے کہ یوکرینی قیادت اور عالمی طاقتیں جتنا جلد ہو سکے  مل کرخطے میں جاری تباہی کو روکنے کے لیے کام کریں اور مذموم مقاصد حاصل کرنے کے بجائے امن کے یک نکاتی ایجنڈاکوترجیح دیں تاکہ انسانی جانوں کو لاحق خطرات حقیقت نہ بن سکیں۔
ریفرنڈم کے ذریعے روس سے الحاق کرنے والے چاروں علاقوں میں روس النسل کے لوگوں کی اکثریت ہے یہ تین دہائیوں سے یوکرینی حکام کے ظلم کا شکار ہیں اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ اگریوکرین پر روس کا موجودہ حملہ بلاجواز ہے تو یوکرینی حکام کے پاس بھی اپنے شہریوں کی نسل کشی کا کوئی جواز نہیں ہردوصورتوں کو غلط کہنا ہی اصولی بات ہے مگر کچھ عالمی طاقتوں نے روس کو نیچا دکھانے کے لیے یوکرین کے اقدامات سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی جس سے نہ صرف یوکرین کو مزید ظلم و جبر روا رکھنے کا حوصلہ ہوابلکہ روس کو بھی حملے کا جوا ز مل گیادراصل عالمی ذرائع  ابلاغ میں ایسی افواہوں کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ شاید روس 1922کی طرح پندرہ کمیونسٹ ریاستوں کا دوبارہ اتحاد قائم کرنا چاہتا ہے یہ اتحاد1991میں ٹوٹ گیا تھا اور کئی ریاستوں نے علیحدگی اختیار کرلی ایسی افواہیں پھیلانے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق امریکہ اور مغرب سے ہے مگراب ثابت ہوگیا ہے کہ مذکورہ افواہوں میں قطعی کوئی صداقت نہیں کیونکہ یہ تو سامنے کی بات ہے کہ خطے میں روسی اثر کے باوجود اب علیحدگی اختیار کرنے والی کوئی ایک بھی ریاست اپنی آزادی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں بلکہ حملے کی وجہ نیٹو کی مشرقی یورپ 
کی طرف توسیع بنی ہے تو پھر کیوں ایک غلط تھیوری عوام کے کانوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی گئی؟ ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ روس ماضی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کیونکہ امریکہ کی طرح ایک عظیم طاقت رہ چکا ہے اِس لیے امریکی فکر مند ہیں کہ روس معاشی اور دفاعی حوالے سے مستقبل میں پھر خطرہ بن سکتا ہے اسی فکر مندی کی بنا پر وہ روس کو یوکرین میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے مگر امریکہ کی یہ فکرمندی دراصل یوکرین کی تباہی کاباعث بنتی جا رہی ہے پوٹن کی چاریوکرینی علاقوں کو ضم کرنے کا مقصد حاصل کرنے کے باوجود آگے بڑھنے اور حملے جاری رکھنے کی پالیسی کو دیکھا جائے تو ممکن ہے اِس میں کچھ انا وغیرہ کا عمل دخل ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ طیش دلانے میں امریکہ اور مغربی ممالک کا کلیدی کردار ہے۔
ایک آدھ محاذ پر یوکرینی افواج کوملنے والی جزوی کامیابیوں سے امریکہ اور مغربی ممالک نے روس کو الجھائے رکھنے اور کمزور کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کی اور اُسے مکمل ہزیمت سے دوچار کرنے میں بدل دیا یہ ایسا خواب ہے جو زمینی حقائق کے منافی ہے کیونکہ دفاعی تجزیہ کار اِس خیال سے متفق ہیں کہ تمام تر معاشی ناہمواری کے باوجود اب بھی روس ایک طویل جنگ لڑنے کے اسباب سے لیس ہے اور یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ خطے میں ایسا مظاہرہ ہوا تو یوکرین ملک کے بجائے بے آباد کھنڈرات میں تبدیل ہو کر رہ جائے گاچند دن قبل تک کوئی بھی سات مہینوں سے جاری جنگ کے خاتمے کی پشین گوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھامگر اب چار علاقوں کو ریفرنڈم کی بنیاد پر ضم کرنے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ شاید امن کا خواب تعبیر پاجائے لیکن جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے میں عالمی طاقتیں مصروف ہیں یہی اقدامات امن کی راہ  میں رخنہ ہیں کریمیا کو روس سے ملانے والے واحد پُل کو تباہ کرنے کا الزام لگا کر روس نے جس طرح یوکرین پر میزائل حملوں میں اضافہ کیااور زمینی فوج کو مختلف اطراف سے پیش قدمی کا حکم دیاہے اِس سے بھی ایسی قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے کہ فیصلہ کُن حملے کے بعد انخلا کی نوبت زیادہ دور نہیں یہ جنگ کیونکہ فوجی حوالے سے دوہم پلہ ممالک میں نہیں بلکہ کمزور اور طاقتور حملہ آور کے درمیان ہے اورجنگ کے دوران املاک کی تباہی اور جانی نقصان کمزورکاہی ہورہا ہے اسی لیے رواں ہفتے سوموار سے شروع روس کے تابڑ توڑ میزائل حملوں کے بعدغیر جانبدار تجزیہ کار امن کے آثار دیکھنے لگے ہیں اور اکثراِس خیال سے متفق ہیں کہ ممکن ہے کہ سخت موسم سرما کے آغاز سے قبل حملوں میں کمی یا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
 یوکرین پر روسی حملے کی ایک اہم وجہ روسی اکثریت والے علاقوں کو حکومتی مظالم سے بچانا تھا یہ مقصد جیسا بھی ہے ایک ریفرنڈم کے ذریعے نہ صرف حاصل ہو چکا ہے بلکہ اِن علاقوں کے روس میں انضمام پر صدر پوٹن دستخط بھی کر چکے ہیں روس نے امریکہ اور مغربی ممالک پر مشتمل دفاعی اتحاد نیٹو کو اپنی طاقت سے مرعوب کرنا تھا یہ مقصد مکمل نہیں تو بھی کسی حد تک پورا ہو چکا ہے سوم اب صدر زیلیسنکی نیٹوجیسے دفاعی اتحاد میں شمولت سے قبل نتائج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے فیصلہ نہیں کریں گے اگر وہ پھر بھی ایسی کسی انتہا کی طرف جاتے ہیں توبیرونی خطرات کے ساتھ کسی حدتک ملک میں بھی مخالفانہ آوازیں سر اُٹھا ئیں گی انھی وجوہات کی بنا پر تجزیہ کار سوموار سے جاری درجنوں میزائل حملوں کو امن کی بنیاد بنتے دیکھتے ہیں۔
جنگ کے شعلے بڑھکانے میں امریکی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اِس دوران مغربی ممالک بھی اُس کے ہمنوا دکھائی دیے مگر اِس جنگ سے باوجود کوشش کے وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ہنوزناکام ہیں البتہ تیل و گیس کی قلت جیسے بحران اُ ن کے حصے میں آئے ہیں مہنگائی اور بے روزگار الگ سر اُٹھارہی ہے جس میں یوکرینی مہاجرین کی آمدسے مزید شدت آرہی ہے نیز عدمِ استحکام،معاشی بے چینی اور بھوک و افلاس کے مسائل بھی بڑھنے لگے ہیں جس کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ مغرب کو جنگ سے فائدہ نہیں خسارہ ہوا ہے بہرحال اب ماہرین اِس قیاس سے متفق ہیں کہ امریکی ہمنوائی سے مغربی ممالک مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے ساتھ دفاعی کے علاوہ بھی ا پنے لیے د یگر نوعیت کے خطرات پیدا کر بیٹھے ہیں جو حکمت وتدبر کے منافی ہے خیر جو بھی ہو دعا کی جا سکتی ہے کہ امن کے آثار دیکھنے والوں کے قیاسات جلد حقیقت کا روپ دھار یں اور خطے کو بے مقصد لڑائی سے چھٹکارہ ملے۔

مصنف کے بارے میں