امر بالمعروف و نہی عن المنکر

امر بالمعروف و نہی عن المنکر

سب کو یاد ہے کہ عمران خان نے 2011 کے جلسہ کے آغاز میں پرانے سیاست دانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، میں ماضی کے سیاست دانوں سے کہنا چاہتا ہوں!!! اس سے پہلے آیت مبارکہ ”ایاک نعبد و ایاک نستعین“ پڑھی یعنی ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ مفہوم۔ مگر عمران نیازی ”اھدنا الصراط المستقیم“ نہیں پڑھتے یعنی اللہ کی مدد مانگتے ہیں مگر سیدھی راہ اور ان لوگوں کی راہ پر چلنے کی دعا نہیں مانگتے جن پر اللہ رب العزت نے اپنا انعام کیا اور نہ کہ جن پر غضب کیا۔ اسی طرح امر بالمعروف کی بات کرتے ہیں یعنی نیکی کا حکم دینا یا نیکی کرنا، اور اگلا فقرہ نہیں بولتے نہ کرتے ہیں کہ برائی کے کاموں سے روکیں۔ گویا نہ تو وہ ہدایت کے طالب ہیں اور نہ ہی برائی کے کاموں کے خلاف ہیں۔ ظاہر ہے ہدایت مانگیں گے تو جھوٹ چھوڑنا پڑے گا اور اگر جھوٹ چھوڑتے ہیں تو گویا سیاست چھوڑتے ہیں کیونکہ عمران خان کی سیاست اور گفتگو، کردار اور طرز زندگی سے جھوٹ نکال دیں تو شاید لاہور دا پاوا اختر لاوا اور گلوبٹ عمران خان سے زیادہ مقبول ہوں۔ اب آتے ہیں ان کی تقریر میں تکبر سے لبریز فقرے کہ ماضی کے سیاست دانوں سے کہنا چاہتا ہوں!!! غور کیجئے ماضی کے سیاست دان پرویز الٰہی اور پرویز خٹک عمران خان کی بیساکھیاں ہیں۔ وہ پکچر جو نئے آرمی چیف جناب حافظ قرآن جنرل عاصم منیر کی تعیناتی سے پہلے صبح شام آرمی چیف کے لیے ناموں کی لسٹیں خبروں، تجزیوں، بلاگرز، وی لاگرز اور خبروں کا موضوع تھے۔ غالباً دو دن پہلے آرمی چیف کی تعیناتی کے سلسلے میں حکمران اتحاد کے دو رہنماؤں وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی مشورہ کرتے ہوئے تصویر اخباروں کے پہلے صفحہ اور ٹی وی خبرناموں میں نمایاں طور پر دکھائی گئی اس میں ایک تو یہ بات عجیب سی لگی کہ جمہوریت مخالف لوگوں نے یہ پکچر کس طرح ہضم کی ہو گی کہ دو سیاست دان نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر مشورہ کر رہے ہیں اور بقول عمران احمد خان نیازی کے ماضی کے سیاست دان۔ ماضی کے سیاست دان تو عمران نیازی پہ اس قدر بھاری نکلے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد اور کوشش کے باوجود نیازی صاحب وفاق میں اپنی حکومت قائم نہ رکھ سکے۔ محض تکبر، نا اہلیت اور جھوٹ کے سبب۔ پھر ماضی کے حکمران تو درکنار ان کے بچوں محترمہ مریم نواز اور محترم بلاول بھٹو نے ہی عمران نیازی کی حکومت کی کھٹیا بار بار کھڑی کر دکھائی جس کو طاقتور حلقوں نے ملکی مفاد میں کہ سیاست اور جمہوریت جیسی بھی ہے اس کو چلنے دیا جائے، بچا لیا۔ مگر نیازی 
صاحب نے اپنے آپ کو (سچ مچ) حقیقی رہنما اور حقیقی معنوں میں مقبول رہنما سمجھ لیا حالانکہ ان کی سیاست سے جھوٹ کشید کر دیا جائے تو صرف ایک پلے بوائے بچتا ہے۔ شیخ رشید جس کو بلاول بھٹو ”گٹر“ اور باقی عوام ”ٹلی“ کے نام سے جانتے ہیں، کے منہ کی تو جیسے زپ ٹوٹ چکی ہے۔ وہ زرداری صاحب کی صدارت کے دور میں ہر مہینے حکومت کے خاتمے کی تاریخ دیتے رہے اور عمران دور میں کہتے رہے کہ مجھے اب نوازشریف، شہبازشریف کا مستقبل میں کوئی سیاسی کردار دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔ اب اگر شیخ رشید میں رتی بھر بھی شرم موجود ہے تو سیاست چھوڑ دیں۔ یہ 22 سالہ بندوبست والا نیازی جو 22 سالہ ”جدو جہد“ کہتا ہے۔ اس کا وزیر اعجاز شاہ اور دوست چودھری نثار علی خان کہتے تھے اگر فلاں بات نہ ہوتی تو آج بھی نوازشریف  وزیراعظم ہوتے۔ دراصل عمران نیازی کبھی اس قدر مقبول نہیں رہا کہ وہ 
اکثریت حاصل کرتا۔ 2018 کا الیکشن (سلیکشن) اور عمران کو مسلط کرنا بہت بھیانک سانحہ ثابت ہوا۔ رہی بات کالموں میں بار بار لکھا کہ جب سیاست کھلے گی تو عمران نیازی خبروں میں نہیں ہوں گے۔ اب نیازی صاحب نے انوکھا انداز اپنایا ہے کہ جرائم، نااہلیت اور غیر آئینی اقدامات کے بعد پونے چار سالہ دور کا احتساب دیکھ کر کہتے ہیں اب مجھے یہ کریں گے اب مجھے یہ ہو گا۔ یہ دراصل پیش بندی کے طور پر اپنے اعمال کے بدلے سے بچنے کے بیانات دیتے ہیں۔ بیانیہ فروش، نفرت فروش اور جھوٹ فروش کے طور پر جانے جانے والے عمران خان اب اس ڈھٹائی پر اتر آئے کہ میری گھڑی میری مرضی۔ منافقت اور اداکاری کی حد دیکھیں کہ آرمی چیف جناب عاصم منیر کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان کی بہت تعریفیں سنی ہیں۔ یہ بات سن کر میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ ان ڈی جی آئی ایس آئی سے سبکدوش یا تبدیل اور کس نے کیا اور کیوں کیا؟ آرمی چیف کے ناموں کی لسٹ سے یہ کس کے نام سے لرزتے تھے؟ یہ اب ان کو کہہ رہے ہیں کہ امر بالمعروف سے کام لیں گے حالانکہ بطور آئی ایس آئی چیف وہ نہ صرف امر بالمعروف کر چکے بلکہ نہی عن المنکر کا فریضہ بھی انجام دینے کے درپے تھے، موصوف نے انہیں تبدیل کر دیا۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ میرا جی نہیں چاہتا میں اس شخص کے متعلق ایک فقرہ بھی لکھوں مگر اس کے جھوٹ کی روانی، فراوانی اور ارزانی دیکھ کر سچ نہ لکھنا زیادتی ہے۔ 75 سال میں لیے گئے قرضے کا 76 فیصد بقول شوکت ترین کے ان کے دور میں لیا گیا اور کوئی کارکردگی بھی نہ دکھائی۔ ملک، قوم، معاشرت اور معیشت تباہ کر کے رکھ دی، آج باتیں کرتے ہیں۔ اگر جھوٹے مقدمات بناؤ گے تو کیا لوگ مقدمات سے اپنا موقف پیش کر کے بری نہیں ہوں گے یا وہ اس شوق میں پھنسے رہیں کہ عمران نیازی المعروف تباہی خان نے مقدمہ بنایا ہے لہٰذا دفاع نہ کریں۔ بچے بھی جانتے ہیں رانا ثنا اللہ پر مقدمہ جھوٹا ہی نہیں بے ہودہ بھی تھا۔ عمران دور میں ہر مقدمہ انتقامی کارروائی اور جھوٹا تھا۔ مصنوعی پن اس قدر کہ اربوں روپے اپنی زاتی تشہیر پر لگا دیئے، ہر فوٹو شوٹ پورے اہتمام کے ساتھ کیا کہ ہینڈ سم نظر آؤں۔ اور تو اور اپنے آپ کو لگنے والی ”گولیوں“ کی تعداد تک صحیح نہ بتا پائے اور حد یہ ہے کہ عمران اسماعیل کی شلوار سے چار گولیاں دو ہفتے بعد برآمد ہوئیں۔ دراصل ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں میں عمران نیازی کا تو تجربہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کام کرنے کا ہے، وہ اپوزیشن ہو یا حکومت۔ اب موصوف اس سہولت سے محروم ہیں تو ایک بات دوسری بات سے میل نہیں کھاتی۔ جھوٹ، نفرت، بغاوت، الزام و دشنام کی منہ زور آندھی میں واقعی جنرل صاحب کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا عملی نفاذ کر دینا چاہیے۔